• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ شام کا پہر ہے، دن کی روشنی بجھنے کو ہے ابھی بجھی نہیں ہے، رات کا اندھیرا آ رہا ہے ابھی چھایا نہیں ہے، سارا منظر اسرار کی چادر میں لپٹا ہوا ہے، ہر شئے کا رنگ بدل رہا ہے، آنکھ حیران ہے یہ شاخ ہے کہ سایہء شاخ، دن روشن ہوتا ہے اور رات تاریک، دن میں سب واضح نظر آتا ہے اور ظلمتِ شب میں کچھ نظر نہیں آتا، شام معلوم اور نامعلوم کی سرحد پر واقع ہے، شام کے جھٹپٹے میں کچھ نظر آتا ہے کچھ چھپ جاتا ہے، بلا شبہ شام دن کا سب سے پراسرار پہر ہے۔

یوں لگتا ہے پاکستان میں بھی شام ہو گئی ہے۔ ہائی برڈ نظام ہمارے سامنے دن دیہاڑے قائم کیا گیا تھا، سارا کھیل اور کھلاڑی فلڈ لائٹ کی چندھیا دینے والی روشنی میں نہائے ہوئے تھے، باجوہ صاحب جوڈرامہ کھیل رہے تھے وہ برہنہ تھا، ثاقب نثار کی عدالت میں جو حرکات ہو رہی تھیں وہ چھپ چھپا کر نہیں ، سرِ عام ہو رہی تھیں، جاوید اقبال کی نیب، چوک میں کھڑے ہو کر وہ گُل کھلا رہی تھی جو خلوت میں بھی کھیلے جائیں تو معیوب سمجھے جائیں اور فیض حمید کے ٹوٹے ہوئے بندِ قبا اندھوں کو بھی نظر آ رہے تھا، یہ بینائی سوز منظر سب دیکھ رہے تھے، یعنی جب تک عمران خان اور اسٹبلشمینٹ کا آفتابِ عشق نصف النہار پر تھا سب کچھ صاف نظر آ رہا تھا، ایک نازنین تھا اور باقی سب ناز بردار، عمران خان کے سب سیاسی مخالفین جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے گئے، جو صحافی حالتِ رکوع میں جانے پر آمادہ نہ ہوا اسے ’لفافی‘ قرار دیا گیا لیکن پھر یوں ہوا کہ خمارِ عشق ٹوٹنے لگا، سورج ڈھل گیا، شام کے سائے دراز ہونے لگے۔

جب تک یہ عشق سر چڑھ کر بول رہا تھا ہم ایک ’معلوم‘ دنیا کے شہری تھے، ہمیں علم تھا عام انتخابات کا کیا نتیجہ آئے گا، کس مقدمے کا کیا فیصلہ ہو گا، کون سی سیاسی جماعت کس کے اشارے پر کس کو ووٹ دے گی، سب کچھ روزِ روشن کی طرح عیاں تھا، تجزیہ کاروں کی زندگی بہت آسان تھی،ایم کیو ایم ، باپ پارٹی اور مسلم لیگ ق کہاں کھڑی ہے؟ بس اسی سے پتا چل جاتا تھا ادارے کہاں کھڑے ہیں اور کیا ہونے جا رہا ہے۔اب صورت احوال کچھ یوں ہے کہ باپ پارٹی، ایم کیو ایم اور ق لیگ ایک دوسرے کی طرف پشت کئے کھڑے ہیں، ایسے میں کس کو سمجھ آ سکتی ہے کہ ’ادارہ‘ کہاں کھڑا ہے، اور پھر سب سے بڑھ کر، اگر چوہدری پرویز الٰہی کا رُخِ انور بنی گالا کی طرف ہو اور چوہدری شجاعت حسین کا روئے مبارک جاتی عمرا کی جانب تو آپ کو منظر کی کیا خاک سمجھ آئے گی، جون بھائی نے فرمایا تھا ’کیا یقیں اور کیا گماں، چپ رہ۔۔۔ شام کا وقت ہے میاں، چپ رہ۔ ‘ ناظرینِ سیاست کو بھی کچھ ایسا ہی مرحلہ درپیش ہے۔شام کے دھندلکے میں کچھ سمجھ نہیں آتا یہ راستے میں رسی کا ٹکڑا پڑا ہے کہ سانپ دم سادھے لیٹا ہے۔ پچھلے ہفتے جو کچھ پنجاب میں ہوا اس کی آپ کیا تشریح کریں گے؟ کس کو توقع تھی، پرویز الٰہی 186 ووٹ لے لیں گے؟ اور پھر اسمبلی توڑ دیں گے؟ قیاس یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی ملک میں فوری انتخاب نہیں چاہتا، اسٹیبلشمنٹ بھی ملکی معاشی صورت حال کے پیشِ نظر جلد انتخاب کی حامی نہیں ہے، تو پھر ہوا کیا؟ پرویز الٰہی، جنہوں نے ساری زندگی فوج کی انگلی پکڑ کر سیاست کی ہے، کیا انہوں نے آزادی کا اعلان کر دیا ہے؟ اور دوسری طرف شجاعت حسین کی ساری زندگی بھی ’عشقِ بُتاں‘ میں کٹی ہے، وہ کس کے مشورے پر آخری عمر میں ’مسلماں‘ ہو گئے ہیں؟ یہ منظر دیکھ کر تو ہمیں بھی کبھی کبھی یہ گمان گزرتا ہے کہ ’جناب‘ کہیں سچی مچی نیوٹرل تو نہیں ہو گئے؟ یعنی پرویز الٰہی اور شجاعت حسین کی منیر نیازی والی حالت ہے، ’اب کون منتظر ہے ہمارے لئے وہاں...شام آگئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا۔‘ عمران خان کا سیاسی مستقبل بھی کچھ ایسے ہی جُھٹ پُٹے میں لپٹا ہوا ہے۔ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ ان کے تعلقات اپنے سابق عشاق سے دن کی روشنی میں کشیدہ ہو گئے تھے، لیکن اس کے بعدشام ہو گئی اور سارا منظر پراسرار ہو گیا، اب کسی کو نہیں معلوم کہ عمران خان نااہل قرار پائیں گے، اپنی پارٹی کی صدارت سے بھی ہٹا دیے جائیں گے، جیل جائیں گے یا دوبارہ وزیرِ اعظم بن جائیں گے۔چار پانچ سال پہلے ہمیں معلوم تھا کہ عدالتیں بنی گالا کی منی ٹریل پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیں گی اور پھر ہوبہ ہو ایسا ہی ہوا، مگر اب کسی کو نہیں معلوم کہ کیا ہونا ہے؟ ہم تجزیہ نگاروں کو تو باجوہ ، فیض حمید اور ثاقب نثار صاحبان نے سہل پسند بنا دیا تھا،2018 الیکشن کا ابھی اعلان بھی نہیں ہوا تھا اور ہمیں رزلٹ معلوم تھا لیکن اب یہ سہولت ’صارف‘ کو میسر نہیں ہے۔ ہر طرف شام کا اسرار پھیلا ہوا ہے، ہمیں معلوم اور نامعلوم کی سرحد پر گمانوں کے لشکر نے گھیر رکھا ہے، ساقی امروہوی نے کہا تھا ’میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گُم تھا...مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے۔‘

تازہ ترین