• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست حماقت کا نام نہیں، دانش و بینش اور حاضر دماغی کا کام ہے۔ جس میں بدلتے حالات کے تیور پڑھنے اور اُن کے مضمرات و ثمرات سے بچنے یا مستفید ہونے کی صلاحیت نہیں وہ اکھڑ مزاج، اکڑ اور جمود کا شکار ہے وہ جتنی مرضی کرکٹ کھیلے ، سیاست اس کے بس کا روگ نہیں۔ بہت سے احباب یہ استفسار کرتے ہیں کہ آپ تو کہتے تھے کہ یہ جو کرکٹ کا کھلاڑی ہے یہ سیاست کا اناڑی ہے لیکن اس کے باوجود دیکھیں وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچ گیا تو یہی جواب ہوتا ہے کہ جن بیساکھیوں سے وہ یہاں تک پہنچا ان کی مدد سے تو کوئی ایک ٹانگ پر کھڑا ریڑھی بان بھی اس کرسی پہنچ سکتا تھا جب طاقت کا استعمال ہونا ہو تو پھر کہاں کی صلاحیت اور کون سی قابلیت؟

عرضِ مدعا یہ ہے کہ آپ جو بھی ہیں اور کتنے ہی بڑے رتبے پر پہنچ گئے ہیں اپنے اندر کی انسانیت کو کبھی نہ گنوائیں، یہ زندگی چار دن کی ہے اس میں اپنی اکڑ فوں اور خود نمائی کیلئے دوسروں کے خلاف منافرت پھیلاتے ہوئے اس حد تک نہ چلے جائیں کہ باقی سب ’چور اچکے‘ ہیں بس آپ ہی کوئی ماورائی مخلوق ہیں۔آپ کبھی ٹھنڈے دماغ سے تنہا بیٹھ کر سوچئے کہ آپ اپنے مدمقابل یا اپنے سیاسی مخالفین سے متعلق عرصہ دراز سے جو تہذیب سے گری ہوئی زبان استعمال فرماتے چلے آرہے ہیں ’’چور چور ،ڈاکو ڈاکو ،کرپٹ کرپٹ… لیڈر کیا ، یہ اسلوب یا زبان کسی عام مہذب انسان کو بھی زیب دیتی ہے؟ نواز شریف یہاں تین مرتبہ کےمنتخب وزیر اعظم ہی نہیںان سے محبت و عقیدت رکھنے والے پاکستانی عوام کروڑوں میں ہیں ان کے خلاف آپ نے پیہم اخلاقیات سے گری ہوئی جو زبان استعمال فرمائی بلاثبوت و بلا جواز جو گھناؤ نے الزامات عائد کرتے چلے آرہے ہیں، اگر کسی کے ضمیر میں زندگی کی ذرا سی بھی رمق ہوتو وہ اس پرضرور شرمندگی محسوس کرتا ہے مگر افسوس کہ اتنا کچھ کرگزرنے پر بھی کوئی شرمندگی ہے نہ پچھتاوا۔ایک وقت میں وہ آپ کے محسن تھے جنہوں نے سب سے بڑھ کر اسپتال کی تعمیر میں آپ کی طرف دستِ تعاون بڑھایا تھا ،چلیں کوئی بات نہیں یہاں محسن کشی کی روایت کوئی نئی نہیں جنرل مشرف اور جنرل باجوہ کو بھی انہوں نے عزت بخشی تھی اور پھر انہوں نے جس طرح پاکستا ن کے آئین کوپامال کیا وہ ہماری افسوسناک تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سب کے باوجود نواز شریف کی آئین شکنی پر تلخی اپنی جگہ مگر انسانی وقار سے گری ہوئی کوئی ایک بات ان کے حوالے سے بیان نہیں کی جا سکتی۔ نواز شریف یا آصف علی زرداری تو چلیں آپ کے سیاسی حریف تھے ،ہوسکتا ہے ان کے خلاف منافرت سے آپ کو کچھ سیاسی فائدہ پہنچتا ہو لیکن جنرل باجوہ تو اول و آخر آپ کے محسن تھے،جنہوں آپ کو اس راج سنگھا سن پرلا بٹھایا جس کے آپ اہل ثابت نہ ہوئے۔ آج اس محسن کے متعلق کیافرمودا ت جاری ہورہے ہیں؟ چلیں یہ سب باتیں تو ماضی کا حصہ ہوگئیں آپ نے اپنی مرضی سے پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تڑوائیں اور ہر دو صوبوں کے نگران وزرائے اعلیٰ آئین و قانون کے مطابق تعینات کئے گئے۔ سید محسن نقوی جیسے ہونہار صحافی کو پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ بنا یا گیا ہے ان کی ساری زندگی ہمارے سامنے ہے کو ن ہے جوان سے پیار نہیں کرتا ؟وہ چوہدری پرویز الہٰی کی بہن کے داماد ہیں، آپ کی پارٹی کچھ اس طرح کی زبان استعمال فرما رہی ہے’’ بدترین مخالف، بڑا دشمن ،دشمن کا بیٹا ،باجوہ کا کارندہ، میری حکومت گرانے کا امریکہ کے بعد سب سے بڑا کلپرٹ‘‘ آپ اپنے ’’دعوئوں‘‘ میں سچے ہیں تو اس کے خلاف کورٹ میں جائیں، منفی پروپیگنڈا کریں یا جلوس نکالیں، محسن نقوی کی نگرانی کا دورانیہ پکا ہےبشمول شہباز شریف آپ لوگوں نے جس طرح سرکاری ملازمین کو اس ذمہ داری پر لانے کیلئے نام بھجوائے، اس سے آپ دونوں کی پولیٹیکل میچورٹی کوبا آسانی جانچا جاسکتا ہے۔ اندھوں کو بھی نظر آرہا تھا کہ محسن نقوی کے علاوہ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی دوسرا موزوں شخص اس ذمہ داری کیلئے تھا ہی نہیں مگر وہ کیا ہے کہ جس شخص کی سیاسی قابلیت یہ ہو کہ کبھی قومی اسمبلی سے استعفے قبول کروانے کیلئے احتجا ج کرتا ہو اور جب قبول ہوجائیں تو قبول نہ کرنے کیلئے احتجاج شروع کردے اس کےسیاسی اناڑی پن کو سمجھنے میں اگر کسی کو کو ئی غلط فہمی تھی تو وہ آنے والے مہینوں میں دور ہوجائے گی تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ اس تباہ حال معیشت کا سامنا ہی اس وقت نواز شریف کا اصل چیلنج ہے۔

تازہ ترین