• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس دن سے بی بی سی کی دستاویزی فلم 2022ء سے مودی کی ظالمانہ کرامات کی کہانی منظر عام پر آئی ہے، مودی کی بولتی نہ صرف بند ہوگئی ہے بلکہ جس یونیورسٹی میں بھی طلبا اور اساتذہ نے وہ فلم دکھانے کا ارادہ کیا، اس کے نوجوانوں کو پکڑ لیا گیا۔ حتیٰ کہ حکم ہوا کہ یہ فلم پورے انڈیا میں بین کر دی جائے بلکہ اُڑتی اُڑتی چہ میگوئیاں ہیں کہ فی الوقت مسلمان وائس چانسلرز اور معروف علماء سے مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں پرقابو پانے کیلئے بنیادی سطح پر دشمنیوں اور نفرتوں کو کم کرنے کا لائحہ عمل مرتب کیاگیا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ہو رہا ہے کہ نینی تال میں 4500 مسلمان گھرانوں کو گھر چھوڑنے کا کہہ کر، کئی گھر مسمار بھی کئے جا رہے ہیں، نمائشی اعلانات اپنی جگہ مگرمسلمانوں کے خلاف ظلم کی تلوار چلی جا رہی ہے اور مشہور صحافی راج صاحب نے کہا ہے کہ پہلے ہندی جنرلزم ہوتا تھا اور اب جنرلزم نے ہندو مت اختیار کرلیاہے۔

بلوچستان میں گوادر کے بارے میں کہا گیا تھاکہ اس کا شمار دنیا کی بڑی بندرگاہوں میں ہوگا مگر ہو گا تو اس وقت جب وہاں عوام کے لئے اپنے روزگار اور رہائش کے لئے کچھ مثبت اقدامات کیے جائیں گے اور سی۔ پیک کی شکل نظر آئے گی۔ شکر ہے راوی کے آس پاس کے زرعی رقبے کو فنا کرکے جو نیا شہر آباد کرنے کا منصوبہ مزارعوں کو واقعتاً تکلیف پہنچانے کے لئے تھا وہ تو ختم کر دیا گیا مگر اسلام آباد کے قرب و جوارکی تمام فصلوں کو اجاڑ کر، اسلام آباد نیو ایئر پورٹ تک نئی سے نئی عمارتیں اورکالونیاں بنائی جارہی ہیں۔ حالانکہ اتنی دور ایئر پورٹ بنانے کا جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ دنیا بھر میں ایئرپورٹس، شہری آبادی سے 40یا 50کلو میٹر دور بنائے جاتے ہیں۔ اب ان کالونیوں کے بنائے جانے کا جواز کیا ہے؟ ایک طرف اب یہ کہا جا رہا ہے کہ زمین کے نیچے پانی کی سطح کم سے کم ہوتی جا رہی ہے اور فضا جنگلوں کو کاٹنے سے آلودہ ہوتی جا رہی ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں جن لوگوں نے حکومت تک رسائی حاصل کی تھی، انہوں نے دھڑا دھڑ قرضے لئے بعد کی حکومت نے جو لوگ ساتھ نہیں ملے، ان کے قرضوں اور زبردستی زمینوں پر قبضوں پر عدالتی کارروائی کی، یہ سلسلہ گزشتہ 60 برس سے جاری ہے، ساتھ ہی نئے وفاداروں کو پلاٹ، فیکٹریاں اور قرضے دینے کی روش میںذرا برابرفرق نہیں آیا۔

مجھے یاد ہے وزیراعظم سیکرٹریٹ مکمل ہوا۔ اس زمانے میں بھی حسبِ معمول مالی معاونت کی رسیاں ڈالی جا رہی تھیں اور مختلف ایجنسیوں کے لوگ پاکستان آئے ہوئے تھے۔ انہوںنے سیکریٹریٹ کی شان و شوکت اور فرنیچر کی شاہانہ حالت کو دیکھا تو بے ساختہ کہہ اٹھے، ’’پاکستان کو ایسی عمارتوں کے ہوتے ہوئے کسی قسم کے قرضے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے‘‘ ۔

پاکستانی آرٹسٹ دنیا بھر میں ایوارڈ حاصل کر رہے ہیں۔اس سال پاکستانی آرٹسٹ شازیہ سکندر نے نیویارک میں بے مثل مجسمہ بنایا ہے، عالمی سطح پر خواتین اور معاشرے کے پچھڑے ہوئے طبقے کتنی جدوجہد کررہے ہیں۔ دنیا بھرمیں اس مجسمے کی تحسین تھی جب کہ پاکستان کے وزیراعظم تو کیا وزیر ثقافت کوبھی توفیق نہیں ہوئی کہ شازیہ کا نام لے کر پاکستانی مصوری کی تحسین کی جاتی مگر اس باب میں میں تعجب بے معنی ہے کیوں کہ وزیرثقافت کی اس باب میں دلچسپی بے معنی ہے۔ اس طرح فن و ثقافت اور ادب کے جتنے ادارے ہیں وہاں ہر چند خواتین کو، علم و ہنر کے سبب نہیں سول سرونٹ ہونے کے سبب فائز کیا گیا ہے۔ اب ان سے کون پوچھے کہ ارسطو کو ن تھا یا چغتائی بھی کوئی تھا؟اب تو شکر ہے وہ تجویز بیچ میں رہ گئی جہاں کوئی فوجی یا سیکریٹریٹ کا ملازم بھی ہو سکتا تھا۔ اب کہاں سے ڈاکٹر ذاکر حسین کو تلاش کیا جائے۔

سیاست اور تاریخ بلکہ زندہ تاریخ کے ساتھ بھی مذاق کی کوئی حد ہوتی ہیں۔ تازہ مذاق یہ ہے کہ باچا خان کانفرنس ہوئی، اس میں وہ توپ لوگ بولے جنہوں نے کبھی باچا خان کے بارے میں سنا، پڑھا یا دیکھا بھی نہ تھا۔ یہ وہ شخصیت تھی کہ انگریزوں کے سپاہی جب انہیں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگانے لگتے تو اس مضبوط جسم کے لئے سب بیڑیاں ہتھکڑیاں چھوٹی نکلتی تھیں۔ ان کے پیروں سے خون نکلنے لگتا تھامگر بولنے والوں کو علم ہی نہ تھا۔

آئی ایم ایف کے بھوت سے ڈر کر پٹرول کی قیمتیں ایک دم اور بے انتہا حد تک بڑھانے کا اچانک اعلان اور اس پر فوری عملدرآمد یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ شہباز شریف پرکبھی بے انتہا محنت کرنے پر ترس بھی آتا ہے اور کبھی میرا دماغ مائوف ہو جاتا ہے کہ ایک طرف خزانہ خالی ہونے کا نعرہ بلند کیا جاتاہے تو دوسری طرف خود وزیراعظم 5لاکھ سے 75لاکھ تک بلاسود قرضوں کا اعلان نوجوانوں کے لئے کر رہے تھے مزید ایک لاکھ کمپیوٹرز دینے کا اعلان، نوجوانوں کو اس طرح اور غصہ دلانے والی بات ہے کہ پرانا محاورہ ’’گھر میں نہیں دانے، اماں چلی بھنانے‘‘جو کانفرنس پاکستان نے 9؍جنوری کو سیلاب زدگان کےلیے فنڈز جمع کرنے کے لئے کی تھی یہ سوال بھی وزیراعظم سے ہے کہ اب سڑکیں ان تمام علاقوں میں نابود ہونے سے ہر علاقے میں بسیں کھائیوں میںگررہی ہیں۔ آخر کب ان سڑکوں کی مرمت ہوگی کہ غریب یونہی بے موت مرتے رہیں گے۔ ہائے کیسے کہوں کہ لسبیلہ کے سفر کے دوران کھائی میں 42مرد و خواتین گرکر مرگئے۔ وہ تو ہرروز کے موت کے منظر ہیں۔ خدا کے لئے بند، سڑکیں اور پل جلد تعمیر کیے جائیں۔

ایک بات جو گزشتہ چندروز سے دہرائی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن 90دن کے اندر انتخابات کرائیں۔ یہ فقرہ ضیا الحق نے بے معنی کر دیا تھا کہ وہ خود آٹھ برس حکومت کرتے رہے تھے۔حکومت سے علیحدہ ہونے کی درخشاں مثال۔نیوزی لینڈ کی پرائم منسٹر بغیر کسی پریشرکے وقت سے پہلے مستعفی ہو کرساری دنیا کے سیاسی مہروں کو آئینہ دکھا رہی ہے۔ پاکستان میں تو ایسے آئینے دستیاب ہی نہیں۔

تازہ ترین