• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کیاآپ جانتے ہیں کہ برطانیہ میں حکومت کے پاس جو سرکاری گاڑیاں ہیں ان کی کل تعداد 45ہے ۔یعنی 45 گاڑیوں کا ایک پول ہے جو تمام وزارتوں اور سرکاری دفاتر میںاستعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی گاڑی کسی کے نام پر نہیں ہے ۔کسی ضرورت کے وقت جوگاڑی موجود ہو گی وہی استعمال ہو گی ،دوسری بات یہ ہے کہ صرف ہمارے صوبہ سندھ میں سرکاری گاڑیوں کی تعداد 25ہزار ہے اور جب ہمارے وزیر اعظم نے یہ کہا تھا کہ ہم ملک کا جی ڈی پی اوپر لے کر جائیں گے تب کوئی نہیں سمجھا تھا کہ جی ڈی پی کا مطلب کیا ہے مگر اب ضرور یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ گیس ،ڈیزل اور پیٹرول کے نرخ بڑھانے ہیں ،جس کیلئے پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرادی ہے کہ اس کی تمام شرائط مان لی جائیں گی۔بجلی پر سبسڈی ختم کر دی جائے گی،گیس بھی مہنگی ہو جائے گی، پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھادی جائے گی۔آئی ایم ایف نے روپے کی قدر گرانے اور ڈالر کی قدر میں اضافہ کی شرط بھی لگادی ہے ،جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو گا اور اس کے ساتھ ہی دوست ممالک، عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھی قرض کا حصول ممکن ہے ۔پاکستان جس معاشی بدحالی سے گزررہا ہے اس سے نکلنے کیلئے آئی ایم ایف ہماری مجبوری بن گیا ہے تاہم یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے ۔ ملک میں جس طرح ڈالر کی قلت ہے وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی، اس کی ایک بڑی وجہ درآمد ات میں تیزی سے اضافہ اور بر آمدات میں کمی ہے۔ ان دونوں میں توازن قائم کرنے کے لئے برآمد کنندگان کو سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی خصوصاََ خام مال کی درآمدکی راہ میں جو مشکلات ہیں انہیں دور کیا جائے ۔ حکومت صنعتکاری کے فروغ کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔اگر پاکستان میں 20000افراد کو بلامعاوضہ پیٹرول کی سہولت میسر ہے اور ایک افسر اگر ماہانہ 400لیٹر پیٹرول استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو اکہ حکومت کو ماہانہ80لاکھ لیٹر پیٹرول فری دینا پڑتا ہے،جو خریدنے کیلئے ماہانہ تقریباَ50لاکھ ڈالر درکار ہوں گے ۔یہ وہ ناسور ہےجو ملک کو IMFکے چنگل سے آزاد نہیں ہونے دیتا۔ سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اپنی جگہ لیکن اب ملکی اشرافیہ کا یہ فری پیٹرول بند ہو نا چاہئے ۔ملک کی اشرافیہ کے فری بجلی کے یونٹ بند ہونے چاہئیں ،ملک کی اشرافیہ کے فری ہوائی ٹکٹ بند ہونے چاہئیں۔اس وقت پارلیمنٹ کے اراکین کی تنخواہوں کے حجم کو کم کرنا ہو گا اس وقت اراکینِ پارلیمان کی صرف تنخواہوں کا مجموعی حجم35ارب 54کروڑ 70لاکھ روپے ماہانہ ہے ۔ ہاؤس رینٹ، گاڑی، گھر کے بل، ٹکٹ، بیرون ملک دورے اور رہائش اس میں اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزرا، وزرائے اعلیٰ، گورنرز، وزیر اعظم، صدر کی تنخواہیں شامل نہیں ہیں۔مختلف اجلاسوں کے اخراجات اور بونس ملا کرسالانہ خرچ 85 ارب روپے کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اکثر یہ لوگ خود ٹیکس نہیں دیتے۔معزز پاکستانیو!اگر اس ملک میں واقعی تبدیلی چاہتے ہو،تو پھر یہ جنگ آپ کو خود لڑنا ہوگی۔ لوگوں کواگرگیس، بجلی اور پانی پر سبسڈی نہیں ملتی تو پارلیمنٹ کینٹین میں سبسڈیزائڈ فوڈ کسی رُکن پارلیمان کو نہیں ملنا چاہئے۔موجودہ حالات میں ملک میں کیسے ڈالروں کی بارش ہو گی؟ایک بات اور بتاتا چلوں کہ ہم ادھر ادھر اور آئی ایم ایف کی طرف بھاگتے ہیں ۔میرے ایک دوست ہیںانہوں نے بتایا کہ 2017سے 2022تک یعنی 5سال میں اوورسیز پاکستانیز نے پاکستان میں 145ارب ڈالرپاکستان بھیجے جب کہ سعودی عرب نے ان 5برسوں میںہمیں 10ارب ڈالردئیے ۔آئی ایم ایف نے ساڑھے 4ارب ڈالر دئیے ،چائنا نے 4.2ارب ڈالر دئیے اور امریکہ نے 8ملین ڈالر یعنی 1ارب ڈالر بھی پورا نہیں دیا۔ ان اعدادو شمار کو اگر جمع کر دیا جائے تو بھی 20ارب ڈالر نہیں بنتے جب کہ ان کے مقابلے میں ہمارے لوگوں نے 145ارب ڈالردئیے ۔ آپ ان کو اگرتھوڑی سی عزت دیںگے تویہ اور بھی ڈالرز ملک بھیجیں گے۔آئی ایم ایف حکومت سے یہ کیوں نہیں پوچھتی کہ وہ اتنے شاہانہ اخراجات کیوںکرتی ہے؟پاکستان جیسے چھوٹے ملک میں 70سے 80 رُکنی کابینہ کس کام کی ہے؟ کیا آئی ایم ایف صرف غریبوں پر ٹیکس لگانا جانتی ہے ؟آئی ایم ایف کو حکومتوں سے ان کی شاہ خرچیوں پر سوال کرنا چاہئے جب کہ ہم خود ہی اس کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔پنجاب اسمبلی تحلیل ہو گئی ہے ،کے پی اسمبلی تحلیل ہےتو ملک میں ساری اسمبلیاں تحلیل کر کے پو را الیکشن دوبارہ کیوں نہیں کروایا جارہا تاکہ عمران خان جو یہ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل ہے تو اس حل کی طرف جائیں ۔مرکز میں بیٹھ کر جھوٹے کیس بناکر سیاسی مخالفین کو دھمکانے جیسے اوچھے ہتھکنڈے بند کرنا ہوں گے۔

تازہ ترین