• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں ہر مہینے سینکڑوں زبانوں میں ہزاروں کتابیں چھپتی رہتی ہیں۔ ان میں کوئی ایک دو قبولیت کی سند حاصل کر پاتی ہیں۔ ’’میں بھَنّاں دلی دے کنگرے‘‘ بھی ایک ایسی کتاب ہے جو دھرتی کی آواز اور فضائوں کے وارث بھگت سنگھ کی زندگی اور اس دور کے حالات و واقعات کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ وہ کُوک ہے جو ایک صدی سوچنے اور لکھنے والوں کی توجہ پر دستک دیتی رہی مگر وقت کے جال میں جکڑے لوگوں کی سماعتیں اسکا ادراک نہ کر سکیں لیکن یہ کُوک گونجتی رہی۔ سحر شام میں ڈھلتی رہی اور سو سال گزر گئے آواز دینے والا مایوس نہ ہوا۔ پھر اُسے ایک فرد جسے دنیا مستنصر حسین تارڑ کہتی ہے، نظر آیا جس پر قدرت مہربان تھی، جو زمین کی دھڑکن محسوس کر سکتا تھا۔ درختوں کی سرگوشیاں، پرندوں کی چُپ، دریائوں کے نالے سمجھتا تھا۔ کُوک والا اُس کے دروازے پر آن بیٹھا، پھر رفتہ رفتہ اُس کے دِل اور دماغ میں سرایت کر کے اس کا ہم نفس بن گیا۔ دونوں کے درمیان راز و نیاز شروع ہوا جو کئی سال جاری رہا۔ شکل، عقل اور تحریر کے حوالے سے منفرد حیثیت کا حامل، ظاہری اور باطنی خوبصورتیوں سے مالا مال، گجرات کا جاٹ ،جس کے ذہن کی پوٹلی میں صدیوں کی تاریخ، فلسفہ، کلچر رکھ کر اسے دیوتا کا سا جاہ و جلال عطا کیا گیا تھا، کو اپنی قدر و منزلت سے خوب آگاہی تھی۔ بڑا کام کسی بڑے کے حصے میں ہی آنا تھا۔ کسی لکھنے والے کو ایسی شہرت اور محبت کم کم نصیب ہوئی ہو گی جو تارڑ صاحب کو ہوئی۔ درجنوں سفرنامے، ناول، ٹی وی ا سکرپٹ اور سیریل لکھنے والے کی ہر تحریر خاص تاثر کی حامل ہے۔ وہ ملکوں ملکوں گھومنے والا اپنے دامن میں تہذیب اور دانش کے رنگ برنگے موتی جمع کرتا رہا۔ پھر جب وہ ظاہری خوبصورتیوں سے باطنی دانش کی طرف متوجہ ہوا تو ادب کو کئی بڑے ناولوں سے مالا مال کر گیا۔ اس نے ایک دنیا سے ہمیں متعارف کروایا، ہمارے وجود میں جمالیاتی حس کو متحرک کیا، ہمیں دائرے سے آگے دیکھنے کا ادراک دیا مگر جب اس نے بھگت سنگھ کا روپ دھارا تو کمال ہو گیا۔ بھگت سنگھ کے اصلی کردار کو فکشن کا چولا پہنا کر اس کی حیات اور جدوجہد کی تفہیم نہ صرف آسان کر دی بلکہ ہر لفظ کو مقصدیت کی چاشنی سے بھر دیا۔ ہمیشہ وہ مصنف لوگوں کے دِل میں گھر کرتا ہے جس کے اپنے دل کے صحن میں اپنی تہذیب کے رنگ بکھرے ہوں، جو اپنی دھرتی کی زبان اور گیان سے آگاہ ہو۔ ’’میں بھناں دلی دے کنگرے‘‘ صرف ایک حریت پسند کی جدوجہد کی کہانی نہیں بلکہ سو سال قبل کے پنجاب کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ وارث شاہ نے شاعری میں پنجاب کی ثقافت کو تجسیم کرنے کا جو سفر آغاز کیا تھا مستنصر حسین تارڑ نے نثر میں اسے کمال تک پہنچایا ہے۔ اس ناول میں کئی تقابلی جائزے ہیں جو ہماری توجہ کو جھنجھوڑتے ہیں، خوشحال ماضی کے خوشگوار لمحوں کا احساس دلاتے ہیں۔ کئی سنجیدہ سوال ہیں جو ہم سب کے سامنے پھرتے رہتے ہیں لیکن ہم انہیں توجہ نہیں دیتے۔ یہ ناول ہمیں احساس دلاتا ہے کہ چرخے، چکی اور رنگلی مدھانی کے گرد گھومتی زندگی کتنی خوبصورت اور پرامن تھی۔ بیری والا گھر دکھاتا ہے جہاں چوڑیوں کی کھنک شادمانی کی علامت ہے، جہاں تانبے کے بڑے پیالے میں خلوص سے تیار کیا ادھ رِڑکا پینے والا چاچا اجیت پہلے اپنے بھتیجے بھگت سنگھ کے کچے دودھ جیسے وجود میں استحصالی قوتوں سے مقابلے کی جاگ لگاتا ہے پھر چہکنے اور چٹکے والے باغ کے ماتمی ماحول کو آنکھوں کی لالی بنا کر جسموں سے بھرے کنوئیں دکھاتا ہے اور ولایتی آقا کے حکم پر دیسی حوالدار کے ذریعے تذلیل کی آخری حد تک گزارتا ہے تو نیند کا شوقین لڑکا ساری غفلتیں اتار کر آہنی ارادے زیب تن کرتا ہے اور اپنے حوصلے سے ظلم اور استحصال کرنے والوں کو حیران کر کے فضا میں آزادی کی سوچ بکھیر جاتا ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ وہ دوسرے براعظموں کے لوگوں کو غلام بنائے لیکن اگر زمین کے رکھوالے اپنی ذات میں الجھے نہ رہیں بلکہ زمین سے جڑت رکھتے ہوں تو ان کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے والا حملے اور قبضے کی خواہش نہیں کرتا۔ پِلاک میں اس ناول کی تقریب پذیرائی میں مشتاق صوفی، شاہد محمود ندیم، سہیل وڑائچ، پروفیسر زبیر احمد، خالد محمود، ڈاکٹر انور اعجاز، ثروت محی الدین، ڈاکٹر غافر شہزاد اور سلطان رانجھا نے دھرتی کے بیٹے کی اس کاوش کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ یقیناً پنجاب مستنصر حسین تارڑ کا شکر گزار رہے گا کہ انہوں نے ہماری بھولی بسری قدروں اور گم ہو جانے والے لفظوں کو دوبارہ ہماری یادداشت کے صحن میں بکھیر دیا ہے۔ اس ناول کو پڑھئے اور کئی بار پڑھئے تب آپ پر لفظوں کے پس پشت منتظر معنی رازوں کی طرح کھلتے جائیں گے اور آپ کے شعور کو علم و دانش سے بہرہ ور کر کے آپ کو معتبر بنائیں گے۔ ہو سکے تو کھو جانے والے لفظوں کی فہرست بنائیں، ان کو اپنی ڈائری میں لکھیں اور اپنی روزمرہ گفتگو کا حصہ بنائیں۔

تازہ ترین