ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا: ’’میری امت میں ایک شخص پیدا ہوگا، جس کا نام ابو حنیفہ ہوگا،وہ قیامت میں میری امت کا چراغ ہے‘‘۔حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ سر کار دوعالم ﷺنے فرمایا ،میری امت میں ایسا شخص پیدا ہوگا جسے نعمان کہا جائے گا اور اس کی کنیت ابوحنیفہ ہوگی، وہ ﷲتعالیٰ کے دین اور میری سنت کوزندہ کرے گا۔(مناقب للموفق)
حضرت عبد ﷲبن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ آقا ومولیٰ رحمت ِ عالم ﷺنے فرمایا: ’’اگر دین آسمان کے پاس ہو تو یقیناً فارس کے کچھ لوگ اسے ضرور حاصل کرلیں گے ۔( معجم کبیر)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ جب آقا ومولیٰ ﷺنے سورۃ الجمعہ کی آیت وآخرین منھم لمّا یلحقوابھم تلاوت فرمائی تو کسی نے دریافت کیا ،آقاﷺ !یہ دوسرے لوگ کو ن ہیں جو ابھی تک ہم سے نہیں ملے ؟آپﷺ جو اب میں خاموش رہے۔ جب بار بار سوال کیا گیا تو آپﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر اپنا مبارک ہاتھ رکھ کر فرمایا: اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اسے ضرور حاصل کرلیں گے ‘‘۔(صحیح بخاری)
امام سیوطی اور دیگر ائمہ محدثینؒ نے بخاری ومسلم کی ان احادیث سے امام اعظم ابو حنیفہؒ کو مراد لیا ہے۔امام اعظم تابعی ہیں، علامہ ابن حجر مکیؒ فرماتے ہیں:’’علامہ ذہبی سے منقول صحیح روایت سے ثابت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے بچپن میں حضر ت انس بن مالکؓ کا دیدار کیا تھا ۔ایک اورروایت میں ہے کہ امام اعظمؒ نے فرمایا ’’میں نے کئی مرتبہ حضرت انس بن مالکؓ کی زیارت کی، وہ سر خ خضاب لگاتے تھے‘‘اکثر محدثین کا اتفاق ہے کہ تابعی وہ ہے جس نے کسی صحابی کا دیدارکیا ہو۔ ‘‘(الخیرات الحسان)حضرت انسؓ کا وصال95ھ میں اور ایک قول کے مطابق 93ھ میں ہوا ۔(تہذیب التہذیب )
علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ امام ابو معشر طبریؒ نے ایک رسالے میں صحابۂ کرا مؓ سے امام اعظمؒ کی مروی احادیث بیان کی ہیں اور فرمایا امام ابو حنیفہؒ نے سات صحابۂ کرامؓ سے ملاقات کی ہے۔آپ کے شرف ِتابعیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے،لیکن یہ حقیقت بھی ثابت شدہ ہے کہ آپ نے نہ صرف متعدد صحابہ کرامؓ کی زیارت کی، بلکہ ان سے احادیث بھی روایات کیں ،جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی شافعیؒ،امام ابن حجر مکی شافعیؒ اور علامہ علاؤالدین حصکفیٰؒ نے تحریر فرمایا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ تابعی ہیں اور ان احادیث ِ رسول ﷺکے مصداق ہیں ۔’’میری امت میں سب سے بہتر میرے زمانے والے ہیں پھر وہ جوان کے بعد ہیں پھر وہ جو ان کے بعد ہیں۔‘‘(بخاری ،مسلم)’’اس مسلمان کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا ‘‘(ترمذی ،مشکوٰۃ )
حضرت دا تا گنج بخشؒ فرماتے ہیں، شروع میں امام اعظم ؒنے گو شہ نشین ہونے کا ارادہ فرمالیا تھا کہ دوسری بار پھر امام اعظمؒ،آقا ومولیٰ ﷺکی زیارت سے مشر ف ہوئے ،نور ِمجسم ﷺنے فرمایا ،’’اے ابو حنیفہ ! تیر ی زندگی احیائے سنت کے لیے ہے تو گوشہ نشینی کا ارادہ ترک کردے ‘‘آقاومولیٰ ﷺکا یہ فرمان عالی شان سُن کر آپ نے گوشہ نشین ہونے کا ارادہ ترک فرمادیا۔ (کشف المحجوب)
حسن بن صالح ؒکہتے ہیں، آپ سخت پرہیز گار تھے،حرام سے ڈرتے اور شبہ کی وجہ سے کئی حلال چیزیں بھی چھوڑ دیتے تھے۔ میں نے کوئی فقیہ ایسا نہ دیکھا جواپنے نفس اور علم کی حفاظت آپ سے زیادہ کرتاہو ،وہ آخری عمر تک جہاد کرتے رہے ۔یزید بن ہارونؒ فرماتے ہیں، میں نے ایک ہزار شیوخ سے علم حاصل کیا، مگر میں نے ان میں امام ابو حنیفہؒ سے زیادہ نہ تو کسی کو متقی پایا اور نہ اپنی زبان کا حفاظت کرنے والا ،آپ کوزبان کی حفاظت کا اس قدر شدید احساس تھا کہ وکیعؒ فرماتے ہیں ،آپ نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ اگر ﷲتعالیٰ کی سچی قسم کھائی تو ایک در ہم صدقہ کریں گے، چناں چہ ایک بار قسم کھائی تو ایک درہم صدقہ کیا پھر عہد کیا کہ اگر اب قسم کھائی تو ایک دینا ر صدقہ کریںگے۔ (الخیرات الحسان)
آپ کے کاروباری شریک حفصؒ کہتے ہیں، میں امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ تیس سال تک رہا، لیکن میں نے کبھی نہ دیکھا کہ آپ نے اس چیز کے خلاف ظاہر کیا ہو جو آپ کے دل میں ہو ۔جب آپ کو کسی چیز کے بارے میں شبہ پیدا ہوتا تو آپ اپنے دل سے اسے نکال دیتے، اگر چہ اس کی خاطر اپنا تمام مال ہی کیوں نہ خرچ کرنا پڑے۔ (ایضاً)
اس کی مثال وہ واقعہ ہے کہ آپ کے ایک کاروبار ی شر یک نے کپڑے کا عیب ظاہر کیے بغیر اسے بیچ دیا تو آپ نے اس دن کی ساری کمائی تیس ہزار درہم خیرات کردی۔ کسی نے امام اعظم ؒ سے عرض کیا ،آپ کو دنیا کا مال واسباب پیش کیا جاتا ہے، مگر آپ اسے قبول نہیں فرماتے، حالاںکہ آپ ایمان دار ہیں اور یہ آپ کا حق ہے ۔آپ نے فرمایا، میں نے اپنے اہل وعیال کو ﷲکے سپر د کر رکھا ہے۔ وہ ان کا خود کفیل ہے۔ میرا ذاتی خرچ دو در ہم ماہانہ ہے، تو میں اپنی ضرورت سے بڑھ کر کیو ں جمع کروں؟ (مناقب للموفق)
حفص بن عبدالرحمن ؒ کا بیان ہے کہ میں نے مسعربن کدامؒ کو یہ کہتے سنا کہ میں ایک شب مسجد میں داخل ہوا، ایک شخص کو محوِ نماز پایا جس کی قرأت نے مجھے متاثر کیا۔ اس شخص نےقرآن کی ایک منزل تلاوت کی۔ میرا خیال تھا کہ اب وہ رکوع کرے گا، (لیکن)اس نے تہائی قرآن پڑھ لیا۔ پھر نصف قرآن کی تلاوت مکمل کی۔ اس نے اپنی تلاوت جاری رکھی یہاں تک کہ اس شخص نے ایک ہی رکعت میں پورا قرآن مکمل کرلیا۔ جب میں نے اسے بغور دیکھا تو وہ شخص امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ تھے۔ (تاریخ بغداد)
جب آپ کو بغداد میں قید کردیا گیا تو اپنے بیٹے حماد کو پیغام بھیجا ،اے میرے بیٹے !میرا خرچ دو درہم ماہانہ ہے، کبھی ستو کے لیے اور کبھی روٹی کے لیے اور اب میں یہاں قید میں ہو ں تو خرچ بھیج دو، یہ تقویٰ تھا کہ جیل میں بھی حکومت کا کھانا نہیں کھاتے تھے۔ (ایضاً)
حضرت شفیق بن ابراہیمؒ فرماتے ہیں، ہم ایک دن امام اعظمؒ کے پاس مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک چھت سے ایک سانپ آپ کے سر پر لٹکتا دکھائی دیا۔ سانپ دیکھ کر لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی، سانپ سانپ کہہ کر سب بھا گے، مگر امام اعظمؒ نہ تو اپنی جگہ سے اٹھے اور نہ ہی ان کے چہرے پر کوئی پریشانی کے آثار نظر آئے، ادھر سانپ سیدھا امام اعظمؒ کی گود میں آگرا۔ آپ نے ہاتھ سے جھٹک کر اسے ایک طرف پھینک دیا، مگر خود اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ اس دن سے مجھے یقین ہوگیا کہ آپ کو ﷲ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین اور پختہ اعتمادہے۔ (ایضاً)
بکیر بن معروفؒ کہتے ہیں، میں نے ایک دن امام اعظمؒ سے عر ض کیا،حضور، میں نے آپ جیسا کو ئی دوسرا نہیں دیکھا، آپ کے مخالفین آپ کا گلہ کرتے ہیں۔ آپ کی غیبت کرتے ہیں، مگر آپ جب بھی کسی کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی خوبیاں ہی بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ،میں نے کبھی کسی کے عیب تلاش نہیں کیے اور کبھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا۔ (ایضاً)
امام اعظمؒ کے بے مثال تقویٰ کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ایک بار کوفہ میں چند بکریاں چوری ہوگئیں تو آپ نے دریافت کیا بکری زیادہ سے زیادہ کتنے سال زندہ رہتی ہے؟ لوگوں نے بتایا، سات سال، تو آپ نے کئی سال تک بکری کا گوشت نہیں کھایا (کہ کہیں چوری کی بکری کا گوشت جسم میں نہ چلاجائے )
ابن ہبیرہ نے کئی مشہور علماء کو حکومتی عہدے دیے تو امام اعظمؒ کوبلوا کر بیت المال کی نظامت کا منصب پیش کیا۔ آپ نے انکار کیا، اس پر گورنر غضب ناک ہوگیا اور اس نے کوڑے مارنے کا حکم دیا۔ آپ نے کوڑوں کی سزا برداشت کرلی، مگر یہ منصب قبول نہ کیا۔ پھر گورنر نے آپ کو کوفہ کا قاضی مقرر کرنا چاہا تو آپ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم، میں اپنے آپ کو کبھی حکومت میں شر یک نہیں کروں گا‘‘۔ گورنر نے غصے میں قسم کھائی، اگر عہدہ قضا کو بھی امام ابو حنیفہؒ نے قبول نہ کیا تو ان کے سر پر تیس کو ڑے مارے جائیں گے اور جیل میں ڈال دوں گا۔
آپ نے فرمایا کوڑے تو ہلکی سزاہے، اگر وہ مجھے قتل بھی کردے تو میں یہ عہدہ قبول نہ کروں گا۔ ‘‘ایک اور روایت میں ہے ’’اگر گورنر مجھے مسجد کے دروازے گننے کا حکم دے تو میں گورنر کے حکم سے یہ کام بھی نہیں کرو ں گا اور گورنر یہ حکم دے کہ فلاں کی گردن اڑادوں، فلاں کو قید کردوں تو میں بے گناہوں کی سزاؤں پر مہریں کیوں لگاؤں ؟‘‘ یہ جواب سن کر گورنر آگ بگولہ ہوگیا۔
چناںچہ اس کے حکم سے آپ کو کوڑے مارے گئے اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ ایک رات ابن ہبیرہ کو خواب میں نبی کریم ﷺنے فرمایا، تم میرے امتی کو بلاوجہ سزادے رہے ہو، شر م کرو۔ اس دن ابن ہبیرہ نے آپ کو جیل سے رہاکر دیا۔ آپ کوفہ سے مکہ مکرمہ چلے گئے۔ جب بنوامیہ کی حکومت ختم ہوگئی تو عباسی حکومت کے دور میں آپ کوفہ واپس آگئے۔ (ایضاً)