٭…نام :نعمان، کنیت ابو حنیفہ جب کہ امامِ اعظم کے لقب سے شہرت پائی۔
٭…کوفہ میں ۸۰ھ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام ثابت تھا جو کہ فارسی النسل تھے۔
٭…قد درمیانہ، رنگت گندمی اور چہرہ حسین و جمیل تھا۔
٭…چار ہزار مشائخِ کرام سے حدیث و فقہ کا علم حاصل کیا۔
٭…فقہ حنفی کی بنیاد رکھی،جب کہ قرآن و حدیث سے کم و بیش بارہ لاکھ ستر ہزار مسائل اخذ کئے۔
٭…اپنی زندگی میں سات ہزار مرتبہ (باختلافِ روایت)ختمِ قرآن کیا اور پچپن بار حج ِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔
٭…۱۴ رجب ۱۵۰ھ کو وصال فرمایا۔ نمازِ جنازہ قاضی بغداد حسن بن عمارہ نے پڑھائی، جب کہ جنازے میں پچاس ہزار افراد نے شرکت کی۔بغداد کے خیرزان قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
٭…یحییٰ بن نصرؒ فرماتے ہیں: امام اعظم ابو حنیفہؒ اکثر رمضان کریم میں ساٹھ قرآن کریم کا ختم فرماتے تھے۔
٭…علامہ خطیب بغدادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: امام صاحب اپنی آمدنی سے مشائخ ومحدثین کی ضروریات پوری کرتے، ان کی خوراک، لباس اور جملہ ضروریات کی اشیاء انہیں خرید کر دیتے۔
٭…آپ کے صاحب زادے حماد نے سورۃ الفاتحہ ختم کی تو ان کے استاد کو ایک ہزار درہم کا نذرانہ پیش کیا، ساتھ ہی فرمایا یہ (محض) عظمتِ قرآن کے اظہار کی وجہ سے ہے۔ میرے پاس اس وقت اتنی ہی رقم ہے،اگر زیادہ ہوتی تو اس سے زائد کا ہدیہ دیتا۔
٭…ابراہیم بن عیینہ پر چار ہزار سے زائد قرض تھا، ان کے اعزہ نے باہم روپیہ جمع کیا، تاکہ قرضہ چکا سکیں۔ جب آپ کو علم ہوا تو تمام قرضہ اپنی جیب سے ادا فرمایا اور لوگوں کو ان کی رقم لوٹا دی۔
٭…اگر کوئی شخص تحفہ دیتا تو اس سے کئی گنا زیادہ لوٹاتے اور فرماتے کہ حضورﷺ نے فرمایا! جو شخص تمہارے ساتھ بھلائی کرے، اس کے ساتھ بھلائی کرو۔اگر (مالی) بھلائی نہ کر سکو تو (کم از کم) اس کی تعریف ہی کردو اور فرماتے مجھے یہ حدیث انتہائی محبوب ہے۔
ابو المویّد خوارزمیؒ نے کتاب المناقب میں لکھا ہے کہ روم کے بادشاہ نے خلیفۂ وقت کی خدمت میں بہت سامال بھیجا اورکہا کہ علما سے تین سوال کیے جائیں، اگر وہ جواب دے دیں، تو یہ مال انہیں دیا جائے۔ خلیفۂ وقت کے حکم سے علما سے سوال کیا گیا،لیکن کسی نے تسلی بخش جواب نہ دیا،امام ابوحنیفہؒ نے کھڑے ہوکر خلیفہ سے اجازت طلب کی، حالاںکہ اس وقت آپ کم سن تھے،خلیفہ نے اجازت دے دی۔
رومی سفیر سوال کرنے کے لیے منبر پر تھا، امام ابوحنیفہؒ نے اس سے پوچھا، آپ سائل ہیں؟ سفیر نے کہا،ہاں اس پر امام صاحب نے فرمایا تو پھر آپ کی جگہ زمین پر ہے اور میری جگہ منبر ہے۔ وہ اُتر آیا، امام ابوحنیفہ ؒ منبر پر آئے اور فرمایا:سوال کرو،اس نے کہا، اللہ سے پہلے کیا چیز تھی؟امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا،عدد جانتے ہو؟ اس نے کہا، ہاں، آپ نے فرمایا،ایک سے پہلے کیا ہے؟ رومی نے کہا: ایک اوّل ہے، اس سے پہلے کچھ نہیں تو امام صاحب نے فرمایا، جب واحد مجازی لفظی سے پہلے کچھ نہیں، تو پھرواحد حقیقی سے قبل کیسے کوئی ہوسکتا ہے؟ رومی نے دوسرا سوال کیا، اللہ کا منہ کس طرف ہے؟ امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا، جب تم چراغ جلاتے ہو تو چراغ کا نور کس طرف ہوتا ہے؟رومی نے کہا،یہ نور ہے،اس کے لیے ساری جہات برابر ہیں۔
تب امام صاحب نے فرمایا،جب نور مجازی کا رخ کسی ایک طرف نہیں، تو پھر جو نور السّمٰوٰت والارض ہمیشہ رہنے والا، سب کو نور اور نورانیت دینے والا ہے، اس کے لیے کوئی خاص جہت کیسے متعین ہوئی؟رومی نے تیسرا سوال کیا،اللہ کیا کرتا ہے؟ امام صاحب نے فرمایا، جب منبر پر تم جیسا اللہ کے لیے مثل ثابت کرنے والا ہو،تو وہ اسے اُتارتا ہے‘اور مجھ جیسے موحّد کو منبر کے اُوپر بٹھاتا ہے‘ہر دن اس کی ایک نرالی شان ہوتی ہے۔ یہ جواب سن کر رومی چپ ہوگیا اور مال واسباب چھوڑ کر چلا گیا۔