پاکستان میں اگر کوئی مفاہمت کا بادشاہ ہے تو وہ صرف سابق صدر آصف علی زرداری ہیں، جنہوں نے اپنے خون کے پیاسوں کو بھی معاف کرکے اقتدار میں حصہ دیا، جنہوں نے اپنی جان کے دشمن کو بھی شہید بی بی کے سبق کے مطابق ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کے تحت معاف کردیا۔ سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اگر آصف علی زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں تو ان ہی کی جماعت کے سید یوسف رضا گیلانی بھی مفاہمت کے بادشاہ ہیں۔ یوسف رضا گیلانی پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، اس شخص کی جمہوریت اور پی پی پی سے وفالکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے کیوں کہ سچ لکھنا اتنا آسان نہیں، جو سید یوسف رضا گیلانی پر بطور وزیر اعظم بیتی اور جو ان کے خاندان پر ایک خط نہ لکھنے کے جرم پر مصیبت ڈھائی گئی، اس پر لب کشائی کرنا میرا جرم بن سکتا ہے ۔میں صرف اتنا لکھنا چاہتا ہوں کہ سید یوسف رضا گیلانی اگر ذوالفقار مرزا کی طرح آصف علی زرداری کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتے تو نہ وزیر اعظم ہائوس سے نکالے جاتے اور نہ ہی حیدر گیلانی اغوا ہوتے۔ یوسف رضا گیلانی پرویز مشرف کےدور میں بھی قیدی رہے، ان پر الزامات میں سے ایک الزام عوام کو نوکریاں دینا بھی تھا۔ یوسف رضا گیلانی یوں بھی پاکستان کی ایک منفرد شخصیت ہیں کہ انہوں نے مشکل حالات میں بھی اپنی جماعت کے خلاف بغاوت نہ کی، یوسف رضا گیلانی پر بطور وزیر اعظم ،آصف علی زرداری کو کھڈے لائن لگانے کا پریشر رہا، دھمکیاں دی گئیں مگر یوسف گیلانی نے آصف زرداری سے ہی نہیں بلکہ پورے سندھ سے وفا کی۔ یہی جرم ہے جس کی پاداش میں وہ نااہل ہوئے،ان کا بیٹا اغوا ہوا اور ملتان کی سیاست سے انھیں باہر کرواکے شاہ محمود قریشی کوان کا متبادل بنانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی سے نفرت کا اظہار ہر بھٹو مخالف سیاستدان کرتا آیا ہے،لیکن ملتان کا سید ہر محاذ پر ڈٹا رہا، جھکا نہیں، بھرپور مزاحمت کرتا رہا، جب جب اسے پی پی پی سے توڑنے کی مہم چلائی گئی، پیرانِ پیر کی پاکستان میں موجود اس نشانی نے ثابت کیا کہ وہ حسینی ہے اور حسینی اپنے محسنوں سے دغا نہیں کرتے۔ یوسف رضا گیلانی کو نواز شریف نے نااہل کروایا، لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ نواز شریف خود اسی گڑھے میں گر گئے اور نااہل ہوگئے۔عمران نیازی نے نواز شریف کو نااہل کروایا، آج خود اس گڑھے میں اوندھے منہ گرنے کو ہیں۔ یوسف رضاگیلانی آج بھی سینیٹر ہیں اور سینیٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن ہیں، ان کا بیٹا قومی اسمبلی کارُکن ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانے والوں کی سیاسی بساط الٹ چکی۔ یوسف رضا گیلانی اور ان کا خاندان آج بھی عوامی مقبولیت کی معراج کے ثمرات لوٹ رہا ہے، وہ تلخ سے تلخ حالات میں بھی ملتان میں ہی نظر آتے ہیں، ان کے گھر کے دروازے عوام کیلئےآج بھی کھلے ہوئے ہیں۔گیلانی خاندان نے ملتان آباد کیا ہے اور سنوارا بھی ہے، یہاں کے اسپتال، یونی ورسٹی، ائیرپورٹ سے لے کر سڑکیں اور ملتان کا موجودہ نقشہ گیلانی خاندان کے ہی مرہونِ منت ہے اور ان کی اس خطے میں مقبولیت ہی ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں اس خاندان کو اپنے تمام حلقوں میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ ووٹ ملے تاہم ان کے نتائج شکست میں تبدیل کیے گئے، جنوبی پنجاب کی سیاست گیلانی خاندان کے بغیر ایسی ہی ہے جیسے ہندوستان میں کانگریس گاندھی خاندان کے بغیر۔ شائستہ مزاج یوسف رضا گیلانی پنجاب ہی نہیں خیبرپختونخوا اور سندھ میں بھی اپنا اثر رکھتے ہیں، آنے والے انتخابات میں اگریوسف رضاگیلانی کے خلاف پھر کوئی منظم مہم نہ چلی اور پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب ان کے حوالے کیا تو کوئی شک نہیں کہ جنوبی پنجاب سے پیپلز پارٹی کلین سویپ کرتی دکھائی دے گی، پیپلز پارٹی سے گزارش ہے کہ گیلانی صاحب کی فہم و فراست و بصیرت کو سینیٹ کے ساتھ ساتھ پنجاب کی سیاست میں بھی استعمال کریں کیوں کہ پنجاب کو جتنا یوسف رضا گیلانی جانتا ہے اتنا شاید میاں محمد نواز شریف بھی نہ جانتا ہو۔ مزاحمتی کرداروں کو سیاست سے چند ماہ کے لئے الگ تو کیا جا سکتا ہے لیکن مستقل انھیں سیاست سے باہر کرنا کسی صورت ممکن نہیں، خوشی کی بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف بھی گیلانی صاحب کے نقش قدم پر چل کر مزاحمت کا راستہ اختیار کررہے ہیں مگر مزاحمت کے رستے میں سب سے بڑی شرط قربانی ہے جو یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ان کے خاندان نے بھی دی، دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاست کے دیگر مزاحمتی کردار ایسی قربانی دے سکتے ہیں یا پھر یہ کام صرف اس ملک میں پی پی پی والوں کے کرنے کا ہی رہ گیا ہے؟