لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے کے خلاف درخواست پر گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے جواب جمع کرا دیا جس میں کہا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل نہیں کی تو الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کی ذمے داری نہیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے کے خلاف شہری منیر احمد کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
دورانِ سماعت پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، شہباز گِل، فواد چوہدری، سبطین خان اور اسلم اقبال کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔
گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ جب گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو الیکشن کی تاریخ دینا اس کی آئینی ذمے داری ہے، گورنر نے الیکشن کمیشن کے اختیار میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔
گورنر پنجاب نے درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے اپنے جواب میں مزید کہا ہے کہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے، گورنر آئین اور قانون کے مطابق فرائض انجام دے رہے ہیں۔
جسٹس جواد حسن نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں منطق سے چلنا ہو گا، پہلے دیکھنا ہو گا کہ لارجر بینچ کی ضرورت ہے یا نہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب جمع کرانے کے لیے عدالت سے وقت مانگ لیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرا بطور وکیل کل ہی تقرر ہوا ہے، میں نے عدالت کے حکم بھی نہیں دیکھے اور جواب بھی تیار نہیں کیا۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ الیکشن 90 دن میں کرانے سے متعلق عدالتی نظائر بھی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن ہم نے کرانے ہیں لیکن تاریخ گورنر نے دینی ہے، ضمنی الیکشن کی تاریخ الیکشن کمیشن نے دینی ہوتی ہے، لیکن جنرل الیکشن کی تاریخ دینے کے اختیار میں قانون مختلف ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر گورنر اور الیکشن کمیشن تاریخ نہ دیں تو صدر الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اس میں عمل درآمد میں رکاوٹیں ہیں۔
جسٹس جواد حسن نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن بتا دے کیونکہ گورنر کو تو میں نہیں کہوں گا۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے سوال کیا کہ اگر تاریخ کا اعلان ہو جائے اور الیکشن کمیشن اس پر عمل درآمد نہ کر سکے تو کیا ہو گا؟
جسٹس جواد حسن نے ہدایت کی کہ آرٹیکل 105 کی تشریح کرنا ہو گی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی تاریخ نہ دے، آرٹیکل 218 کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کرانا ہوتے ہیں، اگر گورنر الیکشن نہیں کراتے تو الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 218 کے تحت الیکشن کرانا ہی ہیں، صوبائی اسمبلی کا الیکشن جنرل الیکشن ہی ہو گا، اگر الیکشن کمیشن بھی انکار کرے تو صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تو انکار نہیں کیا، جبکہ کیس میں صدرِ مملکت تو فریق ہی نہیں، آئیڈیلی تو گورنر کو الیکشن کا کہا جانا چاہیے، دیکھنا یہ ہے کہ اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل نہیں کی تو کیا الیکشن کی تاریخ گورنر نے دینی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 90 میں سے 25 دن پہلے ہی گزر چکے ہیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ گورنر کے جواب کا پیرا 13 بھی پڑھ لیں، وزیرِ اعلیٰ نے اسمبلی کی تحلیل کی آزادانہ ایڈوائس نہیں دی۔
تحریکِ انصاف کے وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اگر گورنر نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو نگراں حکومت کیسے بنا دی؟ قانون کے تحت نگراں حکومت تو بعد میں بننا چاہیے تھی۔
اس موقع پر فواد چوہدری نے کہا کہ یہ آئین کے اسی حصے پر عمل کرتے ہیں جو انہیں سوٹ کرتا ہو۔
جسٹس جوادحسن نے کہاکہ اب گورنر کے وکیل شہزاد شوکت کو سننا بہت ضروری ہے۔
ن لیگی رہنما رانا مشہود نے عدالت کو بتایا کہ گورنر پنجاب کے وکیل سپریم کورٹ میں ہیں، انہوں نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی ہے کیونکہ وہ خود سماعت سننا چاہتے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے استدعا کی کہ عدالت اس پر فیصلہ دے کہ تاریخ کس نے دینی ہے۔
جسٹس جواد حسن نے ان سے کہا کہ مجھے سیاسی نہ بنائیں، میں قانون کا آدمی ہوں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ آپ پر تو کوئی دشمن بھی اعتراض نہیں کر سکتا۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ مجھے ابھی ایک جنازے میں جانا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں اپنے دلائل ختم کر لیتا ہوں۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ رانا مشہود صاحب! آپ تمام نکات شہزاد شوکت کے لیے نوٹ کرتے جائیں، ویسے میں سب کچھ عبوری حکم میں لکھوا دوں گا۔
عدالت نے گورنر اور الیکشن کمیشن کو جواب کی ہدایت کر دی۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ گورنر پنجاب تحریکِ انصاف کی درخواست پر بھی جواب دے دیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اگر 3 دن میں تاریخ نہ آئی تو 90 دن والی کنڈیشن کی خلاف ورزی ہو جائے گی۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ 13 فروری تک کیس کو سن کر میں نے فیصلہ کر دینا ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہفتے کو کیس سن لیں، اب تو عدالتیں رات 12 بجے تک کھلی رہتی ہیں۔