سابق وزیر اعظم عمران خان نے انتخابات کرانے کیلئے موجودہ حکومت پردبائو ڈالنے کیلئے’ ’جیل بھرو تحریک ‘‘ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے، تاہم انہوں نے ابھی تک’’ جیل بھرو تحریک ‘‘ کی تاریخ کا تعین نہیں کیا البتہ اگلے روز انہوں نے ’’جیل بھرو تحریک ‘‘ کو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے90روز میں انتخابات نہ کرانے سے مشروط کر دیا ہے شنید ہے اب انہوں نے ’’جیل بھرو تحریک ‘‘ شروع کرنےکیلئے آئینی ماہرین کو مشاورت کیلئےبلا لیا ہے انہوں نے پچھلے ڈھائی ماہ سے ’’زمان پارک ‘‘ میں’’ڈیرے ‘‘ ڈال رکھے ہیں اور ممکنہ گرفتاری کے خدشہ کے پیش نظر اپنی تمام تر سرگرمیاں ’’زمان پارک ‘‘تک محدود کر دی ہیں اوروہ وڈیو لنک سے روزانہ قوم سےیوں خطاب کرتے ہیں جیسے وہ اب بھی وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہو ں۔ جمہوری معاشروں میں مطالبات منوانے کیلئے جہاں پارلیمنٹ کے اندر آواز بلندکی جاتی ہے وہاں سڑکوں پر بھی صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے دنیا بھرمیں احتجاج ہوتا ہے ملین مارچ ہوتے ہیں دھرنا دے کر سڑک بلاک کی جاتی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کے درو دیوار پر گندے کپڑے لٹکائے جاتے ہیں بلکہ احتجاج اور دھرنے کے ساتھ کاروبار زندگی بھی جاری رہتا ہے حکومت بھی مفلوج ہوتی ہے اور نہ ہی کار سرکارمیں مداخلت کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں گنتی کے چند افراد سڑک پر دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں اور ٹریفک کا نظام درہم برہم کر دیتے ہیں۔اگست2014ء کے لانگ مارچ کی آڑ میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے 15،20ہزار کارکن ریڈ زون میں بیٹھ گئے اور پارلیمنٹ کے سامنے 126دن رونا دھونا جاری رکھا ،پوری پارلیمنٹ دھاوا بولنے والوں کے سامنے کھڑی ہو گئی بالآخر عمران خان کو16دسمبر2014ء کو سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد بے نیل مرام لوٹ گئے ۔نواز شریف کی حکومت کے خاتمہ کیلئے عمران خان نے کبھی ’’لاک ڈائون‘‘ اور کبھی ملک گیر احتجاج کی کال دی لیکن انہیں کامیابی نہ ملی۔ 2018ء کے متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں بر سر اقتدا رآنے کے بعد عمران خان نے اپوزیشن کو ایک دن بھی سکھ کا سانس نہ لینے دیا بالآخر عمران خان کے طرز عمل نے اپوزیشن کو متحد کر دیا اور پھر اپوزیشن نے ایک ہی ہلےمیں عمران خان کو ’’ آئوٹ‘‘ کر دیا ۔ پچھلے دس ماہ سے عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کرانے کیلئے حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن شروع کر رکھا ہے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں قومی اسمبلی سے ’’باجماعت‘‘ استعفیٰ دے دیا لیکن جب یہ حربہ ناکام ہو گیا تواسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر کے ایک اور ناکامی کا طوق اپنے گلے ڈال لیا پھر انہوں نے 26نومبر2022ء کو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا لیکن اگلے روز قبل ازوقت انتخابات کرانے کے دبائو کا حربہ استعمال کرنے کیلئےدونوں اسمبلیوںکی ’’بلی ‘‘دینے کا فیصلہ کر لیا ،چوہدری پرویز الٰہی عمران خان کو صوبائی اسمبلی توڑنے کے خطرناک نتائج سے آگاہ کرتے رہے لیکن عمران خان نے ان کی ایک نہ سنی اور دونوں اسمبلیاں تڑوا کر ’’ زمان پارک‘‘ میں گوشہ نشین ہو گئے مبادا انہیں باہر نکلنے پر دھر لیا جائے ۔ انہوںنے ایک خطرناک بیان جاری کر دیا کہ آصف زرداری انہیں قتل کرانا چاہتے ہیں، رہی سہی کسر اگلے روز نکال دی اور کہا کہ ان کوقتل کرنے کے لئے جنوبی وزیر ستان کے دو افراد کو رقم بھی ادا کر دی گئی ہے ۔اب عمران خان نے اپنے ترکش سے آخری تیر ’’جیل بھرو تحریک ‘‘ کا نکا لاہے۔ انہوں نے وڈیو لنک پر کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے موقع پر اپنا جو پیغام ریکارڈ کرایا اس کی تان ’’جیل بھرو تحریک ‘‘ پر ٹوٹی، معلوم نہیں عمران نےجیل بھرو تحریک کا اعلا ن کور کمیٹی کی مشاورت سے کیا ہے یا سرپرائز دیا ہے؟متحدہ ہندوستان میں کانگریسی لیڈروں نے آزادی کے لئے بار ہا جیل بھرو تحاریک چلائیں، پاکستان میں 50کے عشرے میں جیل بھرو تحریک شروع کی گئی اسی طرح مارچ 1977ء کو جیل بھرو تحریک میں 45ہزار افراد نے گرفتاریاں پیش کیں اور پی این اے کے ساڑھے تین ہزارکارکنوں نے نظام مصطفی ٰﷺ تحریک میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے لیکن یہ تحریک کامیاب نہ ہوئی بلکہ اس کے نتیجے میں ملک پر مارشل لا مسلط ہو گیا۔جنرل ضیاالحق کے دور میں ایم آر ڈی کی تحریک چلی جس میں لوگوں نے گرفتاریاں تو پیش نہ کیں البتہ مارشل لائی حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں سیاسی رہنمائوں کو جیلوں میں ڈالا۔ایسا دکھائی دیتا ہے عمران خان نے’’ ہوم ورک‘‘ کئے بغیر جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا بڑا اعلان کر دیا ، اگرچہ انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ جیل بھرو تحریک کی خود قیادت کریں گےلیکن وہ پچھلے ڈھائی ماہ سے ’’زمان پارک‘‘ میں استراحت فرما رہےہیں، عمران نے اپنے سیاسی قد کاٹھ سے بڑا فیصلہ کیا ہے جیل بھرنے کا حوصلہ جماعت اسلامی اور جمعیت علما ء اسلام کےکارکنوں میں پایا جاتا ہے۔رانا ثنا اللہ نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ڈرانے کیلئے کہہ دیا ہے کہ جیل بڑی مشکل جگہ ہوتی ہے،عمران خان نے گرفتاریاں پیش کرنے والے کارکنوں کی رجسٹریشن شروع کر دی ہے، اگر عمران خان کی جیل بھرو تحریک میں ایک لاکھ کارکن گرفتاریاں پیش کر دیں توپورے ملک میں عمران خان ’’واہ واہ ‘‘ ہو جائے گی اور اگر ترکش سے نکلا یہ آخری تیر بھی نشانے پر نہ لگا توعمرانی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔