• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگریزی کا ایک محاورہ ہے Give the Devil his Due یعنی ابلیس کو اس کے حصے کی داد تو ملنی چاہئے، لہٰذا اگر نیب اور عدلیہ سے نادانستہ ہی سہی، کوئی نیکی سرزد ہو گئی ہے توہم پر سپاس گزاری لازم ہے۔اس ’’نیکی‘‘ کی تفصیل آگے عرض کرتا ہوں۔ْْقصہ کچھ یوں ہے کہ جب ملک میں ہائی برڈ نظام کی بنیادیں مضبوط کی جا رہی تھیں تو سب ادارے یکسو تھے، ہدف یہ تھا کہ عمران خان کی مخالف ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے، باجوہ صاحب اور فیض حمید صاحب پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلا رہے تھے، اسٹیج پر ثاقب نثار اور جاوید اقبال جیسی معزز پُتلیاں محوِ رقص تھیں، 2017سے 2020 تک نیب اور اعلیٰ عدلیہ نے مل کر ایک جیل بھرو تحریک شروع کر رکھی تھی، جس میں نواز شریف اور ان کے تقریباً سب معتمد ساتھی، بے سروپا الزامات کے تحت پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیے گئے،مہینوں اور برسوں تک ان اصحاب کی ضمانت نہیں ہونے دی گئی۔ ظلم کی اس داستان میں اسیر سیاست دانوں کا اکثر تذکرہ رہتا ہے، مگر جو غیر سیاسی لوگ اس معرکے میں کام آئے ان کی الم ناک کہانی کم کم سننے میں آتی ہے۔ مثلاً، حال ہی میں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے خلاف کیس کا فیصلہ آیا ہے،جو اس دورِ ناروا کی ایک کلاسیک مثال ہے۔فواد صاحب کو گرفتار کرنے کے بعد سوچا گیا کہ کیس کیا بنانا ہے، چودہ ماہ بعد ریفرنس فائل کیا گیا، انہیںانیس ماہ حراست میں رکھا گیا، ضمانت کی اپیل ثاقب نثار کی میز پر مہینوں جوں کی توں پڑی رہی، قریباً پانچ سال کیس چلا، اور آخر انہیں ’با عزت‘ بری کر دیا گیا۔کیا اس فحاشی کو نظامِ انصاف کہتے ہیں؟ گندے دھندے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں، ایسی لا قانونیت کی مثال تو جنگل بھی نہیں پیش کر پائے گا۔ فواد حسن فواد کا قصور کیا تھا؟ انہیں کہا گیا وعدہ معاف گواہ بنو، بس یہ کہہ دو کہ شریفوں کے کہنے پر یہ یہ غیر قانونی کام ہوا، اور ابھی اسی وقت نیب کے دفتر سے نکلو اور اپنے گھر اپنے بیوی، بچوں اور اپنی ماں کے پاس چلے جائو، ورنہ تمہیں سال ہا سال جیل میں سڑنا پڑے گا، مالی نقصان اٹھانا پڑے گا، اور تمہاری شہرت کو ہمیشہ کے لئے داغ دار کر دیا جائے گا۔ ساری زندگی نیک نامی کمانے والے افسر کے لئے، اپنی ریٹائرمنٹ کے دہانے پر یہ فیصلہ کرنا بہت دشوار ہونا چاہئے تھا، مگر فواد صاحب نے بہت آسانی سے ایک لمحے میں فیصلہ کر لیا۔’میں غلط بیانی نہیں کر سکتا‘، یہ کہہ کر انہوں نے غیر معینہ مدت کے لئے زنداں کی صعوبتوں کا انتخاب کر لیا۔آپ ذرا خود کو فواد صاحب کی جگہ رکھ کر سوچیں، کیا یہ آسان فیصلہ ہے؟ سو دلیلیں ذہن میں آتی ہیں، اضطراری حالت میں دین بھی کیا کیا روا قرار دے دیتا ہے، بعد میں کہا جا سکتا ہے کہ میں نے بہ حالتِ جبر بیان دیا تھا، مگر ایسے سب وسوسوں کو رد کر کے اپنے ضمیر کے مطابق فوری فیصلہ کرنا اور پھر ثابت قدم ہو جانا، یہ ہما شما کا کام نہیں ہے۔

پاکستان میں نظا مِ انصاف کے نام پر جو کھیل کھیلا جاتا ہے اس کے بارے اب اس ملک میں دو آرا نہیں ہیں، پہلے بھی یہ کوئی راز نہیں تھا، مگر اب تو یہ تماشا سرِ عام ہو رہا ہے، مزید ثبوت سامنے آ رہے ہیں ، پہلے تو بات جج ارشد ملک تک تھی، اب باجوہ صاحب بھی اقرار کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کیس اور سزائیں منصوبے کا حصہ تھیں، شوکت ترین کا کرپشن کیس ختم کرنے کے لئے سپریم کورٹ کو فیض حمید نے مینج کیا تھا، کہیں ’جوائی کورٹ‘ کا چرچا ہے، اگر پچھلے کچھ برسوں میں اعلیٰ عدلیہ میں پچاس سیاسی کیس سنے گئے تو اڑتالیس بینچ کے ممبرز وہی مخصوس جج حضرات تھے، قانون کی شدھ بدھ رکھنے والا ہر شخص کہہ رہا ہے کہ عدلیہ کے دو جج بیٹھ کر ملک کا آئین از سر نو تحریر کر دیتے ہیں، یعنی جس آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی نمائندے درکار ہیں، یعنی لگ بھگ سترہ کروڑ لوگوں کے نمائندوں کی حمایت درکار ہے، وہ ’کارنامہ‘ دو جج سر انجام دے دیتے ہیں، اپنی مرضی کے جونئیر جج اوپر لانے کے لئے معزز عدلیہ حکومت کو سرِ عام بلیک میل کرتی ہے، اپنی مرضی کا اٹارنی جنرل لانے کے لئے پورے نظام کو مذاق بنا دیا جاتا ہے۔ جب عدالتیں لاقانونیت کا گڑھ بن جائیں تو کون سا انصاف اور کہاں کی عدلیہ۔پہلے بھی عدالتوں کی ناقابلِ رشک تاریخ میں بہت ’نازیبا حرکات‘ ہوتی رہی ہیں، مگر سترپوشی کا کچھ نہ کچھ اہتمام ضرور کر لیا جاتا تھا، اب تو یہ برہنہ کھیل سرِبازار، ہٹ دھرمی سے کھیلا جا رہا ہے۔ہماری آنکھوں کے سامنے اس ریاست کا اخلاقی دیوالا پٹ رہا ہے، کیا ہمیں خاموشی سے اس جرم کا نظارہ کرتے رہنا چاہئے؟ ہم شہری ہیں کہ تماش بین؟

جب بیسیوں بے گناہ لوگوں کو یہ انصاف کے مجاور پسِ دیوارِ زنداں دھکیل رہے تھے تو ان میں فواد حسن فواد بھی شامل تھے، فواد جب جیل گئے تو وہ بائیس گریڈ کے افسر تھے، جب باہر نکلے تو نہ صرف شاعر بن چکے تھے بلکہ صاحبِ دیوان بھی ہو چکے تھے۔ اور طرہ یہ کہ وہ شاعری بھی گل و بلبل کی نہیں بلکہ دار ورسن کی فرماتے ہیں۔ اہلِ حکم کا خیال ہو گا باقی قیدیوں کی طرح یہ صاحب بھی ایک دو بیان دے کر غبارِ تاریخ میں گم ہو جائیں گے، مگر انہوں نے اپنے مجموعہ ’کنجِ قفس‘ میں وہ شاعری کی ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس ملک کے منصفوں کی ’عزت افزائی‘ کا باعث بنتی رہے گی ۔Give the Devil his Due، نیب اور عدالتوں کا شکریہ تو بنتا ہے، جنہوں نے ہمیں ایک اتنے عمدہ شاعر کا تحفہ دیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین