• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے دنوں بعد کل پاک ٹی ہائوس گیا۔ حلقۂ ارباب ذوق کے اجلاس میں شرکت کی اور پھر رات دیر گئے پرانی انارکلی میں ادیبوں شاعروں سے گپ شپ کرتا رہا۔ پہلی بار میں 1980میں پاک ٹی ہائوس گیا تھا۔ 43سال پرانا تعلق ذہن کے شاخچوں پر کھل اٹھا۔ کئی واقعات آنکھوں میں گھوم گئے۔ کسی ٹیبل سے خوشبوآئی تو کہیں سے دھواں اٹھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہاں اقبال ساجد اور حسن رضوی بیٹھے تھے۔ کیا ہوا یہ گالی گلوچ کیوں یاد آ گئی ہے۔ اقبال ساجد ایک سینئر شاعر سے کہہ رہا ہے، ’’شعر بھی مجھ ہی سے لکھواتے ہو اور گالیاں بھی مجھ ہی کو نکالتے ہو‘‘۔ جواب میں یہ آواز کانوں میں گونجی، ’’پیسے دے کر لکھواتا ہوں۔ مفت نہیں۔‘‘ یہ بھی انتہائے ستم طریفی ہے کہ ان موصوف کو حکومت پاکستان نے ادب کا پرائیڈ آف پرفارمنس دیا اور بیچارے اقبال ساجد کو ایوارڈ تو کجا کسی بھی نوع کی حکومتی پذیرائی بھی میسر نہ آ سکی۔ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے۔ افتخار نسیم امریکہ سے آیا ہوا تھا۔ اس نے ایک نظم سنائی تو میں نے اسے ایک چٹ دی، جس پر لکھا تھا، ’’تمہارے پاس چوبیس گھنٹے ہیں‘‘۔ اور وہ چوبیس گھنٹوں میں واپس امریکہ پرواز کر گیا۔ تقریباً دس سال کے بعد لندن میں اس سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا، ’’تم اس جملے سے اتنے خوف زدہ کیوں ہو گئے تھے‘‘۔ کہنے لگا، ’’مجھے احساس ہو گیا تھا کہ جو کچھ میں نے نظم میں کہا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔ میں نے نہ صرف وہ نظم ضائع کردی بلکہ توبہ بھی کی‘‘۔

ایک اور واقعہ جو میں کہیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ ایک بار ایک میز پر انتظار حسین، زاہد ڈار، سہیل احمد خان اور چند دوسرے ادبا محوِ گفتگو تھے۔ میں نے اپنی ایک غزل سنائی جس کے دو شعر ابھی تک یاد ہیں

ورقہ ورقہ خوابیں لکھنا

اپنا کام کتابیں لکھنا

اس کا سال میں اک خط لکھنا

اپنا روز جوابیں لکھنا

انہوں نے غزل کو بہت ناپسند کیا کہ خواب سے خوابیں اور جواب سے جوابیں کیسے بن سکتا ہے۔ میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی لفظ دلی میں مذکر ہے تو لکھنؤ میں مونث ہو جاتا ہے اور بھی دلائل دیئے لیکن وہ میر ی بے عزتی پر تلے ہوئے تھے۔ میں آخر کار اٹھ کر چلا آیا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ میرے دلائل وزنی ہیں۔ میں دوسرے دن لاہور میں میانوالی کے ایک دوست میجر رفیع اللہ سے ملنے دہلی مسلم ہوٹل گیا۔ دن بھر گپ شپ ہوئی۔ شام کوا نہیں کسی شادی کی تقریب میں جانا تھا۔ میں نے کہا۔ مجھے راستے میں ٹی ہائوس اتار دیں اور اپنے ایک گارڈ سے کہیں کہ مجھے اپنی کلاشنکوف بھی دے دے۔ واپسی پر لے لیجئے گا۔ میں ادیبوں پر ذرا رعب ڈالنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے کلاشن کوف دے دی اور سختی سے احتیاط برتنے کو کہا۔ میں ٹی ہائوس کے اندر داخل ہوا اور میں نے اسی میز پر کلاشنکوف رکھتے ہوئے کہا، ’’تو جی کل بحث جہاں ختم ہوئی تھی۔ پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں۔‘‘ میں نے دیکھا کہ وہ کبھی مجھے دیکھتے ہیں اورکبھی کلاشکوف کو۔ میانوالی کے لوگوں کے بارے میں پہلے ہی کوئی خوشگوار تاثر موجود نہیں تھا۔ مظفر علی سید ذہین آدمی تھے انہوں نے فوراً کہا۔ میں نے رات غور کیا تھا تم ٹھیک کہہ رہے تھے۔ کئی لفظ ایسے ہیں جو مذکر بھی ہیں اور مونث بھی۔ پھر یہ کوئی پتھرپر لکیر نہیں۔ کوئی لفظ جو کسی علاقہ میں مذکر ہے کسی اور علاقہ میں مونث بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے تمہارا استدلال ٹھیک ہے۔ پرانی انار کلی سے بھی میرےمراسم بہت پرانے ہیں۔ جب میں باغبان پورہ ہائی اسکول میں پڑھتا تھا اس وقت سے یہ سڑک میرے قدموں سے آشنا ہے۔ ان 43 برسوں میں سینکڑوں ادبی شخصیات سے اسی گرد و نواح میں ملا۔ ان میں سے زیادہ تر اب دنیا میں موجود نہیں۔ آخری جانے والے امجد اسلام امجد ہیں جو ابھی چند دن پہلے داغ ِ مفارقت دے گئے۔ ان سے پچھلے دو سال خاصی قربت رہی۔ مجلس ترقی ادب کے معاملات میں انہوں نے بڑی معاونت کی۔ لاہور ادبی عجائب گھر میں ہم نے جن چارزندہ لوگوں کو شامل کیا تھا ان میں ایک امجد اسلام امجد بھی تھے۔

ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ ہم انار کلی میں داخل ہوئے تو فرحت عباس شاہ کو ان کا ایک دوست آ کر ملا اور کہنے لگا کہ مرشد میرے ساتھ کھانے کھائیے۔ فرحت نےکہا، ’’یار ہم کھا چکے ہیں مگر لگتا ہے آج تمہاری جیب خاصی گرم ہے‘‘۔ کہنے لگا۔ ’’بس میں بہت خوش ہوں۔‘‘ فرحت نے پوچھا،’’کیوں کیا ہوا ہے،‘‘ کہنے لگا، ’’سپریم کورٹ کے حکم پر غلام محمود ڈوگر کو سی سی پی او کے عہدے پر بحال کر دیا گیا ہے‘‘۔ یہ جملہ سن کر میں تجسس میں مبتلا ہوا۔ میں نے پوچھ لیا۔ ’’وہ آپ کے کچھ لگتے ہیں۔‘‘ فرحت بولا۔ ’’او نہیں یاریہ میرا دوست پولیس انسپکٹر ہے اور ظلم یہ ہے کہ بہت ایماندار انسپکٹر ہے‘‘۔ میرا تجسس کچھ اور بڑھ گیا کہ ایک انسپکٹر غلام محمود ڈوگر کی بحالی پر اتنا خوش کیوں ہے۔ میں نے پھر اپنا سوال دھرایا تو کہنے لگا،’’روز رات ہوتے ہی ہمیں آرڈر ملتے ہیں کہ تیار ہو جاو آج رات عمران خان کو ضرور گرفتار کرنا ہے۔ اب کم از کم ہمیں یہ آرڈر تو نہیں ملیں گے‘‘۔ میں نے پوچھا ’’آپ کا عمران خان کے بارے میں کیا خیال ہے۔‘‘ کہنے لگا۔ ’’وہی جو ہر پاکستانی کا خیال ہے‘‘۔ پھر سوال دہرایاکہ ’’کیا خیال ہے‘‘۔ بولا، ’’الیکشن کرا کے دیکھ لو، پتہ چل جائے گا‘‘۔

تازہ ترین