• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی جیل میں ان دنوں کیا بیت رہی ہے اور وہ کس قدر ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار ہیں؟ اس حوالے سے برطانیہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے ڈائریکٹر اور وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے حال ہی میں 19 جنوری 2023 کو امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کر کے قومی نوعیت کے اس اہم معاملے کو ازسرنو اجاگر کیا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی پاکستانی حکمرانوں اور قوم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی رٹ پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی پاکستانی وزارت خارجہ کو حکم دیا ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے پاکستان میں امریکی سفیر سے بات کرے۔ڈاکٹر عافیہ کو اس وقت طویل امریکی قیدِ ناحق میں چھ ہزار 265دن گزر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے سینیٹ میں اس اہم ایشو پر بھرپور آواز اٹھائی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق، پاسبان کے چیئر مین الطاف شکور اور عافیہ موومنٹ تو گاہے گاہے اس معاملے کو اٹھاتے رہتے ہیں مگر انتہائی دکھ کی بات ہے کہ اب عمران خان، شہباز شریف، آصف زرداری اور مریم نواز ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی بات تک نہیں کرتے۔

دیر آید درست آید کے مصداق ہماری سول اور عسکری قیادت کو فوری طور پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کیلئے ہنگامی عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔اس سلسلہ میں کلائیو اسٹا فورڈاسمتھ پاکستانی حکام کی مدد کیلئے بھی تیار ہیں ، انہوںنے عافیہ صدیقی سے امریکی جیل میں اپنی حالیہ ملاقات کا تفصیلی احوال بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں زیادہ سے زیادہ سیکورٹی والی جیل اور ان کے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں نے ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ایف ایم سی کارسویل فورٹ ورتھ، ٹیکساس میں ایک وفاقی طبی مرکز ہے۔ یہ اسپتال مریضوںکیلئے انتہائی مہربان ماحول فراہم کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ ایک جیل ہے۔ میں پچھلے 40 برسوں میں بہت سی امریکی جیلوں میں گیا ہوں اور وہ سب بے حد خوفناک ہیں۔ ایف ایم سی کارسویل ایک اعلیٰ حفاظتی جیل ہے جہاں امریکی قانون کے تحت عافیہ صدیقی کو اپنی باقی کی زندگی گزارنی ہے۔ رہائی ملنے تک عافیہ کی عمر 100سال سے زیادہ ہو گی جبکہ امریکی جیلوں میں اوسط عمر 60 کے لگ بھگ ہے۔ایف ایم سی کارسویل ایک بہت بڑے فوجی اڈے میں قائم واقع جیل ہے۔ 19جنوری کو میں نے ایک قانونی دورہ کیا۔ گوانتانامو بے میں ایک ہفتے کے بعد آیا،مجھے اس وقت کوئی خاص تعجب نہیں ہوا جب مجھے اندر جانے میں تقریباً تین گھنٹے لگے۔میں اس وقت ناراض ہوگیا جب میری ملاقات کا وقت کم کردیا گیا۔میں نے عافیہ کے ساتھ 80 منٹ تک ملاقات کی۔عافیہ کی کہانی کا المیہ مشہور ہے کیونکہ جب اس کے خلاف الزامات کی بات آتی ہے تو اس میں بہت سےشکوک و شبہات موجود ہیں۔ سب کا ماننا ہے کہ عافیہ نے کسی کو کوئی تکلیف نہیں دی۔ اس پر لگائے گئے الزامات کے ثبوت بھی نہیں ملے، یہ خیال کہ وہ مسلح امریکی اہلکاروںکیلئے خطرہ تھی، قابل تشویش ہے۔ تاہم اس کے برعکس،عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والے تشدد کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ امریکہ نے خود اعتراف کیا ہے کہ اسے دوران حراست گولی ماری گئی، اسے بار بار بری طرح مارا پیٹا گیا۔ اسی طرح کے ایک واقعے میں جب اسے چہرے پر لات ماری گئی تو اس کے سامنے کے تمام دانت ٹوٹ گئے۔ یہ بات بھی قابل گرفت ہے کہ وہ سی آئی اے رینڈیشن ٹو ٹارچر پروگرام میں واحد خاتون قیدی تھی۔ اسے بالآخر افغانستان کی بگرام جیل سے امریکہ بھیج دیا گیا اور 86سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اسے امریکی خفیہ جیل کے نظام میں روزانہ بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جسے وہ تقریباً 2094 تک برداشت کرے گی۔ وقتاً فوقتاً یہ افواہیں بھی آتی رہتی ہیں کہ عافیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور پاکستان دونوں ممالک میں بہت سے ایسے اہلکار ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ یہ بات سچ ہو جائے۔دانتوں کے علاوہ جسمانی طور پر وہ ٹھیک ٹھاک ہیں اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بیماری کا شکار ہو کر جلد ہی مرنے والی نہیں ہیں۔ گوانتانامو بےمیں میَں نے جن 87 مرد قیدیوں کو دیکھا، ان میں سے کوئی بھی اس حد تک نفسیاتی طور پر متاثر نہیں ہوا۔ عافیہ اب ایک ایسے ادارے میں ہے جسے اس کے ساتھ ہونے والے نفسیاتی نقصان کی تلافی کرنے میں مدد ملنی چاہئے تھی،اس کے برعکس، یہ ادارہ اس پر ہونے والے ذہنی ٹارچر کو اور بڑھارہا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس پاکستانی حکومت کیلئےایک چیلنج ہے۔ میں اس سلسلے میں بلا معاوضہ ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کیلئے تیار ہوں اور جلد ہی پاکستانی ذمہ دار حکام سے ملاقات کیلئے اسلام آباد کا دورہ بھی کروں گا۔ عافیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امریکیوں کے زیر انتظام جیل میں ایک مکمل طور پر بے اختیار عورت ہے۔ حکومت پاکستان کو ان کی وطن واپسی کیلئےسخت محنت کرنی ہوگی۔ 'اب تک عافیہ کے کیس میںبہت کم مدد فراہم کی گئی ہے۔ اس رویے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہر وہ کوشش جو عافیہ کو کراچی اپنے گھر اور خاندان واپس لانے میں معاون ہو سکتی ہے وہ کرنا ہوگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین