گزشتہ دنوں ، ایک معروف نجی چینل پر ایک ’’علّامہ‘‘ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے کلام کے معنیٰ و مطالب اپنے مخصوص پُرجوش انداز میں سمجھا رہے تھے۔ ہم کام میں مصروف ضرور تھے، لیکن ساتھ ساتھ علّامہ صاحب کی بیان کردہ تشریح بھی توجّہ سےسُن رہے تھے کہ اچانک بیان کرتے کرتے جوشِ خطابت میں انہوں نے ’’گِل‘‘ کو ’’گُل‘‘ کہہ ڈالا، تو ہم چونک اُٹھے۔ عموماً سوشل میڈیا پر ادب کے نام پر بے ادبی اور مزاح کے نام پر پھکڑپَن تو دیکھتے ہی رہتے ہیں اور مجبوراً برداشت بھی کرنا پڑتا ہے، لیکن چینلز کا معاملہ ذرا الگ ہے اور پھر تشریح کرنے والے صاحب تھے بھی علّامہ تو ان کا ایسی تشریح کرنا ہمیں بڑا ہی ناگوار گزرا۔
ذرا سوچیں کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ببانگِ دہل ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے ایک مصرعے ’’ ؎ جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گِل ہی نہیں‘‘کو ’’جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گُل ہی نہیں‘‘ پڑھ اور سمجھا رہے تھے۔اب چوں کہ ہم زمانۂ طالب علمی میں ’’جوابِ شکوہ‘‘ کو تحت اللّفظ کے ساتھ پڑھنے پر جامعۂ سندھ سے پہلا انعام جیت چُکے ہیں، تو ہمیں اپنا وہ سبق آج بھی یاد ہےکہ یہاں شاعر نے ’’گِل‘‘ یعنی مٹّی کا ذکر کیا ہے، جسے ’’گُل‘‘ یعنی پھول پڑھنا سراسر غلط ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے انتہائی محترم استاد، سرعتیق احمد جیلانی نے بڑی محنت سے مقابلے کی تیاری کرواتے ہوئے ہر شعر، ہر لفظ کے معنی بخوبی سمجھائے تھے۔ تو جب ٹی وی پر اُن موصوف کو ’’گِل‘‘ کو ’’گُل‘‘ پڑھتے اور اسی تناظر میں تشریح کرتے دیکھا، تو قدرے حیرانی اور سخت افسوس ہوا کہ جب ہمارے یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی معلومات کا یہ عالم ہے، اُن کا علم اتنا سطحی ہے، تو باقیوں سے کیا گلہ۔ خیر، وہ تو بھلا ہوا تشریح کا کہ گھوم گھام،جھوم جھام کرمٹّی اور زمین کی طرف آہی گئی، لیکن موصوف نے پھول سے تشبیہہ دے کر ثابت کردیا کہ وہ ’’گِل‘‘اور ’’گُل‘‘ میں فرق کرنے میں ناکام ہیں۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس تحریر کا مقصد اپنی قابلیت کی نمائش کرنا یا کسی کو نیچا دکھانا ہرگزنہیں بلکہ اس امر پر توجّہ دلانا ہے کہ کلامِ اقبال صرف کلام ہی نہیں، ہمارا قومی سرمایہ بھی ہے، جسے اُس کی روح کے ساتھ سمجھانا اور پیش کرنا ہماری ذمّےداری ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ کچھ بیان فرمانے سےقبل تصدیق کرلینی چاہیے۔ ہم تو بس یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ تو چلو ایک غلطی تھی، جو ہماری نظر میں آگئی، لیکن وہ اس طرح کی جانے کتنی غلطیاں، تشریحات کرتے رہتے ہوں گے، جس پر لوگ، بالخصوص نوجوان آنکھ بند کرکے بھروسا بھی کرلیتے ہیں، لہٰذا ہمارا سب ہی کو یہ مشورہ ہے کہ تحقیق کی عادت اپنائیں، کسی بھی معاملے میں، کسی بھی انسان کی اندھی تقلید نہ کریں اور آج کل تو ویسے بھی اسمارٹ فونز کی صُورت کمپیوٹر ہمہ وقت ہمارے ساتھ ہوتا ہے، تو اس سے استفادہ کریں کہ اس سے آپ کا علم بھی بڑھے گا اور غلط معلومات پر یقین کرنے سے بھی بچ جائیں گے۔ (نسیم احمد عالم، حیدرآباد،سندھ)