• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ کی ٹریڈنگ اسکیم، پاکستان کیلئے ایک زبردست موقع

عالمی سطح پر امریکا اور چین کے بعد برطانیہ، پاکستان کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ پاکستان کی مجموعی تجارت میں برطانیہ کا شیئر 7.76 فیصد ہے، جب کہ دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حجم لگ بھگ 3 ارب 50کروڑ پائونڈ ہے۔تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ تجارتی حجم، پوٹینشل کے مطابق بہت کم ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تجارت کے فروغ کے وسیع مواقع ہیں، لیکن اُن سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا جارہا۔ اِسی طرح سرمایہ کاری کا حجم بھی خاصا کم ہے، حالاں کہ ذرا سی توجّہ سے اُس میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

اِن دنوں پاکستان جس بڑے اور تشویش ناک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، اگر اس کی وجوہ کا جائزہ لیں، تو اس کی ایک اہم وجہ برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری کا خاطر خواہ نہ ہونا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان خطّے کے دیگر ممالک، مثلاً بھارت اور بنگلا دیش سے برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ مُلک کو اِن دنوں بیرونی ادائیوں کے ضمن میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور پاکستان کی معیشت کا انحصار بیرونی قرضوں پر بڑھتا چلا جا رہا ہے، جو کسی صُورت مُلکی مفاد میں نہیں ہے۔ غیر مُلکی زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک نیچے چلے گئے ہیں، جب کہ پاکستانی کرنسی کی قدر تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ 

برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ نہ ہونے اور تجارتی خسارہ بڑھنے سے پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف سمیت مختلف عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے قرضوں کے حصول کے لیے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ پھر یہ کہ بیرونی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہونے کے باوجود معیشت سنبھل نہیں رہی۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق، معیشت کی بہتری کا واحد حل برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہی ہے، جس کے لیے متعلقہ اداروں کو ہنگامی اقدامات کے تحت مختصر، درمیانی اور طویل مدّتی پالیسیز تشکیل دینی ہوں گی اور اہم بات یہ ہے کہ اُن پالیسیز پر عمل درآمد بھی یقینی بنانا ہوگا۔ ہم برطانیہ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات دُگنی کر سکتے ہیں، لیکن جانے کیوں ہمارے پالیسی سازوں، وزارتِ تجارت اور وزارتِ صنعت وپیداوار کی اِس جانب توجّہ نہیں ہے۔ 

اِسی طرح ہمارا نجی شعبہ بھی اپنی مصنوعات میں تنوّع اور جدّت پیدا کرنے میں ناکام ہے، روایتی برآمدی شعبوں کے علاوہ آئی ٹی، انجینئرنگ، آٹو سیکٹر، فارماسیوٹیکلز اور دیگر شعبوں کی برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ برطانیہ کی کمپنیز کے لیے پاکستان میں کاروبار کے پُرکشش مواقع موجود ہیں، ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے نجی شعبوں کے مابین مضبوط روابط قائم کیے جائیں۔ زراعت، صنعت، آئی ٹی، کان کنی اور سیّاحت سمیت دیگر شعبوں میں پاکستان اور برطانیہ کے مابین باہمی تعاون بہت گنجائش ہے۔

برطانیہ نے یکم جنوری 2023ء سے پاکستان سمیت 65ترقّی پزیر ممالک کی تجارت کو فروغ دینے کے لیے ایک ٹریڈنگ اسکیم کا آغاز کیا گیا ہے۔ یہ اسکیم، جی ایس پی اسکیم کی جگہ شروع کی گئی ہے، جس میں دنیا کے ترقّی پزیر ممالک کی 94فی صد مصنوعات کی برآمد پر کوئی ڈیوٹی عاید نہیں کی گئی۔تاہم،کئی ہفتے گزرنے کے باوجود پاکستان کی حکومت کی جانب سے اِس اسکیم سے استفادے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی برآمد کنندگان کو آگاہی دی گئی تاکہ وہ اس اہم موقعے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ایک اندازے کے مطابق، ترقّی پزیر ممالک کی اِس اسکیم سے پاکستان کو برآمدات میں12کروڑ پاؤنڈز کی بچت ہوگی۔ 

اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن، پاکستان اور برطانیہ کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور برطانوی کمپنیز کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے قائل کرنے کی بھرپور کوششیں کررہا ہے، تاہم اِن کوششوں سے اُسی وقت فائدہ اُٹھایا جاسکے گا،جب پاکستان میں کاروبار کا ماحول بہتر بنایا جائے اور سرمایہ کاروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔اِسی طرح پاکستان اور برطانیہ کے کاروباری اور سرمایہ کاروں کے وفود کے دَوروں میں اضافے اور نئے کاروباری مواقع تلاش کرنے کے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ سال 2021ء میں پاکستان نے برطانیہ کو 2ارب 10کروڑ پائونڈز کی مصنوعات برآمد کیں۔

اب پاکستان، برطانیہ کو ٹیکسٹائل مصنوعات، لیدر، پھل، سبزیاں، چاول اور دیگر 94فی صد اشیا کسی ڈیوٹی کے بغیر برآمد کر سکتا ہے۔ برطانیہ نے اس ٹریڈنگ اسکیم کے تحت 156مصنوعات پر ٹیرف کو کم ترین یا صفر کردیا ہے، اس طرح پاکستان کی برطانیہ کو برآمدات دُگنی ہو سکتی ہیں، جس سے تجارتی حجم میں مزید 2 ارب پاؤنڈ زکا اضافہ ہوگا۔ واضح رہے، برطانیہ، پاکستان کا ایک ایسا تجارتی شراکت دار ہے، جس کے ساتھ پاکستان کی برآمدات زیادہ اور درآمدات کم ہیں، یوں تجارتی توازن پاکستان کے حق میں ہے۔ 

پاکستان برطانیہ کو جو پانچ سرِفہرست مصنوعات برآمد کرتا ہے، اُن میں گارمینٹس، ٹیکسٹائل فیبرکس، اناج، سائنسی آلات اور دیگر مینوفیکچرنگ مصنوعات شامل ہیں، جب کہ برطانیہ سے منگوائی جانے والی پانچ سرِفہرست مصنوعات میں میٹل (دھاتیں اور اسٹیل اسکریپ)، دفتری مشینریز، میکنیکل پاور جنریشن ، جنرل انڈسٹریل مشینریز شامل ہیں۔ پاکستان کے کاروباری افراد اور برآمد کنندگان کے لیے یہ ایک زبردست موقع ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کے لیے برطانیہ میں نئی مارکیٹس تلاش کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مصنوعات برآمد کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ یہ نئی ٹریڈنگ اسکیم پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتی ہے، جس کی اِن دنوں پاکستان کو اشد ضرورت بھی ہے۔

برطانوی ہائی کمیشن کے حکّام نے اِس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ برطانیہ، پاکستان کے ساتھ باہمی تجارت کو ساڑھے 3 ارب پاؤنڈ سے بڑھا کر10 ارب پاؤنڈ سالانہ کرنا چاہتا ہے، جس سے دونوں ممالک کے لیے مزید فائدہ مند نتائج برآمد ہوں گے۔ برطانیہ اور پاکستان کے مابین دوطرفہ تجارتی اور معاشی تعلقات بہتر کرنے سے دونوں ممالک کو ترقّی اور خوش حالی حاصل ہو گی۔برطانیہ کی تقریباً 5ہزار کمپنیز متحدہ عرب امارات میں کاروبار کر رہی ہیں، لیکن پاکستان میں اُن کی تعداد صرف150 ہے، حالاں کہ پاکستان22کروڑ سے زائد افراد کی ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ برطانیہ اور دیگر ممالک کے مزید سرمایہ کاروں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے پاکستان بیورو کریٹک اور دیگر رکاٹیں دُور کرنے پر توجّہ دے اور ایک ایسا ٹیکس نظام تشکیل دے، جس سے کاروبار کی حوصلہ افزائی ہو۔ 

برطانیہ، پاکستان کے ساتھ 4 شعبوں میں قریبی تعاون پر توجّہ دے رہا ہے، جن میں ہیلتھ کیئر، تعلیم، گرین انرجی اور انفرا اسٹرکچر شامل ہیں۔نیز، وہ پاکستان کی معیشت کو مزید مسابقتی بنانے کے لیے زراعت، مینوفیکچرنگ، فارماسوٹیکلز اور دیگر شعبوں میں بھی تعاون کرسکتا ہے۔حکّام کے مطابق، برطانیہ اپنی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کو ترجیحی رسائی فراہم کرنے کی کوشش کرے گا، جس سے اس کی برآمدات میں بہتری آئے گی۔ البتہ، پھلوں اور سبزیوں سمیت فوڈ پراڈکٹس کی برآمدات کے لیے پاکستان کے برآمد کنندگان کو برطانیہ کے فوڈ اسٹینڈرڈ پر پورا اُترنا ہوگا۔ 

علاوہ ازیں، اگر پاکستانی کمپنیز اپنی مصنوعات کی بہتر مارکیٹنگ پر خصوصی توجّہ دیں، تو وہ اپنی اصل صلاحیت کے مطابق برآمدات میں بہت زیادہ اضافہ کر سکتی ہیں۔ پاکستان میں سابق برطانوی ہائی کمشنر، ڈاکٹر کرسچن ٹرنر نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت 2025 ء تک دُگنی ہو جائے گی۔ برطانیہ کے پاکستان میں ٹریڈ قونصلر، مہیش مشرا نے کہا ہے کہ پاکستان ٹریڈنگ اسکیم سے فائدہ اُٹھائے، کیوں کہ پاکستان کی 94 فی صد مصنوعات ٹیرف فِری ہیں، یہ اسکیم ترقّی پذیر ممالک کی تجارت کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہے کہ اِس سے دنیا کے تین ارب 30کروڑ افراد مستفید ہوں گے اور اِس کے نتیجے میں ہونے والی اقتصادی سرگرمیوں سے غربت میں کمی لانے میں بھی مدد ملے گی۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے برآمد کنندگان اِس اسکیم سے استفادہ کریں، برطانیہ کی حکومت اُن سے ہر ممکن تعاون اور تمام ضروری سہولتوں کی فراہمی کے لیے تیار ہے۔