• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14 فروری 2023ء ، ایک معمول ہی کا دن تھا،آفس وین نے مقررہ وقت پر دفتر پہنچا یا، لیکن جوں ہی نظر گھڑی پر پڑی، تو خیال آیا کہ دفتر جانے، حاضری لگوانے میں وقت ضایع کرنے سے بہتر ہے کہ سیدھا اسائنمنٹ ہی پر چلے جایا جائے۔ بس پھر کیا تھا، سامنے سے آتی ’’پِنک بس‘‘ روکی اوراُس میں سوار ہوگئے۔ توقع کے برخلاف بس خالی تھی، اتنی خالی کہ باآسانی بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔ 

چوں کہ ہمیں او آئی سی سی آئی بلڈنگ جانا تھا اور ہم اس جگہ سے واقف نہیں تھے، لہٰذا سفر سے لطف اندوز ہونے کے بجائے ساری توجّہ سڑک پر مرکوز رکھی کہ کہیں ایک اسٹاپ آگے یا پیچھے نہ اُتر جائیں کہ ایسی صُورت میں خواری الگ ہوتی اور پروگرام میں وقت پر پہنچ بھی نہیں پاتے، لہٰذاسیٹ سے اُٹھے اوربس کی اگلی نشست پر بیٹھی کنڈکٹر کے پاس جا کھڑے ہوئے۔ گوکہ اٹھارہ، انیس برس کی وہ نوجوان کنڈکٹرکچھ زیادہ پُر اعتماد نظر نہیں آرہی تھی، لیکن اُسے دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور ذرا سی تکلیف بھی۔

خوشی اس بات کی کہ چلو اب ہمارے مُلک میں مَردوں کے لیے مخصوص سمجھے جانے والے شعبوں میں بھی خواتین قدم رکھ رہی ہیں، اپنے پَیروں پر کھڑی ہو رہی ہیں، یہی تو ویمن ایمپاورمنٹ ہےکہ وہ کسی پر بوجھ بننے کے بجائے اپنےگھروں کے مَردوں کا بوجھ بانٹ رہی ہیںاور تکلیف اس بات کی کہ پڑھنے لکھنے، کالج جانے کی عُمر میں وہ بچّی کنڈکٹری کرنےپر مجبور ہے۔

خیر، ہم نے اُس سے اسٹاپ سے متعلق پوچھا، ٹکٹ لیا اور مطلوبہ اسٹاپ پر اُتر گئے۔ سڑک پار کرنے کے بعد کچھ قدم ہی آگے بڑھے تھے کہ سامنےایک تاریخی عمارت نظر آئی جس پر ’’اووَرسیزانویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی)‘‘کا بورڈ آویزاں تھا۔ 1860ء میں قائم ہونے والی اس عمارت میں واقعتاً ’’اولڈ کراچی ‘‘کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ وہ کراچی ،جس کا آج کےٹوٹی پُھوٹی سڑکوں، کچرے ، غلاظت کے انباروں اور بےہنگم ٹریفک والے اس شہر میں تصوّر بھی محال ہے۔

خیر، تیز تیز قدم اُٹھاتے عمارت کے مرکزی دروازے کی جانب بڑھے، تو دروازے کے عین سامنے بِنا ڈھکن کا ایک گٹر موجود پایا۔ جو ہم جیسے پیدل چلنے والوں کے لیے تو حادثے کا سبب بن ہی سکتا ہے، مگر چیمبر میں آنے ، جانے والی لاکھوں، کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کے ٹائر بھی اُس میں دھنس سکتے ہیں۔ ’’او آئی سی سی آئی کا حال بھی، باقی شہر جیسا ہی ہے…‘‘ ہمارے منہ سے بے اختیار نکلا ۔ اور ہم اند داخل ہوگئے۔

سابق ڈپٹی گورنر، اسٹیٹ بینک ،سیما کامل، ڈاکٹر عشرت حُسین سے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے
سابق ڈپٹی گورنر، اسٹیٹ بینک ،سیما کامل، ڈاکٹر عشرت حُسین سے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے

سامنے دیکھا تو گمان ہوا، جیسےکسی عالی شان گاڑیوںکے شو رُوم میں داخل ہوگئے ہوںکہ وہاں ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی گاڑی موجود تھی۔ویسے ایک بات تو ہے کہ عمارت کے اندر جا کے دل خوش ہوگیا ۔ صفائی سُتھرائی ایسی کہ ڈھونڈنے سے بھی گرد کا ایک ذرّہ نہ ملے۔پھر نظر ایک بورڈ پر پڑی، جس پر ’’Welcome To OICCI Women Empowerment Awards 2022 Ceremony‘‘ درج تھا۔ پڑھ کر اندازہ ہوگیا کہ سیڑھیوں سے اوپر جو رستہ جا رہا ہے، بس وہی ہماری منزل ہے۔ سیڑھیوں پر جگہ جگہ جامنی، گلابی اور سفید رنگوں کے پھولوں کے بنچز لگے تھے۔ ویسے کوئی کچھ بھی کہے، پھولوں کو دیکھ کر جو تازگی وشائستگی محسوس ہوتی ہے، اس کا کوئی مول ہی نہیں۔ بالخصوص خواتین کا مُوڈ یک دَم خوش گوار کردینے کی بےپناہ صلاحیت ہے ان پھولوں میں۔ پہلی منزل پر جاتے جاتے ہم نے اُن صاحب کو، جن کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا تھا، بتا دیا کہ ’’ہم پہنچ گئے ہیں۔‘‘ 

جواباً انہوں نے کہا، ’’آپ اوپر آجائیں، مَیں باہر ہی کھڑا ہوں۔‘‘ اسی دوران ہم نے گھڑی پر ایک نظر دوڑائی ، تو 10 بج کر 34 منٹ ہو رہے تھے، یہ دیکھ کر ہم نے سکون کی سانس لی کہ چلو مقرّر ہ وقت سے صرف چار منٹ ہی تاخیر سے پہنچے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے، پروگرام کی نوعیت دیکھ کر ہمیں لگا تھا کہ شاید پورا ہال خالی ہی ہوگااور یہاں سے فارغ ہوتے ہوتے کم از کم دوپہر کے بارہ، ایک تو بج ہی جائیں گے، لیکن توقع کے برخلاف جب ہم نے ہال میں قدم رکھا ،تو وہاں اکّا دُکّا نشستیں ہی خالی نظر آئیں، باقی پورا ہال لوگوں سے کھچا کھچ بَھرا ہوا ، برانڈڈ پرفیومز کی خوش بُوؤں سے مہک رہا تھا۔ 

ہم نے جلدی سے پیچھے کی ایک نشست سنبھالی اور جھٹ فون نکال کرباس کو آگاہ کردیا کہ ’’اسائمنٹ سے ہوتے ہوئے دفتر آئیں گے۔‘‘پھر ایک نظر آس پاس بیٹھے لوگوں پر ڈالی، تھوڑی بات چیت کی، تو اندازہ ہواکہ حاضرین کی اکثریت ملٹی نیشنل کمپنیز کے سی ای اوز، ڈائریکٹرز، ایم ڈیزیا کارپوریٹ سیکٹر کے اکابرین پر مشتمل تھی۔ اس سے بھی زیادہ خوش آئند امر یہ ہے کہ حاضرین میں خواتین کی تعداد نمایاں تھی۔ جو اس بات کی غمّازی کرتی ہے کہ تمام تر نا مساعد حالات، مشکلات، کٹھنائیوں کے باوجود ہماری خواتین مختلف شعبہ جات میں صرف کام ہی نہیں کر رہیں، بلکہ ٹاپ پوزیشنز پر براجمان ہیں۔ 

ہمارے لیے یہ امر بھی خوش گوار حیرت سے خالی نہ تھا کہ شادیوں، دعوتوں، پروگرامز وغیرہ میںرات 9 بجے کی دعوت پر 11 بجے پہنچنے والی قوم میں ایسے افراد بھی شامل ہیں، جو ساڑھے دس بجے کے پروگرام میں وقت سے کہیں پہلے پہنچے ہوئے تھے اور غالباً یہی وجہ تھی کہ پروگرام مقرّرہ وقت سے پہلے ہی شروع ہو چُکا تھا اور جب ہم پہنچے تو خواتین کو با اختیار بنانے کے حوالے سے ایک پینل ڈسکشن چل رہا تھا، جس میں خواتین کو با اختیار بنانے، کام کی جگہوں پر سہولتیں فراہم کرنے، کام کرنے کے یک ساں مواقع فراہم کرنے کے علاوہ معقول مشاہرہ (یعنی خواتین کو بھی مَردوں کے برابر تن خواہ دی جائے) دینے کی بات بھی زیرِ بحث تھی۔ 

ہمیں احساس ہوا کہ بڑے بوڑھے یوں ہی نہیں کہتے کہ پابندیِ وقت کام یابی کی سیڑھی ہے، بلکہ حقیقتاً وقت کی قدر کرنے والے ضرور کام یاب ہوتے ہیں۔ وہاں موجود ہر شخص اپنی اپنی کمپنی کی کلیدی پوسٹس پر کام کر رہا ہے، تو انہیں کام یاب بنانے میں کہیں نہ کہیں، وقت کی پابندی نے بھی کردار تو ادا کیا ہی ہوگا۔ خیر، تقریب کا بنیادی مقصد اوآئی سی سی آئی کا خواتین کی اہمیت، ان کے کام اور ان کی محنت کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔

اس موقعے پر او آئی سی سی آئی کے 200سے زائد ارکان نے خواتین کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا کہ مُلک میں اقتصادی ترقی کو تیز کرنے کے لیے خواتین کا ہر شعبے میں آگے بڑھ کر کام کرنا انتہائی ضروری ہے، نیز اس ضمن میں ساز گار ماحول پیدا کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں خواتین کو با اختیار بنانے، خواتین ارکان کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کے لیے ادارےکی جانب سے مسلسل پانچویں سال ’’ویمن ایمپاورمنٹ ایوارڈز‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر، ڈاکٹر عشرت حُسین تھے۔ ویمن ایمپاورمنٹ ایوارڈز میں، جن 3کمپنیز نے تمام کیٹیگریز میں پہلی3 پوزیشنز پر کام یابی حاصل کی، ان کا شمار دنیاکی بہترین کمپنیز میں ہوتا ہے۔ 

واضح رہے، آزاد جیوری نے مختلف پہلوؤں سے کمپنیز کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور مجموعی طور پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کمپنیز کو دیگر تمام کیٹیگریز میں ایوارڈ سے نوازا۔ اس موقعے پر اوآئی سی سی آئی کے صدر، غیاث خان نے کہا کہ’’ مُلک میں سماجی اور اقتصادی ترقّی یقینی بنانے کے لیے صنفی شمولیت کے اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والی خواتین کا تناسب 21فی صد ہے، لیکن دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے میں یہ تناسب بہت کم ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ’’ خواتین کے لیے روزگار کا فرق ختم کرنے سے روزگار کے 19ملین نئے ذرایع پیدا ہوں گے اور عالمی بینک کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی میں 23فی صدتک اضافہ ہوسکے گا۔‘‘

علاوہ ازیں، سات کیٹیگریز میں خصوصی ایوارڈ زبھی دیئے گئے۔ایک نجی بینک نے لیڈرشپ اینڈ اسٹریٹیجی ایوارڈ،تمباکو بنانے والی ایک کمپنی نے آرگنائزیشنز ویژن اور مشن، کالنگ کمپنی نے سازگار ماحول، اینگرو کارپوریشن نے ویمن لیڈرزڈیولپمنٹ ایوارڈ اورایک اور نجی موبائل نیٹ ورکنگ کمپنی نے لائف بیلنس اور انٹیگریشن کی کیٹگریز میں ایوارڈز حاصل کیے۔ایوارڈز کے دائرہ ٔکار کو اوآئی سی سی آئی ارکان سے آگے بڑھاتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سابق ڈپٹی گورنر (اس پوزیشن پر پہنچنے والی پہلی پاکستانی خاتون)سیما کامل کو ’’آئکونِک کارپوریٹ ویمن لیڈرزایوارڈ‘‘ کا حق دار قرار دیا گیا۔اس موقعے پر سیما کامل کا کہنا تھا کہ ’’ اس مقام تک پہنچنے کے لیے مَیں نے اَن تھک محنت کی ہے اور مَیں اُن تمام لوگوں کی شکر گزار ہوں، جنہوں نے آگے بڑھنے میں میری مدد کی، مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا اور مجھے سراہا۔

مَیں جانتی ہوں کہ حقوقِ نسواں کی علم برداربہت سی خواتین کہیں گی کہ اس میں کسی کا شکر گزار ہونے کی کیا ضرورت ہے، لیکن یہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ہم جس معاشرے کا حصّہ ہیں، وہاں خواتین کو اپنی تسلیم کروانے اور اپنی قابلیت، صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیےکچھ زیادہ ہی محنت کرنی پڑتی ہے، اوربالخصوص مَیں نے تو اُس دَور میں کام شروع کیا تھا، جب خواتین کے لیے کام کرنے کے زیادہ مواقع تھے اور نہ ہی وہ کارپوریٹ سیکٹر میں آتی تھیں، تو ایسے میں اُن افراد کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے، جنہوں نے ہمیں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ ‘‘

واضح رہے، یہ ایوارڈ کارپوریٹ سیکٹر میں قائدانہ پوزیشنز پر کام کرنے والی خواتین کی کاوشوں کے اعتراف میں اسی سال سے متعارف کروایا گیا ہے تاکہ سیما کامل جیسی خواتین، کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرنے والی نوجوان خواتین کے لیے مشعلِ راہ بن سکیں۔ نیز، اس موقعے پر اوآئی سی سی آئی کی جانب سے ’’ڈائیورسٹی اینڈ انکلوژن ہینڈ بُک 2022ء‘‘(Diversity and Inclusion Handbook)کا اجرا بھی کیا گیا۔ ہینڈ بُک میں ایسی پالیسیز کا احاطہ کیا گیا ہے، جن کا مقصد کام کرنے کی جگہوں کو سب کے لیے بہتر بنانا ہے، جس میں Work Place Flexibility، ہائبرڈ روکنگ ماڈلز اورورکنگ مدرز اور والدین کو کام کرنے میں معاون پالیسیز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہینڈ بُک کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل او آئی سی سی آئی، عبد العلیم نے کہاکہ ’’یہ ہینڈ بُک او آئی سی سی آئی خواتین کے بینر تلے اُٹھائے گے نئے اقدامات میں سے ایک ہے، جس کا مقصد ان بہترین اقدامات سے متعلق معلومات شایع کرنا ہے، جنہیں ہماری رکن کمپنیز نے کام کی جگہ پر اپنایا ہے۔ ‘‘

او آئی سی سی آئی کیا ہے…!!

او آئی سی سی آئی پاکستان میں بڑے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی اجتماعی آواز ہے۔ اس کے 200سے زائد ارکان ، 31ممالک میںمعیشت کے 14مختلف شعبوں میں کام کررہے ہیں اور پاکستان کے مجموعی ٹیکس ریوینیو میں قریباً ایک تہائی حصّہ ڈالتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی اور ہنر کی منتقلی اور عوام کی ایک بڑی تعداد کو روزگار فراہم کرنے میں بھی سہولت کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ او آئی سی سی آئی کے ایک تہائی ارکان پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں لسٹڈاور 40ارکان 500گلوبل فارچون کمپنیز میں شامل ہیں۔نیز، اپنے کاروباری آپریشنز کے علاوہ یہ ارکان اپنی سماجی ذمّے داریوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبیلٹی (سی ایس آر )کی مختلف سرگرمیوں سے بھی وابستہ ہیں، جن سے پس ماندہ کمیونٹیز کے 46ملین افراد مستفید ہورہےہیں۔