پاکستان میں ٹیلی وژن کی آمد کے ساتھ ہی طنز و مزاح پر مبنی پروگراموں کو مقبولیت ملنا شروع ہوگئی کہ معاشرے میں جاری و ساری فرسٹریشن کے زہر کیلئے یہ بہترین تریاق کا کام کرتے تھے۔ شروع کے دنوں میں اطہر شاہ خان کے ’’لاکھوں میں تین‘‘ اور کمال احمد رضوی کے ’’الف نون‘‘ جیسی ڈرامہ سیریز اور ’’گرتو برا نہ مانے‘‘ ’’سچ گپ‘‘ ’’اکڑ بکڑ‘‘ ’’ٹال مٹول‘‘ اور ’’ففٹی ففٹی‘‘ جیسے مزاحیہ خاکوں پر مبنی پروگرام زیادہ پسند کئے گئے پھر حسینہ معین کی شگفتہ ڈرامہ سیریلز شہزوری، کرن کہانی، انکل عرفی، دھوپ کنارے وغیرہ کا دور آیا اس کے ساتھ ساتھ منو بھائی کے ’’سونا چاندی‘‘ یونس جاوید کے ’’اندھیرا اجالا‘‘ اور فاروق قیصر کے ’’انکل سرگم‘‘ نےبھی اپنا رنگ جمایا۔ ان کے علاوہ بھی کچھ پروگراموں نے مقبولیت حاصل کی۔
عطاءالحق قاسمی کا ابتدائی تعارف شاعر اور کالم نگار کا تھا، اس کے کالم اپنی شگفتگی اور خوبصورت طنز و مزاح کی وجہ سے بہت پسند کئے جاتے تھے لیکن ان کی ایک خوبی ایسی تھی جس پر شروع میں بہت کم توجہ دی گئی اور وہ اس کی کردار نگاری اور مزاحیہ جملوں کا مکالموں کی شکل میں برمحل استعمال تھا۔ ہم دونوں طالب علمی کے دنوں کی دوستی کے ساتھ ساتھ بہت لمبے عرصے تک گورنمنٹ ایم اے او کالج میں ایک دوسرے کے رفیق کار بھی رہے چنانچہ وہ اس بات کا عینی شاہد تھا کہ مجھے اپنے آپ کو ڈرامہ نگار منوانے کے لئے کن کن مرحلوں سے گزرنا پڑا تھا ،سو میرے بار بار ترغیب دلانے کے باوجود کہ وہ بہت اچھے مزاحیہ ڈرامے لکھ سکتا ہے اس نے اس بھاری پتھر کو اٹھانے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی۔ انہی دنوں ہمارا مشترکہ شاعر دوست ایوب خاور جو بطور ٹی وی پروڈیوسر اپنی شناخت بنانے کے عمل میں تھا ٹرانسفر ہو کر لاہور ٹی وی میں آگیااور اس نے بھی عطا کو یہی یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ اچھا ڈرامہ لکھ سکتا ہے۔ عطا نے عذر پیش کیا کہ اسے ڈرامہ نگاری کی الف ب کا بھی پتہ نہیں اور نہ ہی وہ کیمرے کے تقاضوں کو سمجھتا ہے، اس لئے اسے اس امتحان میں نہ ہی ڈالا جائے تو بہتر ہے۔ قصہ مختصر کہ بڑی مشکلوں سے یہ شاہین آخر زیر دام آیا، کردار نگاری اور جملہ بازی میں تو وہ پہلے ہی طاق تھا ، ایوب خاور نے ساتھ بیٹھ کر اسے کہانی اور سیناریو رائٹنگ کی مبادیات سے آگاہی دی ، کچھ ہی دنوں میں دونوں کے اشتراک سے ایک ڈرامہ تیار ہوگیا۔ خواجہ اینڈ سن اپنے موضوع، انداز، بنت اور ٹریٹ منٹ کے اعتبار سے ایک بالکل مختلف انداز کا کھیل تھا اس میں عطا الحق قاسمی نے کچھ ایسے جاندار اور حقیقی کردار تخلیق کئے اور ان کے منہ میں ایسے پرلطف، مزاحیہ اور جاندار جملے دیئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کھیل ملک گیر مقبولیت اختیار کرگیا۔ یہ بات اس لئے زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے کہ اس ڈرامے میں اگرچہ ہماری شہری لوئر مڈل کلاس کو موضوع بنایاگیا تھا لیکن اس کے کرداروں کا تعلق ایک ایسے مخصوص ماحول اور تہذیب سے تھا جس سے ناظرین کی ایک خاصی بڑی تعداد بہت حد تک ناواقف تھی، یہ شہری پنجاب کے ایک ایسے جائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے والے گھر کی کہانی تھی جس کا سربراہ ایک زندہ دل اور زندگی اور اپنے خاندان سے محبت کرنے والا بوڑھا تھا، یہ کردار علی اعجاز نے اس خوبصورتی سےنبھایاکہ اسے اس کی طویل اور شاندار نئی زندگی کا نقطہ عروج کہا جاسکتا ہے، یہ کردار ایک کثیر العیال اور سفید پوش شخص کا ہے جو گوناں گوں مسائل سے نبرد آزما ہونے کے باوجود خود ہنسنے اور دوسروں کو ہنسانے کا گر جانتا ہے اس کے ارد گرد عطا نے بہت سے کردار اور انکی ضمنی کہانیاں اس خوبصورتی سے پھیلا دیں کہ ’’نظارا دامنِ دل می کشید کہ جا ایں جا ست‘‘ کاسا معاملہ ہوگیا اور ایک ایسا گل دستہ بن گیا جس کا ہر پھول توجہ طلب اور خوبصورت تھا۔
’’خواجہ اینڈ سن‘‘ کی بنیادی خوبی وہ ماحول ہے جس کی عطا نے صرف تصویر کشی ہی نہیں کی بلکہ مختلف کرداروں کے حوالے سے ایسے بہت سے سماجی تضادات، اچھے اور برے تہذیبی رویوں، مشترکہ خاندانی نظام کی خوبیوں، خامیوں اور روز مرہ زندگی سے اٹھائے ہوئے دلچسپ واقعات اور ان کے باہمی تعامل سے پیدا ہونے والی مزاحیہ سیچوئشنز کی بھی تصویر کشی کی ہے ،جن سے ایک ایسا اقداری نظام ہمارے سامنے آتا ہے جو تیزی سے ٹوٹ رہا ہے ۔ خواجہ اینڈ سن ہمیں یہ احساس بھی دلاتا ہے کہ سارے کا سارا ماضی رد کر دینے کے قابل نہیں ہوتا کچھ نادانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر عقل کو ہزار بار قربان کیا جاسکتا ہے۔ تکنیکی اعتبار سے خواجہ اینڈ سن ایک ایسا ڈرامہ ہے جو اپنے پلاٹ یا کہانی کے بجائے کرداروں کی انگلی پکڑ کر چلتا ہے اور یوں بعض اوقات اس کے سین زوال پذیر حکومت کے باغی صوبوں کی طرح ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آئے۔ میرے خیال میں اس کھیل کی یہی آزاد روی اس کا بنیادی وصف ہے، اگر انہیں قید شریعت میں لانے کی کوشش کی جاتی تو یہ ڈرامہ کبھی اتنا پرلطف نہ ہوسکتا جتنا کہ اب ہے۔
عطا الحق قاسمی نے ’’خواجہ اینڈ سن‘‘ کے بعد بھی کچھ انفرادی ڈرامے اور سیریلز لکھے ہیں اور ان میں سے بعض نے مقبولیت بھی حاصل کی ہے لیکن میرے خیال میں اس کابہترین ڈرامہ ’’خواجہ اینڈ سن‘‘ ہی ہے اس میں ایک ایسا بے ساختہ پن ہے جو اپنی مثال آپ ہے، جس تیزی سے ہمارے شہر، گلی محلے کے کلچر سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور خوشیوں کا معیار انسانی تعلقات کے بجائے اشیا اور مادی وسائل بنتے جا رہے ہیں وہ دن دور نہیںکہ خواجہ اینڈ سن جیسے ڈرامے ہماری آئندہ نسلوں کیلئے ایک تاریخی اور تہذیبی مآخذ کے طور پر دیکھے جائیںگے اور اس کے ناظرین سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر پوچھاکریں گے۔
’’کیا سچ مچ ہماری دنیا کبھی ایسی بھی ہوا کرتی تھی؟‘‘
عطا الحق قاسمی بوجوہ ڈرامے کے میدان میں بہت دیر سے آیا اور اب بھی اپنی گوناں گوں مصروفیات کی وجہ سے وہ اس کی طرف کم کم توجہ دیتا ہے لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ جب بھی وہ پوری توجہ سے کوئی ڈرامہ لکھے گا اس کی شاندار حسِ مزاح، کردار نگاری کی صلاحیت اور عمدہ نثر مل کر اس سے خواجہ اینڈ سن جیسا کوئی اور شاہکار بھی تخلیق کروا سکیں گے۔