• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی قوم کی معلومات کیلئے آج دنیا کے چند عظیم سیاست دانوں کا ذکر کر نا ضروری سمجھتا ہوں،جن کی ایمانداری کی مثالیں رہتی دنیا تک رہیں گی ،جن میں ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا نام آتا ہے ،جو اربوں روپے مالیت کی زمینوں ،جاگیروںکے مالک اور کرنال ریاست کے نواب تھے، پاکستان کی خاطر سب کچھ ہندوستان چھوڑ آئے اوریہاں بھی ایک سرکاری مکان اور معمولی تنخواہ پر سادہ زندگی مع اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ گزاری ۔اُن کو 1951 میںپنڈی میں شہید کر دیا گیا ۔ان کا کوئی بینک بیلنس نہیں تھا، ان کی اولاد نے بھی ان کے جانے کے بعد کوئی سرکاری فائدے حاصل نہیں کئے، خود اپنا کاروبار شروع کیا اورآخری وقت تک تقریباََگمنام زندگی گزاری ۔حتیٰ کہ کچھ عرصہ قبل ان کے بڑے صاحبزادے اکبر لیاقت خان گردوں کی بیماری سے فوت ہوئے ،ان کی آخری عمر میں سندھ حکومت نے علاج معالجہ کی ذمہ داری قبول کر کے اچھی مثال قائم کی، ان کی نماز جنازہ میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور کئی وزرا اور دوست احباب نے بھی شرکت کی۔

اب میں دنیا کے دیگر ممالک کے سربراہان کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں جس میں سب سے پہلے ملک چین آتا ہے ،اس کے موجودہ صدرزی جن پنگ (Xi Jinping Hi)ہیں ۔وہ صدر بننے سے پہلے واحد سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے، ساتھ ساتھ سینٹرل ملٹری کمیشن کے چیئر مین اورپولٹ بیوروکے ممبر بھی تھے ۔اس سے قبل وہ 2صوبوں فوجان اور زنجنگ کے گورنر بھی رہ چکے ہیں،ہر جگہ ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے اوران کے دور میں چائنا زبر دست ترقی کرتے کرتے نمبر ایک کی حیثیت حاصل کر چکا ہے کہ خو د امریکہ چین کا1100ارب ڈالرکامقروض ہے ۔دنیا بھر میں چائنا کی اشیابہ کثرت پائی جاتی ہیں ، اس نے ہر اچھے بُرے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے، وہ ہمارے سب سے بڑے پروجیکٹ سی پیک میں بھی حصہ دار ہے بلکہ یوں کہیں کہ ان کے ہی سرمائے سے یہ پروجیکٹ لگایاگیا، جسے ہمارے دشمن بُری نگاہوں سے دیکھتے ہیں خود ہمارے چند پڑوسی ممالک سمیت ہمارے حکمران اس منصوبے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔عوام کی معلومات کیلئے اس عظیم اور امیر ترین ملک کے صدر کا کل سرمایہ 39400امریکی ڈالر ہے۔

مسلمان ممالک میں واحد غریب صدر محمود احمدی نژادکا تعلق ایران سے تھا۔ وہ 2003میں تہران کے میئر تھے صرف 2سال میں انہوں نے تہران کو دنیا کے جدید ترین شہروں میں شامل کرواکر نیک نامی کمائی اور دنیا بھر کے سیاح تہران اور ایران کے مذہبی شہروں کا رخ کرنے لگے ۔2005میں وہ 62فی صد ووٹ لے کر منتخب ہو ئے وہ دن رات اپنے کام میں مشغول رہنے والے سربراہ تھے ۔تمام سرکاری دورانیے میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر رہے کوئی سرکاری مراعات نہیں لیں سادہ ترین زندگی گزاری، ان کا کل اثاثہ صرف 3ہزار ڈالر تھا وہ اب بھی اُ سی اپارٹمنٹ میںرہتے ہیں، ایک عام آدمی اس وقت بھی ان سے مل سکتا تھا اور آج بھی وہ ایک عام آدمی کی طرح رہتے ہیں اور سب سے ملتے ہیں۔

سب سے آخر میں بھارت کے دوسرے وزیر اعظم گلزاری لال نندہ تھے ان کی زندگی کے آخری دن کیسے گزر ے وہ 90سال کی عمرمیں ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے، 5ماہ تک مالک مکان کو کرایہ نہ دیا تو اس نے ان کا سامان ،جس میں ایک چارپائی ،ایک بالٹی اور چند پرانے برتن تھے،باہر پھینک دیا ۔ان کی یہ رہائش گاہ احمد آباد شہر کے ایک محلے میں واقع ہے ۔محلے والوں نے مل کر مالک مکان سے بات کی اور اس بوڑھے کو واپس رہنے کی اجازت دلوائی ،وہ خود برتن دھوتے تھے ۔جب ہندوستان کی حکومت کوپتا چلا کہ وہ ہمارے سابق وزیر اعظم ہیں تو چند گھنٹوں میں ریاست کا وزیر اعلیٰ ،چیف سیکرٹری اور کئی وزیر وہاں پہنچ گئے ان سب نے مل کر ان کو سرکاری گھر منتقل کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کسی قسم کی امداد لینے سے بھی منع کر دیا اور مرتے د م تک 500روپے میں گزارا کرتے رہے ۔گلزاری لال نندہ حیرت انگیز کردار کے انسان تھے۔ جولائی 1898میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور جنوری 1998 میں احمد آباد میں فوت ہوئے۔ جواہر لال نہرو کے انتقال کے بعد 1964 میں وزیراعظم رہے جب کہ 1966میں لال بہادر شاستری کے انتقال کے بعد بھی اس بلند پایہ منصب پر فائز رہے۔بھارت میں تو بہت سے حکمران ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی سیاست کے دوران کوئی کرپشن نہیں کی جن میں سابق وزیر اعظم لال بہادرشاستری ،صدر کمارپرنام مکرجی،صدر عبدالکلام وغیرہ شامل ہیں ۔ہمارے ملک میں عظیم سائنسدان اور جوہری پروگرام کے سربراہ عبدالقدیر خان کے سوا کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ خلیل بھائی صرف یہ اسلام آباد والا گھر میں نے قسطوں پرخود خریدا تھا اور جب کراچی جاتا ہوں تو اپنے بہنوئی یا بہن کے گھر پر رہتا ہوں ۔ہمارے حکمران کیسی عیش بھری زندگی گزار رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اور حکمران اس کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ عوام بھوک اورافلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور کبھی کبھی میڈیا پر پھٹ پڑتے ہیں، دیکھتے ہیں وہ کب اپنا حق لینے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں۔

تازہ ترین