پاکستان ہی نہیں عالمی افق پربھی گرانی کاراج ہے اورعام آدمی کی روزمرہ کی زندگی روزانہ کی بنیادپرمشکل سے مشکل ترہوتی چلی جا رہی ہے، زندگی اور پیدائش ہی نہیں موت بھی، تعلیم ہی نہیں حصول روزگار بھی، سیاحت ہی نہیں رہائش اور علاج بھی مہنگا ہو چکا ہے، ہر ڈھلتی شام اور طلوع ہوتے سورج کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام عام آدمی کی رگوں سے خون نچوڑ کر چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں مرتکز کر رہا ہے، اسی لئے جہاں خط غربت سے نیچے کہیں ننگ وافلاس کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے والوں کی تعداد جس سرعت سے بڑھی ہے، وہیں بھارت سمیت دنیا بھر میں ارب پتی افراد کی تعداد میں بھی اسی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، مہنگائی کے گزشتہ ایک عشرے کے اعشاریئے پچھلی کئی صدیوں کے اعداد و شمار کا منہ چڑا رہے ہیں۔ بظاہر اس گرانی اور بے چینی کی بڑی وجہ دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور کورونا کے بعد یوکرین جنگ کو قرار دیا جا رہا ہے، کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے عالمی معیشت میں مدوجزر ہے، ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے عوام کی قسمت توخیر ہے ہی ایسی اور حکمراں بھی ان کی زندگی میں بہتری لانے کی اپنی ذمہ داری خداکے ذمے ڈال کر اپنی کام چوری اور نالائقی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یورپ بھی اس صورتحال سے مبرا نہیں، توانائی اور غذائی بحران نے دنیا کو ہلا کر رکھا ہوا ہے، حکمراں اور کسی حد تک شاید عوام بھی اس کا ادراک کرنے سے گریزاں ہیں لیکن یہ بحران اس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر سدباب نہ کیا گیاتو آئند ہ ایک دو دہائیوں میں اس کی شدت میں خوفناک حد تک اضافے کا خدشہ ہے۔
محققین کے مطابق پچھلے برس صرف مہنگائی، روزمرہ اخراجات میں اضافے اور توانائی کے بحران کے خلاف دنیا کے 148ممالک میں ساڑھے بارہ ہزار احتجاجی مظاہرے ہوئے اور مزے کی بات یہ ہے کہ سب سے بڑے مظاہرے یورپی ممالک میں ہوئے، یعنی کورونا بلکہ اس سے بھی پہلے سے شروع ہونے والی مہنگائی اور بحران تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور اس نے اور تو اور امیر ممالک کے امیر سمجھے جانے والے شہریوں کا بھی سکھ برباد کر کے انہیں بھی سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک امریکی محقق نے اپنی ریسرچ رپورٹ میں یہ اعتراف کیا ہے کہ اس طرح کی مہنگائی اور بے چینی کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، یورپ میں حالیہ غیر معمولی ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا بحران دنیا کے فیصلے کرنے والوں سے سنبھالا نہیں جا رہا اور غریب ممالک کے برعکس وہاں کے عوام جو کبھی اس صورتحال سے آشنا نہیں رہے، پریشانی اور اذیت میں مبتلا ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ورلڈ بینک نے عالمی اقتصادی فورم کی کانفرنس کے موقع پر چند روز قبل جاری کی جانے والی رپورٹ میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ آئندہ دو برس تک مہنگائی قابو میں آتی نظرنہیں آ رہی اور خاص طور پر توانائی اور غذا کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر رہے گا۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں عالمگیر اضافے کی شروعات میں ہی 2008میں عالمی بینک اور اقوام متحدہ کے ماہرین نے خدشات ظاہر کئے تھے کہ صورت حال پر قابونہ پایا گیا تو عوامی بے چینی بڑھے گی، لوگ احتجاج کریںگے، حکمرانوں کیخلاف نفرت بڑھے گی، اگرچہ عوامی ردعمل ظاہر ہونے میں کچھ وقت لگا لیکن یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی، سالِ گزشتہ پٹرولیم مصنوعات‘ گیس اور بجلی کی قیمتیں 2016کی نسبت تین گنا بڑھ گئیں جس کے نتیجے میں 6900احتجاجی مظاہرے صرف توانائی کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہوئے، ان مظاہروں میں سے ایکواڈور میں جون میں ہونے والے مظاہرے سب سے زیادہ طویل تھے جو اٹھارہ روزجاری رہے اور اس میں چھ افراد جان کی بازی ہار گئے تاہم حکمراں عوامی استقامت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے اور انہیں ڈیزل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈی کے خاتمے کا فیصلہ واپس لینا پڑا، اسی طرح آئی ایم ایف نے 2011میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی غریب ممالک کے عوام کو بری طرح متاثر کر رہی ہے جس سے عوامی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن صرف گیارہ برس بعد ہی 2022میں حالات بدل گئے۔ غریب، پسماندہ اور نادار ممالک کے بھوکے ننگے، بے حال عوام تو جیسے تیسے وقت گزارتے رہے لیکن جرمنی اور فرانس جیسے امیر ممالک میں ستمبر اور اکتوبر کے صرف دو مہینوں میں بالترتیب 395 اور 265 احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ پاکستان میں بھی پچھلے برس بہت احتجاجی مظاہرے دیکھے گئے لیکن ایکواڈور اور بھارت کے علاوہ فرانس، اٹلی، جرمنی اور اسپین مظاہروں کے حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل رہے، فرانس میں مہنگائی کی شرح 6.2 فیصد تک پہنچنے کے باعث سینکڑوں لوگ سڑکوں پر آ گئے جب کہ ارجنٹائن میں مہنگائی کی شرح میں 66فیصد اضافے کے باوجود بہت کم لوگ سڑکوں پرآئے‘ ایشیا‘ افریقہ اور مشرق وسطی میں مہنگائی، بے روزگاری، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے اور بدامنی کی وجہ سے یورپ کی طرف ہجرت میںبے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ 2011کے عرب اسپرنگ کی ایک وجہ گندم کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی تھیں جس نے مصر میں حسنی مبارک کے چالیس سالہ اقتدار کا خاتمہ کیا، پاکستان میں پچھلے دور میں موجودہ حکمرانوں نے بذات خود باری باری مہنگائی کیخلاف مارچ کئے، ماہرین کہتے ہیں کہ اب دنیا بھر میں حکمرانی کے فیصلے بھوک کیا کرے گی اور انہی حکمرانوں کو پذیرائی ملے گی جو روزمرہ زندگی آسان بنائیں گے۔