• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دلی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصور تھے ... دہلی نامہ (قسط نمبر 12)

حضرت خواجہ قطب الدّین بختیار کاکیؒ، بابا فرید الدین گنج شکر کے مرشد تھے اور حضرت خواجہ معین الدّین چشتی اجمیری کے حلقۂ ارادت میں معرفت کی منزلیں طے کی تھیں۔ شمس الدّین التمش جیسا نیک دل، پاک باز، صوفی مَنش، تاج دار، شہنشاہِ ہند، دہلی کے اوّلین مسلمان تخت نشینوں میں سے ایک، حضرت خواجہ قطب الدّین بختیار کاکیؒ کے قدموں میں بیٹھنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا تھا۔ مہرولی بازار سے گزر کر، اُس درگاہ کا سنگِ سُرخ سے بنا دروازہ ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ مرغولہ دار محرابی دروازہ، جس کی سادگی میں بھی ایک عجیب وغریب قسم کا حُسن، ایک طرح کی کشش تھی۔ درگاہ کا یہ عالی شان دروازہ سلطانِ ہند فرید خان شیر شاہ سوری نے تعمیر کروایا تھا۔

ہم نے جوتے ایک گُل فروش کی دُکان پہ رکھوائے اور درگاہ میں نذارنے کے لیے پھولوں کی ایک پلیٹ خریدی۔ درگاہ کا فرش سنگِ مرمر کا تھا اور اتنا اُجلا کہ پاؤں رکھنے سے میلا ہونے کا گمان ہوتا۔ بائیں ہاتھ سنگِ مرمر سے تراشی ہوئی ایک چھوٹی سی مسجد تھی، جس کا نام ’’موتی مسجد‘‘ ہے۔ تین چھوٹے چھوٹے مرمریں گنبد اِس خوب صُورت مسجد کے حُسن کو چار چاند لگا رہے تھے۔ اسے اورنگ زیب عالم گیر کے بیٹے، بہادر شاہ (اوّل) نے تعمیر کروایا تھا۔ اِسی سے ملتی جلتی سنگ مَرمَر کی ایک مسجد لال قلعے میں بھی ہے، اور اُس کا نام بھی ’’موتی مسجد‘‘ ہی ہے۔

قلعہ معلیٰ کی موتی مسجد بہادر شاہ اوّل کے پدرِ بزرگوار اورنگ زیب عالم گیر کےذوقِ تعمیر کی نشانی تھی۔ باپ اور بیٹے کی بنائی گئی یہ مساجد دونوں جگہوں پہ انگوٹھی میں موتی یا نگینے کی طرح آراستہ و پیراستہ نظر آتی ہیں، جن کی مَرمَریں عمارتوں کی آب و تاب آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے، تو دل کاری گروں کے ہنر کو داد دیتاہے۔ وہ دستِ ہنر صدیاں ہوئی رزقِ خاک ہو چُکے ہیں، مگر اُن کے ہاتھوں کا طلسم، سحر اور جادو آج بھی سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ موتی مسجد کے پہلو میں جو احاطہ ہے، اس میں خاندانِ مغلیہ کے کئی تاج دار ابدی نیند سو رہے ہیں۔ یہاں اپنے وقت کے اس قطب کی ہم سائیگی میں خاندانِ تیمور کے شاہان بہادر شاہ اوّل، احمد شاہ غازی، شاہ عالم ثانی اوراکبرشاہ ثانی کی قبریں بھی ہیں۔ مَرمَریں پتّھروں اور جالیوں کا یہ احاطہ بادشاہ فرّخ سیر نے تعمیر کروایا تھا، اِسی سے مِلتا جُلتا سنگ مرمر کا ایک احاطہ درگاہ حضرت نظام الدّین اولیاء میں بھی موجود ہے۔ جہاں شاہ جہان کی بیٹی جہاں آرا اور بادشاہ محمّد شاہ رنگیلا اور اس کی بیوی مدفون ہیں۔ 

اپنے وقت کے مطلق العنان حکم ران، عام درباریوں کی طرح ان خرکہ پوشوں کے دربار میں، اُن کے قدموں میں ابدی نیند سو رہے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں تخت و تاج کی خواہش کبھی نہیں کی، بلکہ ہمیشہ اللہ کے بندوں کے دل جیتے اور ان کے دلوں پہ بےتاج بادشاہ بن کر حکومت کی۔ ہم دَم بخود کچھ دیر ہیرے، موتی سی چمکتی دَمکتی مسجد دیکھتے رہے، پھر درگاہ کی طرف بڑھ گئے۔خواجہ قطب الدّین بختیار کاکی کی درگاہ ایک چھوٹی سی بارہ دَری پر مشتمل ہے، جس پر ایک چھوٹا سا سفید رنگ کا گنبد سایہ فگن ہے۔ بارہ دری کے ستون سنہری روغن سے مرصّع ہیں، جن پر ہرے، سُرخ اور نیلے رنگوں سے نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ 

گنبد کے بیچوں بیچ چھوٹے چھوٹےموتیوں کی طری بلوریں شیشوں پہ مشتمل فانوس ہے، جو قبر کے اوپر سایہ کر رہا ہے، چوں کہ دوپہر کا وقت تھا، اِس لیے فانوس روشن نہیں تھا۔ خیال آیا کہ رات کے وقت اس کی روشنی عجب سماں باندھتی ہوگی۔ قبر کے اردگرد ایک پتھر کی سنہری جالی کے اندر خواجہ صاحب کی قبر بےشمار مرصّع چادروں کی دبیز تہہ کے نیچے چُھپی تھی۔ ہم نے مزار پہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں، جب کہ عطر اور لوبان کی بھینی بھینی خُوش بُو سے بھی ماحول معطّر ہو رہا تھا۔ پھر دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے، بہت دیر تک اپنے آپ میں گُم صم، دنیا سے دُور ایک سرمستی کی روحانی کیفیت میں مبتلا رہے۔ 

قطب مینار کا اِک منظر
قطب مینار کا اِک منظر

یہاں تک کہ یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کیا دُعا مانگیں، کہاں کھڑے ہیں…ہم جیسے دنیادار آدمی کے لیے یہ کیفیت بالکل انوکھی تھی۔ اللہ والوں کے آستانوں میں کچھ تو ہے، جو دِلوں کو سُکون اور سرور بخشتا ہے۔ یوں ہی تو ایک دنیا اُن کی طرف نہیں کھنچی چلی آتی، جیسے پروانے شمع کےگرد۔ اچانک فیض رسول کی آواز نے جیسے جھنجھوڑ ڈالا۔ اُس نے ہمارے کاندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’اِن سے ملیے، یہ ہیں سیّد دانش میاں قطبی۔ یہ درگاہ خواجہ صاحب کے سجّادہ نشینوں میں سے ہیں۔‘‘ ہم نے مُڑ کر دیکھا، تو سامنے ایک دھان پان سا پچیس، چھبیس سال کا نوجوان کھڑا نظر آیا۔ خوش شکل، وجیہہ، چہرے پہ نفاست سے ترشی ہوئی داڑھی مونچھیں سجائے، کاٹن کا اُجلا، سفید، نفیس کرتا پاجاما زیبِ تن کیے، سر پہ نیلے رنگ کی پگڑی باندھے، سراپا محبّت، عجز و انکسار۔ 

انہوں نے بہت محبّت سے مصافحہ، پھر معانقہ کیا۔ پھر مزار سے اُٹھا کر کچھ شیرینی، عطر اور لوبان اور ایسے ہی اور تبرّکات تحفتاً دیئے اور مزار سے ایک سبز رنگ کی چادر اُتار کردستار بندی کی۔ ہمارے جیسے دنیادار شخص کی، ولی اللہ کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے صاحب زادے کے ہاتھوں دستاربندی، دل ہی دل میں اس سعادت پہ خوشی سے پُھولے نہ سمائے۔ دل میں شُکر گزاری کے جذبات تھے کہ اُمڈ اُمڈ آتے تھے۔

اکبر کے وزیر ابوالفضل نے آئینِ اکبری میں خواجہ صاحب کے حالاتِ زندگی قلم بند کیے ہیں۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ماوراءالنہر کے علاقے میں وادی فرغانہ کے شہر اوش میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی نام سید بختیار تھا۔ والد کا نام سید کمال الدّین احمد بن موسیٰ اوشی تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے محبوب ترین خلیفہ تھے۔ انہی کے حُکم پہ اپنا شہر اور علاقہ چھوڑا، ہزار ہا میل دشوار گزار فاصلہ طے کرکےدلی شہر کو اپنا مسکن بنایا اور ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کی بنیاد رکھی۔ وہ دلّی میں وارد ہوئے، تو غریب الوطنی کے دن تھے۔ زندگی کسمپرسی میں بیت رہی تھی۔ 

ایک نان بائی انہیں روٹی پہنچاتا تھا، پھر ایک دن خواجہ صاحب نے اپنی زوجہ کو حُکم دیا کہ نان بائی سے روٹی نہیں لینا(یاد رہے، فارسی میں روٹی کو ’’کاک‘‘ کہتے ہیں) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے گھر کے فلاں کونے میں تمہیں کاک رکھی ہوئی مل جایا کرے گی۔ اور پھر روز خواجہ صاحب کی زوجہ کو گھر کے اُسی کونے میں کاک پڑی مل جاتی۔ اب نان بائی کو تشویش ہوئی کہ خواجہ صاحب نے روٹی قبول کرنے سے انکار کیوں کر کیا، کہیں وہ ناراض تو نہیں، تو اُس نے اپنی بیوی کو خواجہ صاحب کی بیوی کے پاس بھیجا کہ روٹی قبول نہ کرنے کی وجہ دریافت کرو۔ اِس پر خواجہ قطب صاحب کی زوجہ نے سارا واقعہ کہہ سُنایا۔ اور پھر اُس دن سے کاک آنا تو بند ہوگئی، مگر خواجہ قطب صاحب کا نام کاک والی کرامت کی نسبت سے قطب الدین بختیار کاکی پڑ گیا۔

دستار بندی کے بعد سید دانش میاں قطبی نے ہم سب کے لیے دُعا کی، ابھی دُعا ختم ہی ہوئی تھی کہ اُن کے بڑے بھائی، سید شرفو میاں قطبی بھی آن پہنچے۔ در اصل فیض مصطفیٰ کی دُعا سلام شرفو میاں ہی سے تھی۔ جب درگاہ پہنچ کر فیض نے انہیں ہمارے آنے کی اطلاع دی، تو وہ مہرولی سے کہیں باہر نیو دہلی کی طرف گئے ہوئے تھے۔ سو، انہوں اپنے بھائی کو بھیج دیا۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کی فوٹو کاپی لگتے ہیں۔ بس شرفو میاں ذرا زیادہ دُبلے ہیں۔ انہوں نے ہلکے سبز رنگ کا پاجاما، کُرتا پہنا ہوا تھا۔ 

اُسی طرح ترشی ہوئی، نفیس داڑھی مونچھیں، گورا چٹا رنگ، سیاہ رنگ کی دوپلی ٹوپی سر پہ سجائے، وہ عہدِ رفتہ کی دہلی کے باشندے معلوم ہوتے تھے۔ اور، کیا اُردو بولتے تھے، سُن کر دل خوش ہوگیا۔ کسی زمانے میں قلعہ معلیٰ اور شاہ جہان آباد کی بولی یہی رہی ہوگی۔ دل کر رہا تھا، وہ بولتے رہیں اور ہم سُنتے رہیں۔ انہوں نے بھی ہمارے لیے دُعا کی۔ پھر وہ ہمیں ساتھ لے کر قاضی حمید الدین ناگوریؒ کے مزار پہ جاپہنچے۔ درگاہ کے دراوزے کے قریب ہی بائیں ہاتھ سیڑھیاں چڑھ کر اونچے چبوترے پر سنہری ستونوں والے ایک سے چھوٹے سےدالان میں قاضی حمید الدّین ناگوری کا مزارتھا۔ قاضی حمید الدّین ناگوریؒ سے متعلق مشہور ہے کہ وہ باون سال کی عُمر میں بخارا کے تاج دار بنے۔ 

بخارا کے بادشاہ کی حیثیت سے ایک دفعہ جنگل میں شکار کو نکلے اور ایک ہرن مار گرایا۔ جب وہ ہرن تڑپتے ہوئے آخری سانسیں لے رہا تھا، تو اُس نےکہا، ’’میرے ناحق قتل کا قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دو گے؟‘‘ یہ بات سُن کر قاضی حمید الدین اس قدر آزردہ ہوئے کہ تخت و تاج اور دنیاداری ترک کر کے راہِ سلوک پہ چل پڑے۔ اِسی وجہ سے انہیں ’’سلطان التارکین‘‘ کہا جاتا ہے۔ پھر بخارا چھوڑا، بغداد پہنچے، وہاں سے عازمِ حرمین شریفین ہوگئے۔ پہلے مکّہ، پھر مدینہ گئے اور وہیں انہیں خواب میں نبی کریمﷺ کی طرف سے بشارت دی گئی کہ ’’آپ کو ناگور کا قاضی بنایا جائے گا۔‘‘ 

درگاہ پر دستار بندی ہوتے ہوئے
درگاہ پر دستار بندی ہوتے ہوئے

جب انہیں پتا چلا کہ ناگور ہندوستان میں ہے، تو دہلی چلے آئے اور یہاں آ کر سید قطب الدّین بختیار کاکیؒ کو قرآنِ پاک کی تعلیم دی۔ دہلی میں سلطان شمس الدّین التمش کی حکومت تھی۔ وہ آپ کا بہت احترام کرتا تھا۔ خلیق احمد نظامی علی گڑھ مسلم یونی وَرسٹی کے شعبۂ تاریخ کے سربراہ اور پھر وائس چانسلر بھی رہے، وہ اپنی کتاب ’’سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات‘‘ میں لکھتےہیں’’قاضی حمید الدّین ناگوری کو سماع میں بےحد دل چسپی تھی۔ دہلی میں سماع کو اُنہی نے رائج کیا تھا اور التمش کو ان سےبڑی عقیدت تھی، وہ جب دربار میں تشریف لاتے، تو سلطان کھڑے ہو کر اُن کا خیر مقدم کرتا تھا۔‘‘

مزار کا داخلہ مہرولی میں درگاہ خواجہ قطب کے بغل میں تھا۔ سنگِ مَرمَر کی سیڑھیاں چڑھ کر دائیں ہاتھ ایک دیوار میں سنگِ مَرمَر کی جالیوں کے درمیان لوح مزار آویزاں تھی۔ جس پہ قاضی حمیدالدّین کا اسمِ گرامی کندہ اور نیچے شجرہ ٔ نسب لکھا ہوا ہے، جو خلفیہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ تک جاتا ہے۔ لکڑی کا ایک بہت خوش نُما پھولوں کا دروازہ، سنگِ مَرمَر کے احاطے میں کُھلتا ہے، جب کہ بارہ دَری کی چھت پہ سنہری اور سبز رنگ سے پھول، بُوٹوں کی نقّاشی کی گئی ہے۔ کچھ دیر ہم لوگ شرفو میاں کے ساتھ اس بارہ دری کے قریب دالان میں کھڑے رہے۔

اس راہِ سلوک کےعظیم مسافر کا ذکر ہوتا رہا، جس نے چتر شاہی، ماہی مراتب، طوغ و علم سے منہ موڑا، جیغہ و سر پیچ و مالائے مروارید سے مرصّع تاج کو خیرباد کہا۔ زربفت و اطلس و کم خواب کے زرق برق پوشاک ترک کیے۔ مطلق العنان حُکم رانی کو جوتے کی نوک پہ رکھا اور شاہی ترک کر کے گدائی اختیار کی، تو تاج دار شمس الدین التمش نے ان کی قدم بوسی کو اپنےلیےسعادت سمجھا۔ مہرولی کے اس گوشے میں ابدی طور پر محوِ خواب اس فقیر کی قبر کی زیارت کے لیے ہزار ہا میل سے کئی لوگ کھنچے چلے آتے ہیں، جن میں ہم بھی شامل ہیں۔ قاضی حمیدالدین ناگوری نے ایک سو اسّی سال کی طویل عُمر پائی۔ 

گو، آپ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے استاد تھے، مگر جب انہوں نے باطن کی آنکھ سے خواجہ قطب صاحب کا ولایت میں مقام اور مرتبہ دیکھا، تو پھر ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے۔ قاضی ناگوری کے مزار کی زیارت کے بعد ہم شرفو میاں کی ہم راہی میں مہرولی کے بازار کی طرف چل دیئے۔ درگاہ کے دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر بائیں ہاتھ ایک اونچی سی دُکان کے اندر شرفو میاں کا ڈیرہ تھا، جہاں پھول دار قالین اور غالیچے بچھے ہوئے تھے، جن پر ٹیک لگانے کے لیے گاؤ تکیے بھی رکھے تھے۔ ہم لوگ گھیرا بنا کے قالین پہ شرفو میاں کے اردگرد بیٹھ گئے۔ 

شرفو میاں دھیمی سی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے خواجہ قطب صاحب کے حالات زندگی پہ روشنی ڈالتے رہے، پھر قاضی ناگوری کی سوانح پہ روشنی ڈالی، اتنی دیر میں ایک لڑکا چینی کے پیالیوں میں گرما گرم چائے اور ساتھ بسکٹ لے آیا، ایک بوتل میں ٹھنڈا پانی اور ڈسپوزایبل گلاسز بھی تھے۔ ہمیں واقعی شدّت سے اِن دونوں مشروبات کی طلب ہو رہی تھی کہ اتنی دیر کی مسلسل دَوڑ دھوپ سے بدن سخت تھکاوٹ کا شکار تھا۔ سنجیدہ اور متین چہرے پہ دھیمی سی مسکراہٹ سجائےشرفو میاں کی گفتگو تادیر جاری رہی اور ہم چائے پیتے ہوئے گفتگو کے یہ پھول سمیٹتے رہے۔ 

گفتگو سُنتے سُنتے ہماری نظر گلی پر پڑی، تو ذہن کی رو بھٹک سی گئی۔ یہی گلی تھی، جہاں سے کبھی اکبر شاہ ثانی اور ممتاز محل قطب صاحب کے مزار پہ پھولوں کی چادر چڑھانے کے لیے جلوس کی شکل میں گزرے ہوں گے۔ اسی جلوس سے ’’پھول والوں کی سیر کے میلے‘‘ کی بنیاد پڑی اور یہ میلہ آج بھی دہلی میں ہندو اور مسلمان اُسی جوش و خروش سے مناتے ہیں، جیسے صدیوں پہلے مناتے تھے۔

ہماری اگلی منزل مہرولی میں قطب مینار تھا۔ دہلی میں جس نے قطب مینار نہیں دیکھا، گویا اُس نے دہلی نہیں دیکھا۔ قطب مینار دیکھ کر ہمیں چراغ دہلی محلّےجانا اور خواجہ نصیرالدّین چراغ دہلی کے مزار پہ حاضری دینی تھی۔ شرفو میاں نے درگاہ خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی کے سجّادہ نشین، پیرزادہ عامرنصیری کوفون کیا کہ ’’پاکستان سے کچھ دوست خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی کی درگاہ پہ حاضری کے لیے آرہےہیں۔‘‘ (جاری ہے)