’’اب کہاں چلیں؟‘‘ گاڑی کے حرکت میں آتے ہی ستیش نے استفسار کیا۔ ’’انڈیا گیٹ میموریل لے چلو۔‘‘ ہم نے کہا اورگاڑی خراماں خراماں چل پڑی۔ مگر گاڑی کے چلتے ہی آنکھوں کے سامنے جیسے گزشتہ موسم سرما آگیا، جب شہر کے دَر و دیوار سے لپٹی دُھند آنکھیں دھندلا رہی تھی۔ جسم سردی کی شدّت سے کپکپا رہے تھے اور سرد لہر ہڈیوں تک میں اُتر رہی تھی۔ ہم اپنے دفتر میں بیٹھے کچھ سوئے، کچھ جاگے ہوئے سے میز پہ کُھلی کتاب میں مشغول تھے۔ کبھی اُونگھ آجاتی تو آنکھیں نیند سے بوجھل ہو کے پلکوں کے بوجھ تلے بند ہو جاتیں۔ پھر آنکھوں کو مَل مَل کر کھولتے تو کتاب کے دُھندلے صفحے پھر سے واضح ہونےلگتے۔
شوگر مِل کا گھنٹا رات کے دبیز سنّاٹے میں کب کا بارہ بجا چُکا تھا۔ اچانک لابی میں فون کی خوف ناک آواز گونجی، تو وارڈ بوائے اقبال نے فون سُنا اور یکایک دَوڑنے بھاگنے کی آواز آئی، میرے کمرے کا دروازہ کُھلا اور اقبال ہانپتا کانپتا اندر آگیا۔ ’’ڈاکٹرصاحب! مُختار کا بیٹا فوت ہوگیا ہے۔‘‘ اُن دنوں مَیں سوشل سیکیوریٹی اسپتال، جوہر آباد میں تعینّات تھا اور ہنس مُکھ سا، زندگی کےسب دُکھ ہنس ہنس کر جھیلنے والا وارڈ بوائے، مُختار عموماً میرے ساتھ رات کی ڈیوٹی کرتا تھا۔ بڑے عرصے بعد اللہ نے اُسے اولاد کی نعمت سے نوازا تھا۔ آج دوپہر ہی اُس کے ہاں بیٹا ہوا تھا۔ پھر رات کو اُس کا فون آیا کہ ’’بیٹے کی طبیعت خراب ہے، ڈیوٹی پہ نہیں آسکوں گا۔‘‘
جواباً مَیں نے کہا، ’’بچّے کو یہیں لے آؤ، تاکہ اس کا بہتر علاج ہوسکے۔‘‘ ہم اتنی رات گئے، اُسی کا انتظار کر رہے تھے کہ بچّے کے انتقال کی خبر آگئی۔ خوشیوں کے پھول ابھی پوری طرح کِھلے بھی نہیں تھے کہ اُس کے چمن میں خزاں بھی اُتر آئی۔ خبر سُنتے ہی ہم سخت افسردگی کے عالم میں، ششدر سے اپنی گاڑی میں اُس کے گھر کی طرف چل دیئے۔ مختار کے گھر میں ایک کہرام مچا ہوا تھا،پھر اُس دھند بَھری ٹھٹھرتی رات میں ہم لوگ کفن میں لپٹے اُس ننّھے فرشتے کا جنازہ لے کر ہڈالی قصبہ قبرستان پہنچے۔ ہڈالی، خوشاب میں جوہر آباد کے پاس چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہ ہڈالی کے ساتھ ہمارا پہلا تعارف تھا۔
اُسی قصبے میں ڈیڑھ سو سال پہلے سردار سوبھا سنگھ نے بھی جنم لیا تھا۔ پنجاب کے اس دُور افتادہ، پس ماندہ قصبے میں پیدا ہو نے والے سردار سوبھا سنگھ کو سرکارِ برطانیہ نے سر کا خطاب دیا تھا۔ یہ ہندوستان کا بہت بڑا ٹھیکےدار تھا۔ ’’کالکا شملہ ریلوے لائن‘‘ بھی سردار سوبھا سنگھ ہی نے تعمیر کروائی تھی۔ جب نئی دہلی شہر کی بنیاد رکھی گئی، تو اِس کی کئی عمارتوں کے ٹھیکے بھی سوبھا سنگھ کو ملے۔ کنگزوے، جہاں ہم اُس وقت کھڑے تھے، جسے اب ’’راج پاٹھ‘‘ کہتے ہیں، اُس کی گول محراب نُما بہت بڑی عمارت، جسے ’’بابِ ہند یا انڈیا گیٹ وار میموریل‘‘ کہاجاتا ہے، وہ بھی سردار سوبھا سنگھ ہی نے بنوائی تھی اور راشٹر پتی بھوَن کی تعمیر میں بھی اُسی کا حصّہ تھا۔ سُنا ہے، سردار سوبھا سنگھ نےاُس زمانے میں آدھے دہلی شہر کی جائیدادیں خرید لی تھیں۔ بھارت کے معروف مصنّف، تاریخ دان، نقّاد اور صحافی خوشونت سنگھ، سردار سوبھا سنگھ ہی کے بیٹے تھے۔ خوشونت سنگھ کا بہترین ناول ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ آج بھی ہماری یادداشت میں محفوظ ہے۔ اُن جیسا انگریزی لکھنے والا زُود نویس، پنجابی لکھاری، پنجاب دھرتی دوبارہ پیدا نہیں کر سکی۔
بھارت کے مختلف علاقوں سے آنے والے لوگ اور سیاح انڈیا گیٹ کی یادگار کے ارد گرد گھوم پھر رہے تھے اور قریباً ایک سو سال سے زائد قدیم اس عجوبے کو حیرت سے تک رہے تھے۔ انڈیا گیٹ کے سامنے بہت بڑے سبزہ زار کے بیچ ایک دائرے میں گرینائٹ کے پتّھروں پر ایک یادگار قائم ہے، جوجنگِ عظیم (اوّل) میں جان سے جانے والے ہندوستانی سپاہیوں کی یاد میں تعمیر کی گئی ہے۔ گرمی بہت شدید تھی، لیکن اُس شدید گرمی میں بھی مَرد سیکیوریٹی گارڈزکےساتھ ساتھ خواتین سیکیوریٹی گارڈز بھی مستعدی سے ڈیوٹی سر انجام دے رہی تھیں۔
گرینائٹ کے پتّھروں پہ جنگِ عظیم (اوّل، دوم) اور مختلف جنگوں میں جان کی بازی ہارنے والے سپاہیوں اور افسروں کے نام اور رینکس لکھے ہوئے تھے۔ سردار سوبھا سنگھ کی تعمیر کی ہوئی یہ یادگار دیکھنے کے بعد ہم نے ستیش سے کہا ’’بھیا! چلو اب مہرولی کی طرف کہ آج قطب مینار بھی دیکھ ہی آئیں۔‘‘ ’’ہاں، مہرولی میں خواجہ قطب الدّین بختیار کاکیؒ کے مزار پر بھی حاضری دینی ہے۔‘‘ فیض مصطفیٰ نے پچھلی سیٹ سےلقمہ دیا۔
گاڑی مہرولی آرکیولوجیکل پارک کی طرف اُڑی جارہی تھی۔ مہرولی کے مقام پہ لال کوٹ کا قلعہ، طومار خاندان کے حُکم ران، اننگ پال (اوّل) نےتعمیر کیا، پھر اننگ پال دوئم نے اپنا دارالحکومت قنوج سے لال کوٹ مہرولی میں منتقل کیا۔ طومار خاندان کو چوہان خاندان نے شکست دی اور پرتھوی راج چوہان نے اس علاقے میں ’’قلعہ رائے پتھورا‘‘ اور ’’رائے پتھورا کا مندر‘‘ تعمیر کروائے۔ شہاب الدّین غوری نے 1192ء میں پرتھوی راج چوہان کو کرنال، ہریانہ میں ترائن کی جنگ میں چاروں شانے چِت کیا، تو ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کا آغاز ہوا۔ پھر شہاب الدّین غوری نے اپنے غلام قطب الدّین ایبک کو ہندوستان کا حُکم ران مقرّر کیا۔ یوں، قطب الدین ایبک کشورِ ہند کا پہلا مسلمان حاکم بنا، مہرولی اُس کا پایۂ تخت تھا۔
مہرولی، پرانی دلّی سے پندرہ، سولہ کلومیٹر دُور دہلی کے سات شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ پہلی مرتبہ اس کا ذکر ہم نے معروف نقّاد، محقّق، شاعر، افسانہ نگار اور ناول نگار، شمس الرّحمٰن فاروقی کے ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ میں پڑھا تھا۔ مہرولی پہنچ کر ستیش کمار نے ہمیں سڑک کنارے اُتاردیا، جہاں سے ہم ایک پتلی سی گلی میں داخل ہوگئے۔ یہاں چھوٹی، بڑی کئی دُکانیں تھیں۔ بائیں ہاتھ ایک چھوٹی سی کیٹرنگ کی دُکان تھی، جس کے باہر کرسیاں، شامیانے اور قناتیں تہہ کر کے رکھی تھیں۔ پھر اچانک ایک عجیب و غریب منظر دیکھ کر آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں کہ ایک ننگ دھڑنگ، عجیب الخلقت شخص لنگوٹ کَس کر کیٹرنگ کی اُس دُکان سے باہر نکلا۔
یوں لگا، جیسے اکھاڑے میں اُتر کرکسی پہلوان سے دو، دو ہاتھ کرنے نکلا ہو۔ گوکہ اُس کی صحت اتنی اچھی نہیں تھی کہ پہلوانی کے قابل سمجھا جائے، ذہن میں دوسرا خیال یہ لپکا کہ شاید ابھی شاہ راہِ پہلوانی کا نو آموز شہسوار ہو، سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہو اور کسرت کی غرض سے لنگوٹ کَس کے باہر نکلا ہو۔ ابھی ہم انہی سوچوں میں گُم تھے کہ وہ ایلومینیم کے جہازی سائز کے دیگچے میں گُھس گیا۔ ذہن میں اِک شرارتی سا خیال کوندا کہ شاید موصوف خودکُشی کے ارادے سے باہر آئے ہیں اور دیگچے میں بیٹھ کر سالم ہی روسٹ ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مگر یہ دیکھ کر خُودکُشی کا پروگرام بھی خارج از امکان ہوگیا کہ نہ تو وہ دیگچا چولھے پر تھا اور نہ ہی دیگچے کے نیچے کسی قسم کی آگ جل رہی تھی۔ اتنے میں انہوں نے قریب ہی پڑا پلاسٹک کا پائپ اُٹھایا او ٹونٹی کھول کر پہلے دیگچے میں خُود نہائے اور پھر جس طرح پاؤں سے مٹّی گوندھتے ہیں، اُسی انداز میں جہازی سائز کے دیگچے میں پاؤں چلانے شروع کر دیئے۔ ہم نے اندر جھانکا تو حیرت کا ایک اور شدید جھٹکا لگا۔ اندر کھانے کی میزوں پر بچھانے والے دسترخوان اور روٹی لپیٹنے والے کپڑے دَھرے تھے۔
حضرت اپنے پیروں کی مدد سے سرف اور صابن کے امتزاج سے بننے والی جھاگ میں اُن صافیوں اور دسترخوانوں کی دھڑا دھڑ میل اُتارنے میں مصروف تھے۔ ساتھ اپنے پیروں کی صفائی بھی کر رہے تھے۔ کبھی کبھی جب دھوپ تیزلگتی، توخُود پر پائپ سے پانی ڈال لیتے۔ موصوف کو ایک تیر سے تین شکار (اپنے جسم، صافیوں اور دسترخوانوں کی میل ایک ساتھ صاف) کرتے دیکھ کر ہم نے دل ہی دل میں اُن کی ذہانت کی داد دی اور آگے بڑھ گئے۔
بائیں ہاتھ مہرولی کا ڈاک خانہ تھا، جس کے دروازے پر کھڑے ہو کر تصویر کھنچوائی کہ فی زمانہ ڈاک خانے سے یہی کام لیا جاسکتا ہے۔ کسی زمانے میں چِٹھی رسانی کا کام کبوتروں کے ذمّے تھا، پھر کبوتر ریٹائر ہوگئے اور ڈاک کا زمانہ آگیا۔ ہمارے بچپن میں باقاعدہ خطوط لکھے اور اُن کے جواب کا ہفتوں، مہینوں انتظار کیا جاتا تھا۔ نابغہ روزگار شاعر اور ادیب بھی خط لکھتے اوریقیناً اس نیّت سے نہیں لکھتے تھے کہ بعد میں وہ خط کتابی شکل میں شائع ہوں گے۔
مکاتیب غالب کی تمام جِلدیں ہمارے پاس محفوظ مامون پڑی ہیں۔ ویسے اُن خطوط نے اُردو نثر میں جو عام فہم، سلیس، زبانِ زدِ عام، گلی محلّے کی اردو زبان کی بنیاد ڈالی، اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اِسی دلّی میں رہتے ہوئے غالب نے وہ مکاتیب لکھے اور زبان کو ثقالت، تکلّف اور بھاری بھرکم الفاظ کے بوجھ سے آزاد کردیا۔ اب تو بھیّا خطوط کا زمانہ بھی ختم ہوگیا کہ اب زیادہ تر سرکاری ادارے ہی پوسٹ آفس کے ذریعے ڈاک کی ترسیل کرتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست کو کچھ سال پہلے کسی کانفرنس کے سلسلے میں سفرِ ہند درپیش تھا، تو وہ بھی چوں کہ ہماری ہی طرح سرکاری ملازم تھے، تو حکومت کے این او سی کے بغیر بھارت کا سفر ناممکن تھا۔ بےچارے کو بذریعہ ڈاک این او سی تب ملا، جب کانفرنس گزرے چھے مہینے کا عرصہ گزر چُکا تھا۔ خُود ہمیں اجازت نامہ بہت سفارشوں کے بعد ڈھائی مہینے میں جا کے جاری ہوا، وہ بھی اِس طرح کے محکمے نے کچھ معلومات کےلیے آزمودہ کار ڈاک کے نظام پر تکیہ کرنے کے بجائے، خط و کتابت فیکس کے ذریعے کرلی۔
مہرولی کے ڈاک گھر کے سامنے تصویر کشی کے بعد تنگ سی گلیوں کے ایک بازار میں خواجہ قطب الدّین بختیار کاکی کے مزار کی طرف چل پڑے۔ اتنے میں کچھ بھوک اور پیاس سی محسوس ہوئی۔ راستے میں دائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا کولڈ ڈرنک کا کھوکھا دکھائی دیا، جس کے پاس چپس، نمکو، دال اور چھوٹے نمکین چنے وغیرہ تھے، تو ہم نے اُس سے کولڈ ڈرنک اور چپس لےلیےاور پیسے پکڑاتے ہوئے ایک راہ گیر سے درگاہ کا رستہ دریافت کیا۔ پھر وہ چپس ہی کھاتے کھاتے درگاہ کی طرف چل پڑے۔
مہرولی کی تنگ گلیوں کے بازار میں پیدل چلتے ہوئے ہم لوگ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی درگاہ تلاش کررہےتھے، تو بائیں ہاتھ ایک قسائی کی دُکان نظر آئی، ’’بھینس کا گوشت دست یاب ہے‘‘ دُکان پر اُردو، ہندی اور انگریزی میں جَلی حروف میں لکھا تھا۔ دیکھ کے فوراً خیال آیا کہ یہاں تو یہ لکھے بغیر کاروبار ہی ممکن نہیں کہ یہ بھارت ہے، جہاں گائے بےحد مقدّس سمجھی جاتی ہے اور اگر کسی کو ذرا سا شک بھی ہو جائے کہ گوشت بھینس کا نہیں، گائے کا ہے، تو ہندو مسلم تنازع یا کوئی بڑا فساد کھڑا ہو سکتا ہے، پھر جس میں کتنی ہی قیمتی انسانی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں۔
خیر، صفائی کی صورتِ حال ہمارے ہاں کی طرح ہی قطعاً قابلِ رشک نہ تھی۔ گوشت پہ مکھیوں نےیلغار کر رکھی تھی اور دُکان کے قریب ہی کچھ کتّے چھیچھڑوں کی دعوتِ شیراز اُڑا رہے تھے۔ خیر، دُکانوں پہ آتے جاتے گاہکوں اور مہرولی کی گلیوں میں مصروف زندگی کو دیکھتے اور راستہ پوچھتے پاچھتے بالآخر ہم درگاہ کے قریب پہنچ ہی گئے۔ جہاں بستی نظام الدّین کے بازار سے ملتا جلتا ’’مہرولی بازار‘‘ تھا۔ پھول والوں کی دُکانوں پر، رنگ برنگی آیاتِ قرآنی سے مزیّن چادریں، پھول، پھولوں کی پتیاں، اگربتیاں، عطر، لوبان، چوگوشیہ اور جالی والی ٹوپیاں، نیز، زمرّد، عقیق، یاقوت کے نگینوں کو اپنے دامن میں سمیٹے پیتل، چاندی اور کانسی کی انگوٹھیاں دست یاب تھیں۔ عطر اور پھولوں کی ملی جُلی خُوش بُو نے بازار کے ماحول میں ایک روحانی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ (جاری ہے)