بات چیت: شفق رفیع
’’انٹرمیڈیٹ تک تو مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ مَیں آگے جاکر طب کے شعبے سے وابستہ ہوں گی یا میری دل چسپی اس شعبے میں ہوجائے گی کہ مَیں تو کامرس کی طالبہ تھی، مجھے نمبرز سے کھیلنا اچھا لگتا تھا، میرا دھیان ہمیشہ ہی سے کامرس کی طرف تھا۔ اور سچ کہوں تو ’’بڑے ہو کر ڈاکٹر بنوں گی‘‘ جیسا خیال کبھی ذہن میں آیا ہی نہیں۔ لیکن جب آغا خان نرسنگ اسکول کا آغاز ہوا، تو مَیں نے سوچا کہ کیوں نہ اس شعبے سے متعلق معلومات حاصل کی جائیں، اس میں تعلیم حاصل کی جائےکہ یہ ایک نوبل پروفیشن ہے۔
آغاخان ہیلتھ سروسز، ایسٹ افریقا کی ریجنل سی ای او، ڈاکٹر زینت سلیمان خان کی باتیں
اب چوں کہ مَیں نے سائنس نہیں پڑھی تھی، تو ظاہر سی بات ہے کہ میڈیسن نہیں پڑھ سکتی تھی، تو مَیں نے اس حوالے سے اپنے والدین سے مشورہ کیا،ابّا نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ تم ایک کام یاب ااور اچھی انسان بنو، اگر تم نرسنگ کرنا چاہتی ہو تو شوق سے کرو، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ‘‘ پھر چوں کہ ہم لوگ بھائی کے پاس کینیڈا منتقل ہورہے تھے، تو والدین کا خیال تھا کہ مغربی ممالک میں ویسے بھی نرسنگ کا شعبہ بہت مستحکم ہےاوراس میں ترقی کے مواقع بھی زیادہ ہیں، تو یوں مَیں نرسنگ کے شعبے میں داخل ہوگئی۔
اور جب اس کی تعلیم حاصل کی، اس سے متعلق معلومات حاصل ہوئیں، تو پتا چلا کہ یہ کس قدر وسیع شعبہ، باقاعدہ ایک پروفیشن ہے، جس کی مزید کئی شاخیں ہیں۔ ‘‘یہ خیالات ہیں، ڈاکٹر زینت سلیمان کے، جو آغاخان ہیلتھ سروسز ، ایسٹ افریقا کی ریجنل سی ای او ہیں اور جنہوں نے امریکا سے نرسنگ میں پی ایچ ڈی کرکے پاکستان میں اس شعبے کا ایک نیا رُخ، ایک نیا زاویہ متعارف کروایا ہے۔
ڈاکٹر زینت سے ملاقات سے قبل کم از کم ہمیں تو یہ ہر گز معلوم نہ تھاکہ نرسنگ کے شعبے میں بھی پی ایچ ڈی ممکن ہےاور یہی نہیں، نرسنگ کی تعلیم حاصل کرکے صرف مریضوں کی دیکھ بھال ہی نہیں کی جاتی، بلکہ کئی اور اہم اُمور بھی سرانجام دئیےجا سکتے ہیں۔ بہرکیف، گزشتہ دنوں ہم نے ڈاکٹر زینت سے ایک ملاقات کی، جس میں ان کی تعلیم و تربیت، نرسنگ کے شعبے، اس حوالے سے درپیش چیلنجز اور ’’سیف کیئر سرٹیفیکیشن‘‘ سے متعلق تفصیلی بات چیت کی، جو نذرِ قارئین ہے۔
س: اپنے خاندان، تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں۔
ج: مَیں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ 1971ء یعنی سقوطِ ڈھاکا کے وقت بنگلا دیش سے پاکستان آئی تھی۔ ہم تین بہن بھائی(ایک بھائی، دو بہنیں) ہیں، جن میں میرا نمبر تیسرا ہے۔ تینوں نے تعلیمی مدارج پاکستان ہی میں طے کیے ۔ مَیں نے انٹر میڈیٹ کےفوری بعد آغا خان اسکول آف نرسنگ میں داخلہ لے لیا تھا، بہن نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن(آئی بی اے) سے گریجویشن کیا ، جب کہ اس دوران بھائی کینیڈا منتقل ہوگئے۔
س: بچپن کہاں اور کیسا گزرا، پڑھائی میں کیسی تھیں؟
ج: بچپن…!! کہنے کو تو چار حروف کا مجموعہ ہے، لیکن سچ کہوں تو، میری زندگی کا سب سے خاص اور بہترین دَور تھا۔ چوں کہ ہم بنگلا دیش سے ہجرت کرکے آئے تھے، تو ہمارے قریبی رشتے دار، خاندان والے یہاں نہیں تھے، لہٰذا ہم پانچ افراد(والدین اور بہن ، بھائی) ایک دوسرے سے بہت ہی قریب تھے، چھوٹی سے چھوٹی بات ایک دوسرے سے شیئر کرتے، ایک دوسرے کا مضبوط سہارا تھے۔ پھر جہاں امّاں، ابّا نے ہماری تعلیم و تربیت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا، وہیں بالخصوص ابّا نے ہمیں بگاڑنے، ہماری چھوٹی چھوٹی معصوم خواہشات پوری کرنے میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم چُھٹّی والے دن کسی نہ کسی پارک جایا کرتے تھے، جب کہ چُھٹیوں میں ہاکس بے جاتے اور خوب سیر و تفریح کرتے۔
اُس زمانے میں لڑکیوں کا سائیکل چلانا عام نہیں تھا، بلکہ یہ کہہ لیجیے کہ معیوب سمجھا جاتا تھا، لیکن ابّا نے مجھے خود سائیکل چلانی سکھائی، ہر وہ کام کرنے دیا، جو مَیں کرنا چاہتی تھی۔ امّاں، ابّا نے ہم تینوں بھائی، بہنوں میں کبھی کوئی فرق نہیں رکھا۔ جتنی محبّت اپنے بیٹے سے کرتے تھے، اتنا ہی پیار اپنی بیٹیوں پر بھی نچھاور کیا۔ ہاں، بچپن کی خُوب صُورت یاد ہمارے ہم سائے بھی ہیں، یعنی ہم بنگلا دیش سے آئے تو اکیلے تھے، لیکن یہاں ہم سایوں کی صُورت ایک بہت ہی خوب صُورت خاندان مل گیا۔ ایسا خاندان، جس سے خون کا نہیں، محبّت کی چاشنی میں ڈوبا اٹوٹ رشتہ ہے اوریہ تعلق وقت کے ساتھ مزید گہرا اور مضبوط ہی ہوتا جا رہا ہے۔
جہاں تک بات ہے، پڑھائی کی، تو سچ کہوں تومَیں مُوڈی تھی کہ اگر دل لگا کر پڑھنے بیٹھ جاتی، تو بہت ہی اچھا اسکور کرلیتی ، ورنہ کھیلتے کُودتے بھی اچھے مارکس آہی جاتے تھے۔ لیکن یہ بتاتی چلوں کہ مَیں نےنرسنگ میں پورے سندھ میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب پوسٹ گریجویشن کے لیے امریکا گئی، تو اچھے گریڈز اور آغا خان یونی وَرسٹی کے نام کی وجہ سے فی الفورداخلہ مل گیا۔
س: آپ نے پہلے جامعہ کراچی سے آرٹس میں، بعد ازاں آغا خان یو نی و رسٹی، کراچی سے بیچلرز کیا، اس کی کیا وجہ تھی؟
ج: مَیں نے انٹرمیڈیٹ کے بعد نرسنگ میں ڈپلوما ، پھر گریجویشن کیااور بعد ازاں، کینیڈا، پھر امریکا منتقل ہوگئی، جہاں سےاعلیٰ تعلیم حاصل کی۔بات یہ ہے کہ جب ہم بڑے ہو رہے تھےیا اپنی ٹین ایج میں تھے، تو اُس وقت آغا خان یونی وَرسٹی انڈر گریجویشن ڈگریز آفر نہیں کرتی تھی اور آج مَیں انتہائی فخر سے یہ بات بتا رہی ہوں کہ رواں برس سے آغا خان یونی ورسٹی ’’فیکلٹی آف آرٹس سائنسز‘‘ آفر کرنے جا رہی ہے، جس میں اس فیکلٹی کے مختلف شعبوں میں ڈگریز دی جائیں گی۔ تو چوں کہ میرے جامعہ کراچی سے گریجویشن کے بعد آغا خان نرسنگ اسکول کا آغاز ہوا، تو اس لیے مَیں نے بعد میں یہاں سے سیکنڈ بیچلرز کیا۔
س: آغا خان یونی وَرسٹی اسپتال سے کب سے وابستہ ہیں ، یہاں اپنی پوسٹ، ذمّے داریوں کے حوالے سے کچھ تفصیلاً بتائیں۔
ج: 1987ء میںآغا خان یونی ورسٹی، کراچی سےبطور جونیئر نرس اپنے کیریئر کا آغاز کیا، تب سےآج تک آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک سے وابستہ ہوں۔ شروع کے کچھ سال یہیں کام کیا، پھر امریکا چلی گئی، جہاں پہلے نرسنگ میں، بعد ازاں ہاسپٹل ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا۔ پھر جانس ہاپکنزیونی وَرسٹی، میری لینڈ، امریکا سے ڈاکٹریٹ کیا، جس میں میرا فوکس ہاسپٹلزاینڈ ہیلتھ کیئر مینجمنٹ اور ہاسپٹل کوالٹی پر تھا۔ اس وقت مَیں اللہ کے کرم اور والدین کی دُعاؤں سے آغاخان ہیلتھ سروسز ، ایسٹ افریقا کی ریجنل سی ای او ہوں۔ فی الوقت میری زیرِ نگرانی پانچ اسپتال اور پچاس کلینکس ہیں۔ اس طرح مَیں تین دہائیوں سے آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک سے منسلک ہوں۔
س: ہمارے ہاں ’’نرس‘‘ کا نام سُنتے ہی اونچا جُوڑا بنائے، کَھٹ کَھٹ کرتے جوتے کے ساتھ اسپتال میں اِدھر سے اُدھر جاتی ایک تنک مزاج سی خاتون کا تصوّر ذہن میں آتا ہے، تو ایسا کیوں ہے؟
ج: دیکھیں، کسی بھی پروفیشن کا کوئی امیج سوسائٹی بناتی ہے۔گوکہ ہمارے ہاں بد قسمتی سے اب تک نرسنگ کے شعبے کو وہ شناخت، اہمیت نہیں ملی، جو ملنی چاہیے، لیکن یقین کریں کہ جس وقت مَیں نے اس شعبے میں قدم رکھا تھا، تب سے آج تک ہمارے ہاں یہ شعبہ بہت ترقّی کر چُکا ہے۔ نرسنگ سے متعلق لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہےاور کم از کم ہمارے ادارے میں تو یہ شعبہ جدید ٹیکنالوجی، سہولتوں اور تعلیم سے آراستہ ہے۔
مانا کہ آج بھی نرسنگ کو دوسرے طبقے کا پروفیشن سمجھا جاتا ہے۔ اور اُن کی بھی وہ لڑکیاں، جنہیں کہیں اور ملازمت یا داخلہ نہیں ملتا، وہ نرسنگ میں آجاتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی بدل رہی ہےکہ اب نوجوان اپنے شوق سے نرسنگ کا شعبہ اپنا رہے ہیں، بلکہ صرف لڑکیاں ہی نہیں، لڑکے بھی اس شعبے میں خاصی دل چسپی لے رہے ہیں۔ جس طرح سے میرے والدین نے آج سے 30،35 سال پہلے نرسنگ کے شعبے پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، وہ سوچ اب آج کے والدین میں پروا ن چڑھتی نظر آرہی ہے۔پھر یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہےکہ ہمارا ادارہ اپنے نرسزکو وہ رتبہ اور عزّت دیتا ہے، جو اُن کا حق ہے۔
س: ’’ہیلتھ کیئر سسٹم‘‘ میں نرسز کی اہمیت کے حوالے سے کیا کہیں گی؟
ج: انسان کے جسم میں جو اہمیت ریڑھ کی ہڈّی کو حاصل ہے، ہیلتھ کیئر سسٹم میں وہی اہمیت نرسز کی ہے۔ ڈاکٹرز آتے ہیں، مریض کو دیکھتے ہیں، ادویہ لکھتے ہیں، راؤنڈز کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ لیکن ذرا سوچیں کہ اسپتال میں مریض داخل کیوں ہوتا ہے، رُکتا کیوں ہے، اس کا جواب ’’نرسنگ کیئر‘‘ ہےکہ ڈاکٹرز تو 24 گھنٹے مریض کے سرہانے نہیں رہتے، اُن کا خیال نہیں رکھتے، یہ کام نرسز کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرز بھی راؤنڈز کے وقت نرسز سے مریض کی رپورٹ لیتے ہیں، انہیں ہدایات دیتے ہیں۔ نرسنگ کے شعبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ اپنے پیارے اُن کے حوالے کر کے چلے جاتے ہیں۔
س: آپ نے کئی ممالک میں خدمات انجام دی ہیں، تو پاکستان اور دیگر ممالک کے ہیلتھ کیئر سِسٹم میں کیا فرق محسوس کیا، نیز وہاں بھی نرسز کے حالات اتنے ہی ابتر ہیں، جتنے کہ یہاں؟
ج: میرے خیال میں ہیلتھ کیئر سسٹم ایک گاڑی کی طرح ہے، جس میں کوئی ایک نہیں، تمام پُرزے اہم ہوتے ہیں۔ یہی بات ہماری وزارتِ صحت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نظامِ صحت بہتر کرنے کے لیے کسی ایک طبقے کو نہیں، سب کو برابر اہمیت دینی ہوگی اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ہم سب کو(حکومتی، نجی اداروں)ایک پیج پر آکر ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ صرف ڈاکٹر ز اسپتال چلاتے ہیں، تو یہ درست نہیں۔ ہاں، ڈاکٹرز کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ بےحد ضروری ہیں، اُن کی تعلیم و تربیت سے مریض استفادہ کرتے ہیں، لیکن نرسز ان کا ہوتے ہیں۔
نرسز کو بھی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، جو مریضوں کے کام آتی ہے۔ تو ہمیں نظامِ صحت بہتر بنانے کے لیے ایک ایسا نظام مرتّب کرنا چاہیے، جس میں ڈاکٹرز، نرسز، دیگر اسٹاف کے ساتھ ساتھ ہیلتھ فنانسنگ اور معیار پر بھی توجّہ دی جائے کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کیا گیا، تو یقینی طور پر خرابیاں پیدا ہوں گی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ توجّہ ہے کہ یہ کام کسی ایک ادارے کا ہے اور نہ ہی کوئی ایک ادارہ تنہا کچھ کر سکتا ہے۔ مغربی ممالک میں صحتِ عامّہ کو ایک نظام کی حیثیت حاصل ہے، جو کوئی ایک طبقہ چلاتا ہے، نہ ہی اس میں کسی ایک پروفیشن کو اہمیت دی جاتی ہے۔
وہاں ہر ایک کو برابری کی سطح پررکھاجاتا ہے۔ یاد رکھیں، جب نظامِ صحت کے تحت آنے والے تمام شعبوں کے افراد تعلیم یافتہ، مراعات یافتہ ہوں گے، سب کی تن خواہیں اچھی ہوں گی، تو معیار خود بخود بلند ہوجائے گا۔ جہاں تک بات ہے، ترقّی یافتہ ممالک میں نرسز کے حالات کی، تو وہاں نرسنگ کو ایک نوبل پروفیشن مانا جاتا ہے، نرسز کی تعلیم پر بہت پیسا خرچ کیا جاتا، اُن پربہت دھیان دیا جاتا ہے۔ نرسز، ڈاکٹرز ہم قدم ہوتے ہیں۔ ویسے آغا خان اسکول آف نرسنگ میں بین الاقوامی سطح ہی کی تعلیم دی جاتی ہے، اسی لیے ہماری ڈگری کسی بھی ترقّی یافتہ مُلک میں قابلِ قبول ہے۔
ہمارے یہاں نرسز کو سائنس، کیئرنگ ، ابلاغ کے طریقے پڑھائے، سکھائے جاتے ہیں۔ تو جب نرسز کی تعلیم پر توجّہ دی جائے ، انہیں معقول تنخواہیں ملیں، تو ممکن ہی نہیں کہ وہ کام میں کوتاہی برتیں۔ یاد رکھیں، نہ صرف نرسنگ، بلکہ ہر پروفیشن کا یہی اصول ہے کہ آپ جتنا اپنے ملازمین کا خیال رکھیں گے، وہ اُتنی ہی دل جمعی سے کام کریں گے۔ ہمارے ادارے میں نرسنگ اسٹاف کی تن خواہوں، مراعات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے لیےدل و جان سےکام بھی کرتے ہیں۔
س: کوالٹی ہیلتھ کیئر اور سیف کیئر کے حوالے سے کچھ بتائیں، یہ کتنا ضروری ہے؟
ج: سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کوالٹی ہیلتھ کیئرصرف ترقّی یافتہ ممالک میں نہیں ہوتی کہ نظامِ صحت تو ترقّی پذیر ممالک کا بھی معیاری بنایاجاسکتا ہے۔ یاد رکھیں، محدود ذرایع کا مطلب ہمیشہ معیار پر سمجھوتا نہیں ہوتا۔ معیار توممالک خود مقرّر کرتے ہیں، پھر چاہے وہ ترقّی یافتہ ہوں یا ترقّی پذیر۔’’سیف کیئر‘‘ ایک انٹرنیشنل سرٹیفیکیشن ہے، جس کا آغاز نیدرلینڈز سے ہوا، اس نےدنیا کو ایک بہت ہی بہترین فریم ورک دیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ محدود وسائل میں رہتے ہوئے بھی معیاری نظامِ صحت بنایا جاسکتا ہے۔
سیف کیئر نے پانچ لیولز پر محیط ایک اسکیل دیا ہے، جس میں اسپتال اپنے وسائل کے حساب سے لیول منتخب کرسکتے ہیں، پھر جس پر انہیں جانچا جاتا ہے۔ اس کا مقصد صحت کی معیاری سہولتوں کی فراہمی ہے تاکہ معیار پر سمجھوتا نہ ہو۔ مَیں بہت خوش ہوں کہ ہمارے پاکستان میں تین اور افغانستان میں ایک(آغا خان میڈیکل سینٹر، گلگت، آغاخان میٹرنل اینڈ چائلڈ کیئر سینٹر، حیدر آباد، آغاخان اسپتال برائے خواتین، کریم آباد، کراچی، فرینچ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ فار مدر اینڈ چلڈرن، کابل) یعنی کُل چار اسپتالوں نے سیف کیئر کی لیول فائیوسرٹیفیکیشن حاصل کرلی ہے تو یہ ضروری ہے کہ کسی فریم ورک کے تحت کام کیاجائے، خود کو کسی کسوٹی پر پرکھا جائے، تبھی تو ہم خود کو بہتر کر سکیں گے۔ اور یہ سب تب ہی ممکن ہے، جب ہم کسی نظریے کے تحت کام کریں۔
اس حوالے سے حُکم رانوں، سیاست دانوں اور وزارتِ صحت کو بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیےکہ وہ اپنے نظامِ صحت کو کیسے معیاری بناسکتے ہیں۔ اگر مُلک کے تمام اسپتال سیف کیئر کے اصولوں کے تحت کام کریں، سرٹیفیکیشن حاصل کرنے کی کوشش کریں، تو پورے مُلک کا نظامِ صحت خود بخود ہی بہتر ہوتا چلا جائے گا۔
س: سیف کیئر سرٹیفیکیشن حاصل کرنے کا طریقۂ کار کیا ہے، کوئی ٹیم معائنہ کرتی ہے؟
ج: اس کے لیے سب سے پہلے تو اسپتال کی مینجمنٹ، ڈاکٹرز، نرسز اور بورڈ کی تربیت کی جاتی ہے، اُنہیں سمجھایاجاتاہے کہ آپ نے کن کن باتوں کا خیال رکھنا ہے، اسپتال میں کیسا ماحول ہونا چاہیے۔ پھر ایک تجزیہ کرتے ہیں، جس سے پتا چل سکے کہ وہ لوگ کس لیول پر ہیں۔ اس کے بعد ایکشن پلان دیا جاتا ہے، جس میں بتایا جاتا ہے کہ آپ کا موجودہ لیول یہ ہے اور فلاں فلاں شعبے میں بہتری لاکر آپ لیول 3 یا 4 پر جا سکتے ہیں۔ اس ایکشن پلان کے بعد سیف کیئر کے سرٹیفائیڈ سرویئرز پر مشتمل ٹیم سروے کرتی ہے، جس کی نگرانی نیدرلینڈز کرتا ہے۔
سیف کیئر سرٹیفیکیشن حاصل کرنا قطعاً مشکل یا ناممکن نہیں، یقین کریں کہ افریقا کے ایک گاؤں میں قائم ایک سرکاری اسپتال بھی یہ سرٹیفیکیشن حاصل کرچُکا ہے، صرف اس لیے کہ اس نے معیار بہتر کیا۔ ضروری نہیں کہ آپ لیول 5 ہی کی سرٹیفیکیشن حاصل کریں، لیکن کوئی تو لیول ہو، کوئی تو معیار مقرّر کیا جائے۔ ہمارے سرکاری اسپتال جیسے جناح اسپتال، سوِل اسپتال، این آئی سی وی ڈی میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ سیف کیئر سرٹیفیکیشن باآسانی حاصل کر سکتے ہیں کہ وہ جس طرح کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں، جن حالات، جن محدود وسائل میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں،وہ قابلِ تعریف ہے اور اس حوالے سے اگر کوئی بھی حکومتی شخصیت یا ادارہ مجھ سے مدد لینا چاہے، بات کرنا چاہے تو مَیں بخوشی ان کی رہنمائی کرنے کو تیار ہوں۔
س: جو افراد نرسنگ کی فیلڈ میں کیریئر بنانے کے خواہش مند ہیں، اُن کی رہنمائی کے لیے کیا کہنا چاہیں گی؟
ج: نرسنگ میں آنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ یہ باقاعدہ ایک پروفیشن ہے،یہ نہیں کہ کہیں داخلہ نہیں مل رہا، تو نرسنگ کے شعبے میں آگئے، بلکہ بھر پور جوش و جذبے اور لگن کے ساتھ اس پروفیشن میں قدم رکھیں اور اس میں آگے سے آگے بڑھنے کی جستجو میں لگے رہیں۔ نرسنگ سے کئی پروفیشنز کے بھی دروازے کُھلتے ہیں کہ آپ نرسنگ ری سرچ میں جاسکتے ہیں، نرسنگ اکیڈمکس، نرسنگ ایڈمنسٹریشن میں جاسکتے ہیں، نرسنگ پریکٹشنرزبن سکتے ہیں۔ بس آپ کو اپنی تعلیم پر خوب توجّہ دینی ہو گی، کیوں کہ یہاں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے، یہ پروفیشن اَن تھک محنت کا متقاضی ہے۔
س: کم از کم ہمارے علم میں تو نہیں تھا کہ نرسنگ میں بھی ڈاکٹریٹ کیا جا سکتا ہے، تو کیا پاکستان میں بھی اس حوالے سے پی ایچ ڈی پروگرام موجود ہے، اگر ہے تو کن جامعات میں؟
ج: جی ہاں، پاکستان میں نرسنگ کے حوالے سے بہت کام ہو رہا ہے۔ آغاخان یونی ورسٹی، اسکول آف نرسنگ اینڈ مِڈ وِفری، کراچی سمیت لیاقت نیشنل اسپتال، الشفاانٹرنیشنل اسپتا ل وغیرہ میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی تک کروائی جا رہی ہے۔
نیز، پاکستان نرسنگ کاؤنسل بہت سرگرم ہے ، یہ آج سے چالیس، پچاس سال پہلے کی کاؤنسل نہیں رہی، بلکہ بےحدمستحکم اور مضبوط ہوچُکی ہے، جو خود نرسنگ کی تمام ڈگریز اور ڈپلوماز کو فروغ دے رہی ہے۔ آج نرسنگ کا شعبہ پاکستان میں بہت ترقّی کر چُکا، بہت آگے جا چُکا ہےاور اس کا سہرا پاکستان کے نرسنگ لیڈرز کے سر ہے۔
س: آپ نے بطور نرس پاکستان اور دیگر ممالک کے مریضوں کے رویّوں میں کیا فرق محسوس کیا؟
ج: جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، بالکل اسی طرح ہر مریض کی سوچ، انداز اور اخلاق بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ پاکستان ہو یا بیرونِ مُلک مریضوں کی اکثریت نرسز سے اچھی طرح پیش آتی اور ممنوں رہتی ہے کہ ہم نے اُن کا خیال رکھا۔
س: آپ کے خیال میں ایک بہترین نرس میں کون کون سی خصوصیات ہوتی ہیں؟
ج: میرے خیال میں ایک نرس کو تعلیم یافتہ، دانش مند، حاضر دماغ اور خیال رکھنے والا ہونا چاہیے۔ اس فیلڈ میں بہت سی رکاوٹیں آتی ہیں، لیکن اُنہیں عبور کرکے آگے، بس آگے ہی بڑھتے چلے جانا چاہیے۔
س: عموماً نرسز کن چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں؟
ج: سب سے بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ آج بھی اسے خواتین کا شعبہ سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ اب پاکستان میں مرد بھی اس پروفیشن کی طرف آرہے ہیں، لیکن شرح پھر بھی کم ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج صرف نرسز کا نہیں، شاید ہر پروفیشن کا ہے کہ کام اور زمّے داریوں کی مناسبت سے تن خواہیں نہیں ملتیں۔ جب تن خواہیں کم ہوں گی، مراعات نہیں دی جائیں گی، تو بھلا کون لگن اور محبت سے کام کرے گا۔
س: کیریئر کا کوئی انوکھا، دل چسپ واقعہ شیئر کرنا چاہیں گی؟
ج: جب مَیں نرسنگ ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کرکے پہلی مرتبہ پاکستان آئی اور اسکول آف نرسنگ میں پڑھانا شروع کیا، تو میری بہت سی شاگرد ، جونیئر نرسز مجھے آئیڈیلائز کرتی تھیں، آنکھوں میں چمک لیے اکثر کہتیں کہ ’’ہم بھی زینت میڈم جیسے بنیں گے‘‘ تو یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی کہ چلو مَیں اپنے پروفیشن کے ساتھ انصاف کر پا رہی ہوں، اپنے وطن کی خدمت کر رہی ہوں۔ اور آج بھی جب کوئی مجھے دیکھ کر نرسنگ میں مستقبل بنانے کا اظہار کرتا ہے، تو مجھے بےحد خوشی ہوتی ہے۔