• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ حکومت کو آج کم و بیش 15سال ہوگئے ہیں کہ ایک ہی جماعت کے پاس ہے۔ 2008ءسے 2018 ء تک یہاں پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ شریک اقتدار رہی ہے۔ کسی نہ کسی طرح ایم کیو ایم کے لوگ یہاں براجمان رہے ہیں، اس دوران کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کی حکومتیں برسر اقتدار رہی ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو منتخب کروا کے شہر کراچی کی تاریخ اور سیاست کا نقشہ بدل دیا ہے۔ مگر لوگ ہیں کہ وہ ایک ہی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ 15سال سے سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار ہے آخر اس جماعت نے سندھ میں کیا کیا ہے؟سر دست میں ان سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے کچھ نہیں کیا تو 2018ءسے سندھ میں ان کی نشستیں ہر انتخاب میں بڑھ کیوں جاتی ہیں ؟ پیپلز پارٹی 2008ء میں اقتدار میں آئی تو اس کیلئے کراچی میں امن و امان سر درد بنا رہا، ایک تو پرویز مشرف ملک میں بجلی کا بحران آنے والی حکومت کو ورثے میں دے کر گئے تو دوسری طرف کراچی شہر میں لسانی فسادات، ہڑتالیں اور جرائم کی وجہ سے ایک طرف فیکٹریاں بند ہونا شروع ہوگئیں تو دوسری طرف سرمایہ دار نئی سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار نہ تھے، لیکن پی پی پی حکومت نے کراچی سے کشمور تک بڑے منصوبے بنانے کا آغاز کیا، کراچی میں سڑکوں کو کشادہ کیا، میرپور خاص کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ایک موٹروے طرز کی سڑک بنائی، دوسری طرف کراچی سے ٹھٹھہ اور حیدرآباد کی روڈ نئے سرے سے بنائی بلکہ اسے کشادہ بھی کیا ، بدین اور تھر میں این آئی سی وی ڈی جیسے ادارے قائم کئے آج تھر جیسے علاقوں میں جدید ترین این آئی سی وی ڈی تو موجود ہے ہی اس کےساتھ حکومتی اسپتال بھی موجود ہیں جہاں 24گھنٹے ڈاکٹر موجود ہیں، بدین میں یونیورسٹی بھی قائم ہوچکی ہے، لاڑکانہ میں نہ صرف اوور ہیڈ برجز اور پل تعمیر ہوئے بلکہ جدید انفراسٹرکچر قائم کیا گیا، جامشورو سے سیہون جانے والا راستہ جو سنگل ٹریک تھا، اور یہ نیشنل ہائی وے تھی، جو وفاقی حکومت کو بنانا تھی، سندھ حکومت آگے بڑھی اور اپنے حصہ کا کام کیا یہ ہی نہیں سندھ میں جہاں جہاں وفاقی حکومت کو سڑکیں بنانی تھیں وہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے سندھ حکومت نے جدید ترین انفراسٹرکچر کھڑا کردیا۔لیاری جیسے علاقے میں آج میڈیکل کالج ہے۔ اس علاقے میں ایک یونیورسٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ اگر آپ سکھر جائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ آج سے 15 سال پہلے کا سکھر نہیں رہا، یہاں جدید ترین این آئی سی وی ڈی موجود ہے، یہاں دل کے اسپتال کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت کا جدید ترین اسپتال موجود ہے، یہاں مزدوروں کیلئے بہترین فلیٹ بھی موجود ہیں۔ یہ سندھ حکومت نے فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو بلا معاوضہ دیے ہیں۔ سانگھڑ جائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پی پی پی پیر پگارو کے گھر سے کیسے جیتنے میں کامیاب ہوئی ۔ یہاں پیپلز پارٹی کی حکومت نے کئی سو کلومیٹر دور سے پانی کی پائپ لائن اچھرو تھر پہنچا دی ہے۔ سانگھڑ کے اس صحرا میں ایسے دیہات ہیں جہاں 75 سال میں پانی کبھی نہیں ملا وہاں آج اس پائپ لائن سے پانی میسر ہے۔تھر میں تو سڑکوں کا جال پی پی پی نے ایسا بچھا دیا ہے کہ لگتا ہی نہیں یہ صحرا کی سڑکیں ہیں۔ تاہم پیپلزپارٹی کو مزید بہتری لانی ہے۔ پولیس اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ریونیو اور دیگر محکموں میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اپنی کمی بیشی کے باوجود سندھ حکومت نے جتنا سندھ میں 15سال میں کام کیا ہے اتنا کام گزشتہ 75سال میں نہیں ہوا۔ آپ اندازہ لگائیں کہ این آئی سی وی ڈی سے کئی ملین مریضوں نے سال 2022میں مفت علاج کروایا جبکہ دل کا علاج کرانے کیلئے تولوگ کنگال ہوجاتے ہیں مگر سندھ حکومت کے اس ادارے سے نہ صرف سندھ کے شہری بلکہ دیگر صوبوں سے آئے لوگ بھی مستفید ہورہے ہیں۔ میرا پی پی پی کے مخالفین سے سوال ہے کہ مجھے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کوئی ایک ادارہ بتا دیں جہاں مریضوں کو لاکھوں کے اسٹنٹس مفت ڈالے جارہے ہوں، کوئی ایک ایسا ادارہ بتا دیں جس کے سیٹلائیٹ سینٹرز کے ذریعے مریضوں کا دور افتادہ علاقوں میں مفت علاج کیا جارہا ہو۔ سندھ میں جاری ایسے بیسیوں منصوبے ہیں جن کو عالمی اداروں نے سراہا اور یہ ہی وجہ ہے کہ عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے، اور اسی فائدے کی بدولت پی پی پی کے امیدوار کے سامنے تمام پارٹیوں کے امیدوار ہار جاتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے میڈیا منیجرز/ میڈیا سیل حکومت سندھ کی کارکردگی کو اجاگر نہیں کررہا۔

تازہ ترین