میرا دوست پریشان تھا کہ 75سال میں ہم نے پاکستان کے ساتھ جو کیا ، کیا وہ درست ہے؟کون اس کا ذمہ دار ہے؟ میں نے کہا پاکستان ایک لبرل، اصول پسند اور دیانت دار شخص نے بنایا۔ اس ملک کی انتظامی بدقسمتی دیکھئے کہ قائد اعظم محمد علی جناح آزادی کے اگلے سال ہم سے بچھڑ گئے ۔قائد اعظم کے ساتھ کیا ہوا اس سلسلے میں لکھی جانے والی کتابیں پڑھی جا سکتی ہیں ۔ پاکستان کا پہلا وزیراعظم دورہ روس منسوخ کر کے کیوں امریکہ چلا گیا تھا اور چند مہینوں کیلئے امریکی جہاز پر سیر سپاٹے کیوں کرتا رہا؟ کس نے سندھیوں کے گھراجاڑ کر اپنے ووٹروں کیلئے کئی محلے آباد کئے ؟لالو کھیت کس کا تھا اور کس کو دے دیا۔ پاکستان کے ابتدائی زمانے کی کوکھ میں مظالم کی ایک نہیں کئی داستانیں ہیں۔ کس طرح بیوروکریٹس نے گورنر جنرل بننے کا راستہ ڈھونڈا اور کس طرح بلی چوہے کا کھیل سجایا گیا۔ پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ تماشابنا کر رکھ دیا گیا۔جوں ہی پاکستان کی عسکری قیادت نے یہ دیکھا کہ سول بیوروکریسی اقتدار کی مالک بن گئی ہے تو اس نے بھی اقتدار کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔1954میں ایوب خان وردی سمیت وزیر دفاع بن گئے ۔ اسی دوران جب ایک اسمبلی توڑی گئی تو اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین سندھ ہائیکورٹ چلے گئے ، اسمبلی بحال ہوئی تو اسمبلی برخاست کرنے والے مقدمے کو فیڈرل کورٹ یعنی سپریم کورٹ لے آئے جہاں جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت متعارف کرواتے ہوئے اسمبلی کی برخاستگی کو جائز قرار دے دیا۔ یہی نظریہ ضرورت بعد میں بھی کام آتا رہا۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ بھارت کا پہلا وزیراعظم 15 سال تک اقتدار میں رہا مگر ہمارے ہاں صورتحال مختلف تھی۔ ہمارے ہاں تو ایک وقت وہ بھی آیا جب وزیر اعظم ، صدر، چیف جسٹس اور پاک فوج کا سربراہ چاروں مغربی پاکستان سے تھے، مشرقی پاکستان سے کوئی نہ تھا۔ 50 اور 60 کی دہائی میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ بہت نا انصافیاں کیں ۔ حسین شہید سہروردی جیسے محب وطن کو غداری کا سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ ایک ڈکٹیٹر کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دینے کی پاداش میں شیخ مجیب کو غدار بنا دیا گیا۔
1970 میں عام انتخابات ہوئے ۔ 81سیٹیں جیتنے والے بھٹو کو 160 سے زائد نشستیں جیتنے والے شیخ مجیب الرحمٰن پر ترجیح دی گئی ۔ اس طرح بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر جمہوریت کا قتل کیا۔پھر ہمارا ملک دو لخت ہو گیا۔ آج ہم بنگلہ دیش سے کہیں پیچھے ہیں۔پیچھے رہنے کی بہت سی وجوہات میں سے چند وجوہات یہ ہیں۔بھٹو کی طرف سے نیشنلائز کرنے کی پالیسی نے ہماری معیشت کو بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ جو ڈالر 1972میں چار پانچ روپے کا ملتا تھا،ضیا الحق کے مارشل لائی دور میں آٹھ سے سولہ روپے میں ملتا رہا۔ ضیاالحق کے دور میں فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کا بیج بویا گیا جس سے بہت بربادی ہوئی۔ اس کے بعد ہمارے ہاں باریوں والی جمہوریت شروع ہو گئی ۔ جب ایک کی باری آتی تو وہ لوٹتا جب دوسرے کی باری آتی تو وہ بھی لوٹ مار کو دو قدم آگےبڑھاتا۔ یوںہمارےہاں کرپشن عروج پر پہنچی اور ہیرا پھیریوں کے ساتھ منی لانڈرنگ کا آغاز ہو گیا۔ درمیان میں مشرف کا دور بھی آیا۔ اس دور میں کھلا بزنس ہوا۔ مشرف کے عہد میں ڈالر کی قیمت 60 روپے رہی۔ اسکے بعد پھر سے باریوں کا کرشماتی کھیل شروع ہوا۔ اقتدار کی اس رسہ کشی میں حکومتیں کرنے والوں نے ہماری معیشت کی کوکھ گویابانجھ کر کے رکھ دی۔
2018 میں جب نظر آرہا تھا کہ اگلا الیکشن عمران خان جیت جائیں گے تو اسحاق ڈار جاتے جاتے معیشت کو چاٹ گیا۔ عمران خان کی ساڑھے تین سال حکومت رہی اور ان ساڑھے تین برسوں میں 3سال کورونا جیسے وبائی مرض کا سامنا رہا۔ گزشتہ دس مہینوں سے’’ماہرین‘‘کی حکومت ہے جن کی مہارت 40 سال تک ملک کو کچھ نہ دے سکی۔ ان ماہرین کی جادوگری دس مہینوں میں لوگوں کو بھوک کے آنگن میں لے آئی ہے ۔ رعایا حکمرانوں سے سخت ناراض ہے، غصے میں ہے۔ مخلوق خدا تو رب کا کنبہ ہے ۔ کنبہ رو رہا ہے ۔ کنبے کو روتا دیکھ کرکیا رب خوش ہوگا ؟ ۔
میرا دوست میری باتیں سنتا رہا اور پھر بولا عمران خان اب کیا چاہتا ہے ۔ میں نے کہا پورے پاکستان کو عمران خان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے کورونا کے دوران بھی اپنا ملک بند نہ ہونے دیا۔ اپنی انڈسٹری بند نہ ہونے دی بلکہ 1992 سے بند پڑی ہوئی پاور لومزتک کو چلا دیا۔ کورونا کے باوجود اس نے لوگوں کو مہنگائی کی شدت کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اس کی حکومت نے خود بوجھ برداشت کیا مگر لوگوںکیلئے آسانیاں پیدا کیں۔ عمران خان ایک کھرا اور محب وطن لیڈر ہے۔ وہ پاکستان میں انصاف کا ایسا نظام چاہتا ہے جہاں مافیاز کا راج نہ ہو۔ وہ پاکستان میں مضبوط فوج کا خواہاں ہے ۔ وہ سب کو آئین اور قانون کے تابع دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس کی زندگی کا محور و مرکز پاکستان ہے۔ وہ پاکستان سے عشق کرتا ہے ۔ اور بار بار اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ پھلے پھولے گا ۔ وہ شکر کرتا ہےکہ اللہ نے پاکستان کو نعمتوں سے نوازا ہے ۔ پچھلے دس مہینوں سے لوگ سڑکوں پر نکلنا چاہتے ہیں ۔ لوگ سری لنکا جیسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر یہ عمران خان ہے جس نے لوگوں کو سنبھال رکھا ہے اور انہیں خانہ جنگی کی طرف جانے نہیں دے رہا۔ اس کے اس عمل پر اداروں سمیت پورے پاکستان کو عمران خان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ ویسے عمران خان کے علاوہ کوئی سیاسی چہرہ ایسا ہے بھی نہیں جو ہم دنیا کو دکھا سکیں۔ عمران خان کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھائیں ورنہ مار دھاڑ تو ہر منڈیر پر کھڑی ہے۔ بقول فرحت عباس شاہ
یہ جو ہر موڑ پہ آ ملتی ہے مجھ سے فرحت
بد نصیبی بھی کہیں میری دیوانی تو نہیں