• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض افرادیاان کا رویہ ضرب المثل کی صورت اختیار کر جاتا ہے،یہ ضرب المثل یا تو خوبی کا احاطہ کئے ہوتی ہے یا خامی کا اعلان کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ جس طرح نوشیرواں عادل کا انصاف آج بھی ایک ضرب المثل ہے، اسی طرح مصر میں بہاؤالدین الاسدی خرخوش حاکم قاہرہ کی بے انصافی بھی ایک ضرب المثل ہے ۔ اور وہاں جہاں کہیں بھی بے انصافی نظر آئے توطنزاً کہا جاتا ہے کہ’’ یہ خرخوش کا انصاف‘‘ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک چور کسی گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہونے کیلئے دیوار پر چڑھا اور وہاں سے آگے جانےکیلئے ایک کھڑکی کو گزرگاہ بناتے ہوئے کھولنے کی کوشش کرنے لگا ۔ کھڑکی پرانی اور دیمک زدہ تھی کھولنے کی کوشش میں بجائے کھلنے کے ٹوٹ کر گر پڑی ،چور چونکہ اسی کے سہارے کھڑا تھا لہٰذا کھڑکی سمیت دھڑام سے زمین پہ آن گرا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ۔ اگلے روز چور لنگڑاتا ہوا خر خوش کے دربار میں پہنچا اور اس سے کہا کہ میں ایک چور ہوں ۔ گزشتہ شب ایک گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوتے ہوئے ایک کھڑکی کو کھول رہا تھا کہ وہ ٹوٹ کرمجھے بھی اپنے ساتھ لے گری ، جس سے میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ خرخوش کے تن بدن میں آگ لگ گئی، اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ مالک مکان کو حاضر کرو ،وہ گئے اور مالک مکان کو پکڑ کرلائے ۔ خرخوش نے مالک مکان سے غصے میں پوچھا کہ تم نے اتنی کمزور کھڑکی کیوں لگائی کہ جس سے چور کو یہ حادثہ پیش آگیا؟ مالک مکان ہکا بکا رہ گیا کہ چور کو سزا دینے کی بجائے یہ افتاد میرے سر پر آن پڑی ہے، کچھ کہتا ہوں تو توہین ہو جاتی ہے اور توہین پر سزا دینے کا جس کو اختیار حاصل ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے، یہی سوچ کر اس نے خرخوش سے کہا کہ حضور یہ میرا قصور نہیں میں نے تو بڑھئی کو پوری مزدوری ادا کی تھی مگر اس نے کمزور کھڑکی بنادی۔ اچھا یہ بات ہے خرخوش نے بڑھئی کو پیش کرنے کا حکم صادر کردیا ،بڑھئی کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ خرخوش نے غضبناک ہوتے ہوئے اس سےپوچھا کہ تم نے اتنی کمزور کھڑکی کیوں بنائی کہ جس کی وجہ سے چور کی ٹانگ ٹوٹ گئی؟ بڑھئی ایک سمجھدار انسان تھا، جانتا تھا کہ اس سے بحث کرنے کا فائدہ ہونے کی بجائے الٹا نقصان ہوگا کیونکہ یہ اس وقت طاقت کے نشے میں دھت ہے، لہٰذا بولا، حضور والا غلام کی کوئی تقصیر نہیں جب میں کھڑکی میں کیلیں پیوست کر رہا تھا تو ایک خوبصورت عورت سرخ رنگ کے کپڑے زیب تن کئے وہاں سے گزر رہی تھی میں اس کو دیکھنے میں اتنا محو ہو گیا کہ کیلیں درست انداز میں نہ لگا سکا۔ اب تو خرخوش کا غصہ اور بڑھ گیا کہ اصل’’قصور وار‘‘کا تعين نہیں ہو رہا تھا ۔ اس نے حکم دیا کہ اس عورت کو فوری طور پر گرفتار کرکے حاضر دربار کیا جائے عورت کو پیش کیا گیا ۔ خرخوش نے اس سے استفسار کیا کہ تم اتنی خوبصورت کیوں ہو اور اس دن سرخ کپڑے زیب تن کرکےباہرکیوں پھر رہی تھیں ؟ اگر تو اتنی خوبصورت نہ ہوتی اور اس دن سرخ کپڑے نہ پہنتی تو بڑھئی تیری جانب متوجہ نہ ہوتا اور وہ اگر تیری جانب متوجہ نہ ہوتا تو اپنا کام دھیان سے کرتا اور کیلیں درست انداز میں لگاتا اور اس طرح چور کی ٹانگ نہ ٹوٹتی ۔ عورت بھی بہت عقلمند تھی اس نے جواب دیا کہ جہاں تک میری صورت کا تعلق ہے تو وہ تو مالک حقیقی نے عطا فرمائی ہے اور اگر الزام کپڑوں پر ہے تو اس میں بھلا میرا کیا قصور؟ کیونکہ ایسے اچھے سرخ رنگ کے کپڑے رنگریز نے رنگے تھے۔ خرخوش اس کی بات سن کر سر ہلانے لگا کہ تیرا تو کوئی قصور نہیں ہے مگر اس رنگریز کو کیا پڑی تھی کہ وہ اتنے خوبصورت انداز میں کپڑے رنگتا کہ جس کے سبب چور پر یہ آفت آن پڑی۔ اس رنگ ریز کو تو ضرور سزا سنانا ہوگی مگر سزا سنانے سے قبل اس کو صفائی کا موقع فراہم کیا جائے گا اور اس کی گرفتاری کا حکم صادر کردیا گیا ۔ رنگریز کو گرفتار کرکے پیش کردیا گیا وہ بیچارہ خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا ۔ حلق سوکھ گیا اور آواز نکلنے کا نام نہیں لے رہی تھی خرخوش کے سامنے اس سے کوئی جواب بن ہی نہ پڑا اور خرخوش نے فیصلہ کرلیا کہ’’اصل مجرم‘‘کوئی اور نہیں بلکہ یہی ہے کہ جس کے سبب بیچارا چور اس مصیبت کا شکار ہوگیا، خرخوش نے زور دے کر کہا کہ انصاف ہو گا اور ضرور ہوگا۔ رنگ ریز کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی وہ لرزنے لگا اور سپاہی اس کو پھانسی دینے والے مقام تک لے گئے مگر وہاں یہ مسئلہ سامنے آگیا کہ جس دروازے پر پھانسی لگانی تھی وہ چھوٹا تھا اور رنگریز کا قد لمبا۔ معاملہ دوبارہ خرخوش کے حضور میں پیش کرنا پڑا ۔ اس نے کہا کہ یہ کون سا مسئلہ ہے ؟جرم تو رنگریز نے ہی کیا ہے اگر اس رنگریز کا قد پھانسی دینے میں رکاوٹ ہے تو کسی مناسب قد کے رنگریز کو پکڑ لاؤ اور پھانسی دے دو تاکہ’’انصاف‘‘ کا بول بالا ہو سکے اور یوں ’’انصاف‘‘کا بول بالا ہو گیا۔ حکایات صرف سننے سنانے تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ ہر دور کو اپنےاندر سموئے ہوئے ہوتی ہیں اور ہر طاقت ور سے یہ تقاضا کر رہی ہوتی ہیں کہ وہ نوشیرواں عادل کی مانند ایک استعارہ بننا چاہتا ہے یا خرخوش کی مانند ایک تلخ داستان ۔ ویسے وطن عزیز میں بھی جسٹس کیانی مرحوم سے لے کر جسٹس بھگوان داس کی طرح کے درخشاں ستارے موجود رہے ہیں مگر افسوس کہ ان کے برعکس مثاليں کچھ زیادہ ہی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین