• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیران بلکہ پریشان ہوں ۔عدالت نے تو صرف اتناحکم دیا ہےکہ آئین کے مطابق نوے روز کے اندر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کرائے جائیں مگر تاثر ایسا دیا جارہا ہے کہ پتہ نہیں عدلیہ نے کیا کردیا ہے ۔کچھ معلوم اور کچھ نامعلوم افراد سپریم کورٹ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔ عدلیہ مخالف مہم سے ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ موجودہ حکومت واقعتاً نوے دن میں انتخابات کرانے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی ۔ اتنی کھلی آئین شکنی !یقین نہیں آتا۔میرے خیال میں حکمرانوں کو چیف جسٹس آف پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے انہیں ایک خوفناک مقدمے سے بچالیا ہے وگرنہ جس آرٹیکل کے سبب پرویز مشرف جیسی شخصیت زندگی کے آخری ایام اپنے وطن میں نہ گزار سکی ۔ وہ آرٹیکل ۔ان بیچاروں کے ساتھ کیا ہونا تھا۔ میں اتنا جانتا ہوں جس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اس کا انجام بہت برا ہوا ہے ۔ایک چیزپاکستان کا آئین ہے، جس کے مطابق قوانین بنائے گئے ہیں مگر ایک چیز ان دونوں سے زیادہ اہم اور بے رحم ہے ۔وہ ہے قانون ِ قدرت ۔اس کی زد میں آیا ہوا کبھی بچ نہیں سکا۔احادیث میں آتا ہے، جس نے ناجائز لڑائی کی،جس نے والدین کی نافرمانی کی ،جس نے ظالم کی مدد کی ،وہ مجرم ہے اور فرمان ِ خداوندی ہے ،’’بے شک ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں ‘‘۔ اس وقت ہم جس طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں اس میں مجھے ڈر ہے کہ کہیں قانونِ قدرت متحرک نہ ہوجائے ۔ ظفر علی خانؔ نے کہا تھا،

نہ جا اُس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اُس کی

ڈر اُس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اُس کا

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی ضمانت مسترد ہونے اور وارنٹ گرفتاری جاری ہونے پر بھی ایک امریکی صحافی نے امریکی حکومت کے ترجمان نیڈ پرائس سے سوال کیا کہ کیا یہ سیاسی انتقام نہیں تو جواب آیا،’’ہم پاکستان میں جمہوریت، آئین اور قانون کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ سوال ہم سے نہیں ، پاکستانی عوام سے کیا جانا چاہئے‘‘۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ سوال پاکستانی حکومت سے کیا جانا چاہئے یعنی امریکہ بھی یہی سمجھتا ہے کہ پاکستا ن میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا جواب پاکستانی عوام کو دینا ہوگا اور عوام اس سوال کا جواب صرف ووٹ کے ذریعے ہی دے سکتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت انتخابات نہیں کرانا چاہتی مگر جمہوریت میں کوئی حکومت انتخابات سےکیسے بھاگ سکتی ہے؟ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والےا سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے تمام سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات ایک دن کرانے کیلئے باہم مشاورت کا مشورہ دیا ہے ۔دوسری طرف نون لیگ کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بھی کہا ہے کہ اگر عمران خان ایک الیکشن پر سنجیدہ ہیں تو بات ہو سکتی ہے۔عمران خان تو چاہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں کیونکہ صرف وہی ملک کو تباہی کے دہانے سے واپس لا سکتے ہیں۔شایدمعاملات طے ہونے کا وقت آچکا ہے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کردار بہت اہم ہوگیا ہے ۔ایوان صدر میں گفت و شنید شروع ہوسکتی ہے ،جس میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی شریک کیا جاسکتا ہے ۔

انتخابات افواج ِ پاکستان کے زیر نگرانی ہونے چاہئیں مگر اطلاعات یہی ہیں کہ ابھی تک ان سے کوئی رابطہ نہیں کیاگیا۔الیکشن کیلئے الیکشن کمیشن نے بیس ارب روپے مانگے ہیں مگرحکومت نے پانچ ارب دئیے ہیں۔کسی کاخیال ہے کہ ابھی تک سپریم کورٹ کے حکم پرپوری طرح عمل نہیں کیا جارہا ۔میں سمجھتا ہوں ایسا ہرگز نہیں ۔ محترمہ مریم نوازکئی دن پہلے اپنی انتخابی مہم کاآغاز کر چکی ہیں۔کچھ لوگ محترمہ مریم نواز کی جگہ شاہد خاقان عباسی کو دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی نہیں چاہتے کہ نواز شریف واپس پاکستان آئیں۔یعنی نون لیگ میں بھی کشمکش جاری ہے ۔پرویز رشید نجانے کہاں ہیں ۔انہیں کنارے پر لگانے والے یقیناً نون لیگ کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کا مستقبل بھی پی ٹی آئی ہے۔فواد چوہدری کو چاہئے کہ وہ پرویز رشید کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دیں۔مجھے شاہد خاقان عباسی بھی زیادہ دیر نون لیگ کے ساتھ چلتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔نون لیگ میں ان کا اپنا ایک گروپ ہے ۔اطلاعات یہی ہیں کہ ڈسکہ کی ایم این اے نوشین افتخار ان کیلئے لابنگ کررہی ہیں ۔تقریباً ہفتہ ڈیڑھ پہلے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایل این جی ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی کے ناقابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری کئےتھے جسے ان کے قریبی حلقوں نے کسی اور طرح سے دیکھا تھا۔جب شہباز شریف ، حمزہ شریف اور سلمان شریف کے کیسز ختم ہورہے ہوں، ایسے موسم میں شاہد خاقان عباسی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے پر یقیناًحیران ہونا بنتا ہے ۔

عمران خان نے اپنی انتخابی مہم شروع کردی ہے ۔فواد چوہدری کے بقول یہ انتخابی مہم چالیس شہروں میں ویڈیو لنکس سے شروع کی گئی ہے ۔ڈاکٹرز نے بھی عمران خان کو حرکت کرنے کیلئے گرین سگنل دے دیا ہے کہ اب ان کی ٹانگ اس قابل ہے کہ وہ آسانی سے سفر کر سکتے ہیں مگر ان کی زندگی کو درپیش خدشات اس بات کے متقاضی ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ انتخابی مہم ویڈیو لنکس کے ذریعے جاری رکھنی چاہئے ۔ نواز شریف بھی ویڈیو لنکس کے ذریعے برطانیہ سے اپنی انتخابی مہم چلا سکتے ہیں ۔

تازہ ترین