• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پیشے کے لحاظ سے ایک صحافی رہا ہوں، معاشی نمبرز اور معیشت کو اس طرح نہیں سمجھ سکتا اور نہ اپنی رائے پیش کر سکتا ہوں جیسے ہمارے بڑے بڑے معاشی گرو اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ مگر پھر سوچتا ہوں اگر یہ سب کچھ جانتے ہیں اور ہر شخص معیشت کا ماہر ہے تو پھر ہمارا معاشی زوال کیوں ہورہا ہے؟ ہم ہندوستان سے معاشی میدان میں پیچھے کیوں ہیں؟ بنگلا دیش ہم سے آگے کیسے نکل گیا ؟ کیا وجہ ہے کہ جو حکومت آئی اس نے یہی کہا کہ پچھلے خزانہ خالی کر گئے تھے لہٰذا ہم ٹھیک کریں گے اور ٹھیک کرنے کیلئے ہم غریبوں کی خوب درگت بنائیں گے تاکہ امیروں کو زیادہ فرق نہ پڑے۔ اور ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ آج کل ٹی وی آن کرو تو طرح طرح کے تجزیے سننے کو ملتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جسے ہم ٹیکنوکریٹ کہتے ہیں ان میں سے چند ایک تو ایسے ہیں جو ہمیشہ ہی کسی نہ کسی طرح حکومت میں رہے ہیں اور ان میں اکثر یہ تاثر دیتے ہیں کہ جب جب ہمارے ہاں جمہوری حکومت آتی ہے یہاں معیشت کا گراف نیچے چلا جاتا ہے جب کہ ڈکٹیٹروں اور آمروں کے دور میں جی ڈی پی کا گراف ہمیشہ اوپر گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے دعوے کو درست ثابت کرنے کیلئے یہ لوگ نمبرز کا بھی سہارالیتے ہیں۔ پاکستان میں آمریت کے حامی اپنے گمراہ کن نظریات کی ترویج اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کیلئے عام طور پر GDP گروتھ کے اعدادوشمار پیش کرکے آمروں کو بہتر حکمران ثابت کرنے کیلئےایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ،جمہوری حکومتوں میں ملک کے مفاد پر کوئی سودے بازی نہیں ہوئی جب کہ آمروں کے ادوار میں ہمیشہ ملک کے مفاد پر کاری ضرب لگائی گئی، ہمارے دریا بیچے گئے، ہمارے پاکستانی بیچے گئے یہاں تک کہ پاکستان میں غیر ملکی اقوام کو بسایا گیا جو آج تک یہاں موجود ہیں۔ جہاں تک جی ڈی پی گروتھ کا تعلق ہے تو یہ ایک یکطرفہ تصویر ہے ۔ یہ دعویٰ کسی طور پر درست نہیں کہ آمروں کے دور میں پاکستان خوشحال ہوا، حالانکہ بیرونی ملکوں سےجتنی امداد آمروں کو ملی اتنی کسی جمہوری حکومت کو نہیں ملی، لیکن یہ کون سی خدمات تھیں کہ ان آمروں کو اتنی امداد مل جاتی تھی جبکہ جمہوری حکومتوں کو ایک ٹکا بھی نہیں ملتا تھا ؟پاکستان کو سب سے زیادہ امریکی اور مغربی فوجی و اقتصادی امداد ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘ کے تناظر میں پرویز مشرف کے دور میں ملی تھی۔ اس امداد سے ہم نے کتنی فیکٹریاں لگائیں، کتنےڈیمز بنے ،کتنے بجلی کے پلانٹس لگے ، جن سے خوشحالی آسکتی تھی۔ درحقیقت یہ امداد ہم آج تک قرض کی صورت میں واپس کررہے ہیں۔ دوسرے نمبر پرامداد روس کے خلاف سرد جنگ میں’’فرنٹ اسٹیٹ کا کردار اداکرنے والے ، جنرل ایوب خان کو ملی تھی جب کہ تیسرے نمبر پر نام نہاد’’افغان جہاد کے نام پر‘‘ جنرل ضیا کے دور میں ملی جس پر جنرل ضیا یہ کہتے دکھائی دئیے کہ یہ امداد تو مونگ پھلی کے دانےکے برابرہے۔اعدادوشمار کے مطابق 1952ء میں پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ منفی 1.80فیصد تھی جو دو سال بعد 1954ء میں اچانک 10.22 فیصد ہو گئی تھی اور یہ اس لئے نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان میں کوئی قارون کا خزانہ نکل آیا تھا بلکہ ستمبر 1953ء میں آرمی چیف جنرل ایوب خان کے امریکہ بہادر سے کئے گئے معاہدوں کے مطابق دیئے گئے فوجی اڈوں کے عوض بھاری فوجی اور اقتصادی امداد ملی تھی۔ بیرونی امداد پر انحصار اور’’ڈالروں کی بارش‘‘ کا یہ عالم تھا کہ 1957ء کے بجٹ کا چالیس فیصد حصہ امریکی امداد پر مشتمل تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ 1952ء سے 2015ء تک پاکستان کی اوسط فی کس آمدنی 4.24 فیصد رہی تھی جو سال2020ء میں ایک بار پھر منفی ہو گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 2018ء سے امریکہ نے پاکستان کی امداد مکمل طور پر بند کردی ، نہ افغانستان کے حالات میں امریکہ کی اب مزیدکوئی دلچسپی ہے اور نہ وہ روس کے اس خطے میں کردار سے پریشان ہے، لہٰذا مغربی طاقتوں نے یوکرین کی صورت میں ایک نیا پاکستان ڈھونڈ لیا ہے جسے وہ بھرپور امداد دے رہے ہیں۔ ہماری معیشت شروع سے آج تک امداد اور قرضوں کی محتاج رہی ہے۔ ہم نے اس ملک میں ادارے بنانے کے بجائے بنگلے اور کوٹھیاں بنائیں۔ آمروں کے دور میں امریکہ بہادر ہمیں قرضے اور امداد اسلئے دیتا رہا کہ اس دوران ہمارا خطہ کسی نہ کسی بحران کا شکار تھا، خاص طور پر افغانستان، جس سے امریکہ اور مغربی طاقتیں مجبور ہوکر ہماری فوجی اور معاشی امداد کرتی رہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے اس امداد کو کہاں خرچ کیا ؟ آمروں کے دور میں توپاکستان میں کوئی بڑا منصوبہ نہیں لگا، موٹروے اور ایٹمی پروگرام جیسے منصوبے شروع ہوئے توجمہوری حکومتوں میں ! پھر آمروں کے دور میں حاصل کی گئی رقوم کہاں گئیں؟

تازہ ترین