• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرولنگ کا تصور یہ ہے کہ ایک شخص کی شخصیت کا سوشل میڈیا پہ مذاق اڑایا جائے اور باقی اس میں شریک ہو جائیں۔ کسی بھی شخص کیلئے یہ تصور کہ مخلوق اس کا مذاق اڑا رہی ہے، بڑا خوفناک ثابت ہوتا ہے۔ گنتی کے چند لوگ ہی ہوتے ہیں،اپنے ایک خاص مزاج کی وجہ سے جو اس دوران حواس قائم رکھ پاتے ہیں۔ تحریکِ انصاف والے اتنی ٹرولنگ کیوں کرتے ہیں۔ اس کی وجوہات تاریخی ہیں۔ عمران خان کی سیاست میں آمد کے وقت سوشل میڈیا موجود نہیں تھا،البتہ اخبارات میں ان کے خلاف ٹرینڈ چلایا گیا کہ ایک یہودی سازش کے تحت وہ سیاست میں آئے۔ یہودی خاندان میں شادی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ کپتان کے مذہبی مخالفین آج تک اس الزام کو دہراتے ہیں۔گو کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ الزام خود ہی دم توڑتا چلا گیا۔ اس کے باوجود عمران خان اور جمائما کیلئےوہ وقت نہایت تکلیف دہ تھا۔ کوئی بھی شخص اپنی تذلیل فراموش نہیں کر سکتا۔ عمران خان نے زندگی میں واحد ایک ہی فضول خرچی کی تھی۔ جمائما خان کی خاطر تعمیر کیا گیا بنی گالہ کا وسیع و عریض گھر۔جمائما مگر پاکستان کی اس تکلیف دہ زندگی سے نباہ نہ کر سکی۔ اس پرقیمتی پتھروں کی اسمگلنگ کا مقدمہ بھی قائم کیا گیا۔ وہ تکلیف دہ یادیں عمران خان کی نفسیات میں آج تک موجود ہیں۔ جب بھی مولانا فضل الرحمٰن اسے یہودی ایجنٹ قرار دیتے ہیں، تو زخم رسنے لگتا ہے۔کپتان اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی ذاتی زندگی پہ حملے کئے جائیں گے اور جوابا ً اسے بھی کرنا ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جملے بازی کے فن میں طاق شیخ رشید احمد کو انہوں نے گلے سے لگایا؛حالانکہ شیخ صاحب کے بارے میں اس کی اصل رائے انتہائی منفی ہے۔نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی نسبت تحریکِ انصاف میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد آئی ٹی کی شد بد رکھتی تھی۔ عمران خان پر ماضی میں ہونے والے حملوں کا بدلہ انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹس کی صورت میں لینا شروع کیا۔عمران خان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے کئی صحافیوں کو بھی دشمن بنا ڈالا۔ پاکستانی سیاسی صورتِ حال اتنی نازک ہے کہ یہاں آپ کو کسی کی حمایت کرنی ہوتو غیر مشروط ورنہ آپ مخالف شمار ہوں گے۔ ایشو ٹو ایشو رائے دینے کی سہولت موجود نہیں۔ کسی بھی سیاست دان کو آپ نے فرشتہ ماننا ہوتا ہے یا شیطان۔ یہاں میں تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس فراخ دلی سے عوام کو عمران خان کی غلطیاں معاف کرتے دیکھا، اس سے پہلے کبھی نہیں۔ اس پر ناجائز اولاد تک کا الزام معاف کر دیا گیا۔ اس پر اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا ہونے کا داغ بھی مخلوق نے دھو دیا۔ آج وہ واحد اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی قائد ہے۔ عمران خان نے جس کرپٹ سیاستدان کو اپنی پارٹی میں شامل کیا، پارٹی گندی ہونے کی بجائے وہ سیاستدان پاک ہو گیا۔ شوکت خانم کے فنڈز میں خورد برد کا الزام لگایا۔ کچھ ہاتھ نہ آیا۔ عمران خان کی آڈیو لیکس جاری ہوئیں، کچھ بھی نہ بگڑا۔ وجوہات بہت سی ہیں۔مخالف کبھی یہ بات ثابت نہیں کر سکے کہ عمران خان سیاست میں پیسہ کمانے آیا ہے۔ باقی تمام سیاستدانوں کی شوگر ملیں، فائونڈریز اور بیرونِ ملک جائیدادیں بکھری پڑی ہیں۔ شریف خاندان کے لندن فلیٹس اور زرداری صاحب کا سرے محل تو ان کیلئے بہت مصیبت کا باعث بنے۔ پاکستان میں وہ سب کے سب کاروبار کر رہے ہیں، سوائے عمران خان کے۔ لوگ یہ کہتے تھے کہ عبد العلیم خان اور جہانگیر ترین عمران خان کی اے ٹی ایمز ہیں۔ آج کہاں ہیں وہ اے ٹی ایمز۔

قاسم علی شاہ صاحب والا منصوبہ غالباً یہ تھا کہ کپتا ن کو وہ سیاست میں اپنی آمد کا اشارہ دیں۔ عمران خان انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرنے کیلئے پرجوش ہو جائیں، جیسے کبھی عامر لیاقت حسین کیلئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد شاہ صاحب مخالف سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں اور اس دوران خان کو آڑے ہاتھوں لیں۔ پہلی بار ایک بہت بڑی عوامی تائید رکھنے والا موٹیویشنل اسپیکر، جسے عام لوگ زندگی کے رازوں سے آشنا سمجھتے ہیں، وہ مقبول سیاسی لیڈر کے لتے لے تو اس کی مقبولیت ٹوٹنا شروع ہو۔ ہوا کیا، وہ آپ کے سامنے ہے۔ شاہ صاحب جس شخص کےمقابل لائے گئے تھے،وہ پی ڈی ایم کی ایک درجن جماعتوں سے ضمنی الیکشن جیت رہا ہے۔ اس کے باوجود جیت رہا ہے کہ اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں کوئی کارنامہ اس نے سرانجام نہیں دیا۔ منصوبہ سازوں کی بے کسی اب آپ کے سامنے ہے۔ زندگی میں کسی کی اتنی ٹرولنگ ہوتے نہیں دیکھی۔ شاہ صاحب کو دوسرے دن معافی مانگنا پڑ ی اور اب وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

تازہ ترین