• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سیاسی تنزلی کی بنیادی وجہ معاشرے میں ادارہ سازی کا فقدان ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 75 سالہ سیاسی عمل کے نتیجے میں پورا نظام منظم انداز سے کام کرتا اور شخصیات وقت کے ساتھ آتی جاتی رہتیں۔ پاکستان کا آئین اگرچہ انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ کو ادارہ سازی کے لئے ایک طریقۂ کار واضح کرتا ہے لیکن آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ پاکستان میں ادارہ سازی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے ، جمہوری روایات مستحکم نہیں ہوپائیں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اب عدلیہ بھی شخصیات کی گرفت سے باہر نہیں نکل پارہی ۔ عمران خان جو خوداس سیاسی اور معاشی عمل کے ذمہ دار ہیں ، نے اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے عوام میں جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ انہوں نے پہلے اپنی ضروریات کے تحت اسمبلیوں کووقت سے پہلے توڑ دیا اور اب الیکشن کمیشن، عدلیہ اور فوج کو تنقید کا نشانہ بنا کر پاکستانی جمہوریت کو مزیدکمزور کرنے کے درپے ہیں۔

ایسے حالات میں امید تھی کہ سپریم کورٹ اس انحطاط کو روکنے کا کوئی طریقہ واضح کرے گی اور سب جج مل کر ملک کو اس گمبھیر صورتحال سے باہر نکالیں گےلیکن پھر وہی بے ڈھنگی چال، بینچ بنا دیا گیا جس پر پہلے ہی وکلاء نے کہہ دیا تھا کہ فیصلہ تین دو کے مقابلے میں آئے گا۔ آج سیاسی بحران کی اصل وجہ عدلیہ کا آرٹیکل 63-Aکو نظر انداز کرکے پنجاب میں عمران خان کی حکومت کو مسلط کرنا ہے جس پر ساتھی ججوں نے لکھا تھا کہ یہ آئین کی تشریح نہیں بلکہ نیا آئین لکھا جا رہا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اس عمل کی سخت ضرورت ہے کہ چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات ختم کئے جائیں تاکہ عوام کا اس ادارے پر اعتماد بڑھے ۔ یاد رہے کہ ضیاالحق نے بھی آرٹیکل 58-2(B) کے ذریعے اسمبلیاں توڑنے کا صوابدیدی اختیار اپنے پاس رکھا تھا لیکن سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ صوابدیدی اختیارات ذمہ داری کے ساتھ ہی استعمال کئے جاسکتے ہیں اور یہ اختیار استعمال کرتے وقت قانون اور آئین کی پاسداری ضروری ہے۔ اسی طرح بینچ بنانے کا صوابدیدی اختیار تو چیف صاحب کے پاس ہے لیکن یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس میں دو سینئر ترین ججوں کو شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ اور وہ کیا وجہ ہے کہ ہر بینچ میں دو جج ہی چیف جسٹس کے ساتھ موجود نظر آتے ہیں؟یاد رہے کہ چار ججوں نے یہ واضح مؤقف اختیار کیا تھا کہ چیف جسٹس کو اس معاملے میں سوموٹولینے کا اختیار نہیں ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں۔ یہ بہت اہم بات ہے جو جسٹس منصور علی شاہ نے کی ہے لیکن کیا کیا جائے کہ عمران خان نے پارلیمنٹ کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی اور نہ کبھی قائد حزب اختلاف سے مل کر ملک کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ۔ وہ سیاست کے معانی ہی نہیں سمجھتے جس میں دراصل مصلحت کی بنا پر مختلف الخیال سیاسی پارٹیوں سے مل کر سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے۔وہ اتنے خودپسند ہیں کہ اپنی پارٹی کے لیڈروں سے بھی مشورہ لینا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ تحریک انصاف کے ہوش مند لیڈروں کو چاہئے کہ حالات کو مزید ابتری سے بچانے کیلئے سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔

پاکستان میں جمہوری سیاست اور جمہوری عمل صرف اس وجہ سے اپنے قدم نہ جما سکا کیونکہ سیکورٹی اداروں نے سیاسی عمل میں بار بار مداخلت کی اور عدلیہ نے آئین سے ماورافیصلے دیتے ہوئے ان مداخلتوں کو جائز قرار دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نو آبادیاتی اور جدید نو آبادیاتی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے جاگیر داری اورسیکورٹی کے ادارے وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ مضبوط ہوتے گئے لیکن اس کے باوجود آئینی اداروں نے بھی خود کو شخصیتوں کے حصار سے باہر نہیں نکالاجس کی ایک بڑی وجہ ریاست کا وہ نظریہ ہے جس نے اداروں کی بجائے ہیروز کو پروان چڑھایا جو ہر قسم کے آئینی فیصلوں اور اصولوں سے ماورا ہوتے چلے گئے۔ عمران خان بھی اسی لڑی کا ایک جز ہیں جن کی ابتدائی پرورش جنرل حمید گل اور جنرل پاشا کی ذمہ داری ٹھہری اور جنرل باجوہ نے انہیں منزل مقصود پر پہنچا دیا اور اس کی آڑ میں اپنے انفرادی ایجنڈوں کو پروان چڑھاتے رہے۔ اس دوران اداروں نے سماج اور سیاست پر پڑنے والے اثرات کی کبھی کوئی پروا نہ کی لیکن جب ان کو پتہ چلا کہ اس شخص سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہےتو اس وقت تک اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ جدید دور میں مملکت کا کاروبار من پسند جبلتوں کے ذریعے نہیں چل سکتا۔یوں شخصیات کے نافذ کردہ فیصلوں سے ملک میں جمہوری اور جوابدہ حکومت کے قیام کی بجائے فسطائیت کی راہ ہموار ہوگی۔آج اسٹیبلشمنٹ پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی 75 سالہ غلطیوں سے سبق حاصل کرے ، سیاست کو سیاست دانوں کے حوالے کردے ، کنونشن لیگ ،قاف لیگ، تحریک انصاف ، ایم کیو ایم اور باپ پارٹیوں کے سروں پر ہاتھ رکھنے کے عمل کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دے اور عوام کو آزادانہ طور پر سیاسی لیڈروں کو منتخب کرنے دے تاکہ وراثتی اور خاندانی سیاست کو خیر بادکہا جاسکے۔یوں ایسے لیڈر ہی منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آئیں گے جو حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستانی ریاست کو ایک فلاحی ریاست بنانے کی راہ پر گامزن کریں گے ۔یوں رفتہ رفتہ انتظامیہ،مقننہ اور عدلیہ ادارہ سازی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین