• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی ایک سال پہلے کی بات ہے ۔ ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے میری عمر اب خاصی ہو چکی ہے، میں چاہتا ہوں کہ مغربی پاکستان اکیڈمی ڈاکٹر اختر شمار کے حوالے کردوں ۔اس وقت ڈاکٹر خواجہ ذکریا کی عمر اسی پچاسی سال کے درمیان ہوگی مگر الحمد اللہ اس وقت بھی وہ خود گاڑی چلاکر یونیورسٹی جاتے اور آتے ہیں ۔ مگرکل جب وہ ایف سی کالج یونیورسٹی میں ڈاکٹر اختر شمار کی یاد میں ہونے والی تقریب میں گفتگو کررہےتھے تو میں سوچ رہا تھا ،’’واقعی زندگی ایک غیر سنجیدہ چیزہے۔کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جینز کے لوح پر کیا لکھا ہے۔سو اسے سنجیدگی سے گزارنا احمقانہ عمل ہے ‘‘۔

یہ سوگوارتقریب تھی۔ یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹرجیمز اے ٹیبی سمیت ہر شخص نے سیاہ لباس پہن رکھا تھا۔ڈاکٹر اختر شمار ایک طویل عرصہ سے یہاں شعبۂ اردو کے سربراہ تھے ۔وہاں اختر شمار کی فیملی اور دوچار اور لوگوں کو چھوڑ کر باقی تمام پروفیسرز تھے۔بے شک استاد ہونا قابل ِ عزت بات ہے مگراختر شمار کے معاملے میں نہیں ۔اس وقت دنیا میں انیس ہزار کے قریب یونیورسٹیز ہیں جن میں لاکھوں اساتذہ تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن اختر شمار جیسے شاعرچند ہی ہوں گے ۔

حضرت علامہ محمد اقبال بھی شاعر تھے ۔ دو دن پہلے ان کے مزار پر ایک تاریخ ساز تقریب ہوئی ۔ محکمہ اوقاف کے سیکریٹری طاہر رضا بخاری نے اس تقریب کا اہتمام کیا تھا۔اس میں نگران حکومت کے وزیر اظفر علی ناصر مہمان خصوصی تھے ۔ سیکریٹری سی اینڈ ڈبلیو ساوتھ جواد اکرم بھی خصوصی طور پر بلائے گئے تھے ۔تقریب کا نام رکھا گیا تھا ،’’بیا بہ مجلس اقبال ‘‘۔مجھے احساس ہوا کہ یہ تقریب علامہ اقبال کے عرس مبارک کے سلسلے کی تمہید بننے والی ہے ۔اس سے پہلے جب جواد اکرم سیکریٹری اوقاف ہوتے تھے تو انہوں نے مزار اقبال پر چوبیس گھنٹے تلاوت ِقران حکیم کےلئے حفاظ مقرر کرنے کا آرڈر کیا تھا مگراس تقریب سے لگا کہ بازی ڈاکٹر طاہر رضا بخاری لے گئے ہیں ۔ایڈمنسٹریٹر اوقاف بادشاہی مسجد محمد علی خان نے بہت اچھے قوال بلائے ہوئے تھے جنہوں نے کلام اقبال قوالی کے انداز میں پیش کیا ۔ خاص طور پر یہ قوالی تو بہت پسند کی گئی کہ ’’مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے‘‘۔ پھر ڈاکٹر اختر شمار یاد آگئے ۔ ان کی تقریب میں پیچھے لگے ہوئے بینر پر ان کا یہ شعر درج تھا۔

شاہی بھی سامنے تھی مقدر کی راہ میں

اختر شمار ہم نے فقیری پسند کی

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اختر شمار کا طریق بھی علامہ اقبال کی طرح ’’فقیری ‘‘ تھا۔جنابِ اقبال اور اختر شمار دونوں انہی چارہ ساز بیکساں کے ماننے والے تھے جنہوں نے بادشاہی میں فقیری کی ۔ عمران خان نے بھی اسی کے نقشِ قدم پر چلنے کی خواہش اپنے دل میں پالی اور پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی روشنی میں ایک عظیم مملکت بنانے کے خواب دیکھے مگر یہ کوئی آسان کام نہیں تھا مگر عمران خان کو دیکھ کر لوگوں کو یہی لگتا ہے کہ

اُمید ابھی کچھ باقی ہے

اک بستی بسنے والی ہے

جس بستی میں کوئی ظلم نہ ہو

اور جینا کوئی جُرم نہ ہو

جہاں بھوک سے روٹی سستی ہو

نعیم ضرار کی شاعری کی کتاب ’’کہنا خان آیا تھا ‘‘ کل جب مجھے ملی اور اسکی پیشانی پر لکھا ہوا یہ شعر پڑھا

اپنوں کو بھی یزید کے لشکر میں دیکھ کر

پوچھا تھا اس نے کیا کوئی رہ تو نہیں گیا

تو میں نے سوچا کہ جب کوئی تحریک شاعری کی صورت اختیار کر لے تو پھر اس کی گونج صدیوں پر پھیل جاتی ہے۔ اس کی موت ممکن نہیں رہتی ۔یقینا ًایک نئے دور کا آغاز ضرور ہوگا ۔روشنی اور خوشبو کی نئی بستی ضرور وجود میں آئے گی مگر اس بستی کا آغاز صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب لوگوں کو ووٹ کی طاقت ملے گی ۔جب اپنی قسمت کا فیصلہ باہر سے نہیں ، خود لوگ کریں گے ۔یعنی انتخابات ہونگے ۔اس وقت الیکشن کا اعلان بھی ہو چکا ہے ۔ سپریم کورٹ بھی آئین کی حفاظت کےلئے منظر پر موجود ہے ۔اس کے باوجود ہر لمحہ یہی لگ رہا ہے کہ عوام کو حق ِرائے دہی سے روکنے کےلئے جو طاقتیں برسر عمل ہیں ۔ وہ الیکشن نہیں ہونے دیں گی ۔دوسری طرف عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ ’’ میں ہوں یا نہ ہوں آپ نے پاکستان کی خاطر اس جہاد سے پیچھے نہیں ہٹنا ‘‘ تو دل ڈوب ڈوب جاتا ہے ۔صرف میرا نہیں ،پوری قوم کا۔علی بلال کی شہادت پر یہ جو اشعار گونج رہے ہیں

جاں دے کے راہِ حق میں چمکا علی بلال

وہ لے گیا ہے بازی اپنا علی بلال

پہلا شہید اپنا ارشد شریف تھا

سچائی کے افق پر دوجاعلی بلال

انکی بازگشت روز بہ روز بڑھ رہی ہے ۔تلخی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔سچائی کی جنگ کربلا سے شروع ہوئی تھی اور اب تک جاری ہیں ۔ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔آوازِ خلق کو نقارہ ِ خدا سمجھتے ہوئے حالات و واقعات کو دیکھنا چاہئے تا کہ بروز قیامت ہم علامہ اقبال اور اختر شمار جیسے فقیروں کے سامنے شر مندہ نہ ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین