سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اعتراف کیا ہے کہ آج تک عوام کےلیے کوئی قانون سازی ہوتی نہیں دیکھی۔
کراچی میں ری امیجننگ پاکستان سیمینار سے خطاب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پارلیمان میں عوام کی سہولت کےلیے قانون سازی نہیں ہوتی، حکومت کےلیے ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت اب سیاسی نظام میں نہیں ہے، کسی سیاسی لیڈر نے کبھی نوجوانوں کے مسائل کی بات نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان سب اپنے آپ کو آزما چکے لیکن مسائل حل نہیں ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) سے جج اور جرنیل مستثنیٰ ہیں، نیب کا سربراہ جج یا جنرل ہی ہوتا ہے۔
سابق وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ایک آمر نے سیاست دانوں کے احتساب کے لیے نیب کا ادارہ بنایا، جہاں فوج اور عدلیہ کو استثنیٰ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا سربراہ بھی ان دونوں اداروں میں سے ہی ہوتا ہے لیکن ہم آج بھی اس قانون کو دل سے لگائے بیٹھے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 35 سال سے دیکھ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی عوام کےلیے نہیں حکمرانوں کی سہولت کےلیے ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین پر عمل شروع نہیں کیا تو یہ ملک نہیں چل سکتا، شاید سب مل کر بھی مسائل حل نہ کرسکیں مگر کوشش تو کرنی ہوگی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ آئین میں ہر چیز کا مقصد اور اس کا طریقہ کار لکھا ہوا ہے، ہمارا آئین 50 سال کا ہوجائے گا، کونسی شق ہے جو ہم نے نہیں توڑی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر آئینی عہدے کا حلف بھی آئین میں لکھا ہوا ہے، ملک کا صدر مجھے کہتا ہے کہ اپنا استعفیٰ میرے حوالے کردو۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ صدر رات کو ایم این اے کے استعفے جمع کر رہا تھا، فوج کا سربراہ کہتا ہے کہ پارٹی بدل دو۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ہمیں یہ قبول کرنا ہے کہ غلطیاں کی ہیں، ملک کے مسائل حل کرنا اور ریفارم کرنا آج کی ضرورت ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ جس طرح ملک چلاتے رہے ہیں اور چلا رہے ہیں ملک نہیں چلتا، حل آئین میں ہے اور کوئی راستہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 73 کے آئین کے تحت 10 الیکشن ہوئے، سب الیکشن چوری ہوئے، ملک میں سیاست کا دیوالیہ ہوچکا، یہ اس ملک کی ناکامی ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ تسلسل ہے بروقت فیصلے نہ کرنے یا غلط فیصلے کرنے کا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارا نوجوان مایوس ہے، میں خود کو مجرم نہیں تو ملزم ضرور محسوس کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں صفائی دینے کے بجائے قبول کرنا ہے کہ ہم ذمہ دار ہیں، ہمارا قانون تفصیل سے ہے مگر ہم اس کی تشریح کرتے رہتے ہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں واٹر پالیسی بنی، اس میں لفظ ڈیم ہی شامل نہیں تھا، جہاں پانی کی قلت ہو وہاں ڈیم نہیں بنائے جارہے۔