انٹرویو: طاہر خلیل/ عاطف شیرازی
سینٹ آف پاکستان کے پچاس سال مکمل ہوگئے ہیں۔ صادق سنجرانی ایوان بالا کے آٹھویں امیر ہیں جو 12مارچ 2018سے چیئرمین سینٹ کے عہدے پر فائض ہیں۔ سینٹ کی گولڈن جوبلی کےموقع پر چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے روزنامہ جنگ سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔
سینیٹ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے گفتگو
جنگ: سینیٹ کے50 سالہ تاریخی سفر کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
چیئرمین سینٹ: میں سمجھتا ہوں کہ یہ پوری قوم اور سیاسی قیادت کےلئے اہم سنگ میل ہے۔ سینیٹ نے گزشتہ 50 برسوں میں ملک کے سیاسی منظر اور صوبوں کے حقوق کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا ہے ، اس ایوان بالا کی قیادت کرنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے ، میں اس پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ 50 سالوں میں ایوان بالا نے قومی یکجہتی و ہم آہنگی کے فروغ اور بین الصوبائی رابطہ کاری میں اہم کردار اد کیا ہے ۔ایوان بالا نے چھوٹے صوبوں کے حقوق کی یکساں فراہمی کو یقینی بنایا ہے ،جسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ 50 برسوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن میں اہم امور پر قانون سازی کی منظوری ، 18 ویں آئینی ترمیم اور اس پر عملدرآمدیقینی بنانے کےلئے اقدامات شامل ہیں۔ سینیٹ نے ملک کو درپیش مسائل پر بامعنی بحث اور مکالمے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بھی کام کیا ہے، اداروں کے مابین ڈائیلاگ کے عمل کو بھی آگے بڑھایا اور اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے عدلیہ ، افواج پاکستان اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو اہم قومی مسائل پر اکھٹا کیا۔ بطور چیئرمین سینیٹ مختلف ممالک کے پارلیمانوں کو اکٹھا کرنے اور رابطہ کاری کو فروغ دینے کیلئے 29 اگست 2019 کو انٹرنیشنل پارلیمنٹرین کانگریس(آئی پی سی) کی بنیاد رکھی گئی، جس کو حال ہی میں اے پی اے میں بطور ابزرور کی حیثیت ملی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے مسائل کے بارے میں معلومات کیلئے سینیٹ کی لائبریری میں کیوسک سنٹر کا قیام عمل میں لیا گیا،اس کے علاوہ پی ڈی یو (پارلیمنٹری ڈویلپمنٹ یونٹ) کو فعال بنایا گیا ہے۔ بطور چیئرمین سینیٹ ایس ڈی جیز کے اہداف کے حصول اور تعلیم کو مزید فروغ دینے کیلئے “ایجوکیشن پارلیمنٹری کاکس” کو فعال بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے تاکہ آئین کے آرٹیکل25 ۔الف، کے تحت بچوں کیلئے معیاری تعلیم کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ پہلی بار کشمیر ڈپلومیسی کے تحت دنیا کے تمام پارلیمان کو خطوط لکھے گئے اور مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا گیا۔
جنگ: آپ کے خیال میں سینیٹ کو 50 سالوں میں کن چیلنجز کا سامنا رہا اور ان پر کیسے قابو پایا ہے؟
چیئرمین سینیٹ: ایک اہم مسئلہ وفاق کی سطح پر صوبائی نمائندگی اور پالیسی سازی میں شراکت داری کا تھا۔ ایوان بالا نے اس مسئلے کا حل فراہم کیا لیکن اس عرصے میں بہت سے چیلنجز کا سامنا رہا، جن میں سیاسی پولرائزیشن، دیگر اداروں اور کمیونٹیز کے مفادات میں توازن قائم رکھنا شامل ہے۔
سینیٹ نے اپنے آئینی مینڈیٹ کو برقرار رکھتے ہوئے ان چیلنجوں پر بخوبی قابو پایا ، اسی طرح کرونا وبا پوری دنیا کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئی ،عالمی پارلیمانوں کی طرح کرونا وباءنے پاکستان کو بھی متاثر کیا لیکن بروقت موثر اقدامات اٹھانے کی بدولت پاکستان کے پارلیمنٹ نے قانون سازی کے عمل کو جاری رکھا گیا۔
جنگ: جمہوریت کو فروغ دینے اور پاکستان کے آئین کو برقرار رکھنے میں کیا کردار ادا کیا ہے؟
چیئرمین سینیٹ: پارلیمانی نظام میں جمہوری عمل کے لئے تسلسل کا ہونا انتہائی ناگزیر ہے ۔ ایوان بالا نے وہ تسلسل فراہم کیا ہے۔ یہ ایوان ایک ایسا فورم ہے جو تمام وفاقی اکائیوں کو اپنے مسائل اور حقوق کی فراہمی پر بات کرنے کا بھر پور موقع دیتا ہے اورجمہوری انداز میں قانون سازی ، جوابدہی اور عوامی اہمیت کے امور پر توجہ مبذول کرائی جاتی ہے۔ گزشتہ 50 برسوں میں جمہوریت کے فروغ اور آئین پاکستان کی بالادستی میں اس ایوان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سینیٹ نے قومی مسائل پر بحث و مباحثے کے ساتھ ساتھ، حکومتی اداروں میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے میں مدد کی ہے۔
اس کے علاوہ عوام کیلئے سینیٹ اور عوامی نمائندوں تک رسائی کو یقینی بنایا گیا ہے-جمہوریت کے فروغ کیلئے میڈیا نمائندگان کو بھی ایوان میں آنے، سینیٹ اجلاس اور قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کی اجازت ہے۔ پارلیمنٹری رپورٹر ایسوسیشن (پی آر اے) کیلئے ایوان میں دفتر بھی قائم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عوام الناس اپنے مسائل بطور “پبلک پٹیشن” آن لائن (ویب سائٹ) پر چیئرمین سینیٹ کو بھیج سکتے ہیں، جن پر متعلقہ قائمہ کمیٹیوں میں معنی خیز بحث ہوتی ہے اور عوام کے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جنگ: پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں سینیٹ کے کردار کو مزید مستحکم کرنے کے حوالے سے آپ کی نظر میں کیا حکمت عملی ہونی چاہیے؟
چیئرمین سینٹ: بین الااداراجاتی تعاون کا فروغ ، اور سرکاری اداروں کی کارکردگی اور موثر نگرانی کو یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔پارلیمانی نظام میں ایوان بالا کے اختیارات میں اضافہ ناگزیر ہے، تاکہ ملک کے متعدد مسائل کو باہمی افہمام تفہیم سے حل کیاجا سکے اور مختلف منصوبہ جات پر عملدرآمد یقینی بنانے کےلئے پارلیمانی بجٹ آفس بھی قائم ہونا چاہیے جو منصوبہ جات کی نہ صرف نگرانی بلکہ عملدرآمد کو بھی یقینی بنائے۔
سینیٹ کو مضبوط بنانے کے لے سینٹ کے الیکشن براہ راست ہونے چاہیے یہ میری ذاتی رائے ہے اس سے سینیٹ کو فائدہ ہو گا اور ادارہ مضبوط ہوگا۔سینٹ کے پاس فنانشل اختیارات نہیں ہیں، بجٹ کی منظوری کے اختیارات ہونے چاہیے، ان کے ملنے سے چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کاازالہ ممکن ہوسکے گا۔ پی ایس ڈی پی میں سینٹ کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے اداروں کی مضبوطی کے لیے سینٹ کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔
جنگ : سیاسی جماعتوں کے مابین قومی مسائل پر ہم آہنگی کے فروغ کیلئے ایوانِ بالا نے کیا اقدامات کیے ہیں؟
چیئرمین سینٹ: ایوان بالا نے اہم حساس قومی ایشوزپر سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر سفارشات دی ہیں اور قومی مسائل پر سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ سب سے پہلے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور ان کی مانیٹرنگ/ جانچ پڑتال کرنے کے لیے سینیٹ کی کمیٹیاں قائم کیں، جو مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل ہیں۔ یہ کمیٹیاں مخصوص شعبوں سے متعلق امور کی جانچ اور سینیٹ کو سفارشات دینے کی ذمہ دار ہیں۔ کمیٹی کے نظام کے ذریعے، مختلف جماعتوں کے سینیٹرز قومی مسائل کو حل کرنے اور اہم پالیسیوں پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے سینیٹ نے ملک کو درپیش مسائل پر بامعنی بحث اور مکالمے کے لیے پلیٹ فارمز فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ سینیٹ اجلاسوں کے دوران، مختلف سیاسی جماعتوں کے سینیٹرز کو عوامی اہمیت کے معاملات اور قومی مسائل سمیت اہم امور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملتا، سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔
قومی مسائل پر سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سینیٹ نے متعدد بین الجماعتی کانفرنسوں اور مذاکراتی اجلاس کا انعقاد کیا، یہ ایونٹس مختلف جماعتوں کے نمائندوں کو اکٹھا کرتے ہیں اور قومی اہمیت کے مسائل پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ مسائل سے نمٹنے کے طریقہ کار تلاش کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر سینیٹ قومی مسائل پر سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے سرگرم عمل رہا ہے۔ ایوان بالا کے کمیٹی سسٹم، بحث و مباحثہ اور مذاکراتی اجلاس کے ذریعے، بامعنی بحث و مباحثے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیااور ملک کو درپیش اہم مسائل پر اتفاق رائے اور تعاون کو آسان بنانے میں مدد کی ہے۔
جنگ: وفاق کی مضبوطی اور صوبائی اکائیوں کی ترقی کیلئے ایوانِ بالا نے کیا کردار ادا کیا ہے؟
چیئرمین سینٹ : پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے مختلف طریقوں سے وفاق کو مضبوط بنانے اور صوبائی اکائیوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ صوبوں کی نمائندگی،ایوان بالاء پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کی مساوی نمائندگی کو یقینی بناتا اور چھوٹے صوبوں کی موثر آواز بنتا ہے۔ قانون سازی کے عمل کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے ۔پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی جانب سے منظور شدہ قانونی مسودوں کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے کہ پاکستان کے تمام خطوں کے لیے قانون سازی منصفانہ اور مساوی ہو، نیزچھوٹے صوبوں کے مفادات کا استحصال نہ کیا جا سکے۔
سینیٹ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ فنڈز کی صوبوں کو منصفانہ تقسیم ہو اور ہر صوبے کو وسائل کاحصہ ملے۔ایوان بالا نے پاکستان کے آئین میں ترمیم کے عمل میں کلیدی کردار ادا کیاہے، اس بات کو یقینی بنا یا جاتاہے کہ کوئی بھی مجوزہ تبدیلی پورے وفاق کے بہترین مفاد میں ہو اور ہر صوبے کے حقوق کا تحفظ ہوسکے۔ مجموعی طور پر، سینیٹ وفاق کو مضبوط بنانے اور تمام صوبائی اکائیوں کی مساوی نمائندگی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ قانون سازی، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ہر صوبے کے حقوق کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جنگ : پاکستان کے عوام کو درپیش مسائل جیسے کہ غربت، بے روزگاری اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سینیٹ نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟
چیئرمین سینیٹ: یہاں یہ ذکر کرنا نہایت اہم سمجھتاہوں کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا اورایوان بالا نے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کےلئے متعدد اقدامات اٹھائے اور پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق رائے پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
دہشت گردی کے تدارک کےلئے سفارشات مرتب کی گئیں، جن کی بدولت ملک کی مجموعی خارجہ پالیسی اور داخلہ سلامتی کومزید استحکام ملا ،دہشت گردی کے واقعات میں ہوشربا کمی دیکھنے میں آئی۔ عوام کے مسائل کے حل کے لیے ایوان بالا پوری طرح پرعزم ہے۔ حکومت، سماجی تنظیمیں اور دیگر متعلقہ شراکت داروںکے ساتھ مل کر ایسی پالیسیوں اور قانون سازی عمل میں لا رہا ہے ،جو معاشی ترقی کو فروغ دینے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، غربت میں کمی لانے میں معاون ثابت ہوگا۔
جنگ : آپ کا تعلق ملک کے پسماندہ صوبے بلوچستان سے ہے بطور چیئرمین سینیٹ اس صوبے کی پسماندگی کو ختم کرنے اور معاشی خوشحالی لانے کےلئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟
چیئرمین سینٹ : چیئرمین بننے سے پہلے بھی بلوچستان کی ترقی کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھاتا رہا ہوں۔ بطورچیئرمین سینیٹ میں نے گوادربندرگاہ کو آپریشنل بنانے کیلئے موثر اقدامات کیئے ہیں، جن کی بدولت گوادر اب خطے کےلئے معاشی حب میں تبدیل ہو چکا ہے ،جہاں لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہیں۔ گوادر میں بین الاقوامی معیار کا انٹر نیشنل ایئر پورٹ قائم کیا، اقتصادی راہدری کو شہروں کے ساتھ منسلک کیا گیا۔
صنعتی زون کا قیام عمل میں لایا گیا۔ گوادر بندرگاہ کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا۔پاکستان،چائنہ ٹیکنیکل اینڈ وکیشنل انسٹیٹیوٹ کا قیام عمل میں ایا اس کے علاوہ گوادر میں ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں بین الاقوامی مندوبین نے شرکت کی-بلوچستان میں بجلی کے شارٹ فال کو دور کرنے کےلئے گوادر کو ایران سے بجلی کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا گیا۔ ابھی بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر ایسے ایسے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جس سے بلوچستان انشاءاللّہ مزید ترقی کرےگا۔
جنگ : بطور چیئرمین سینٹ قومی مسائل پر اتفاق رائے قائم کرنے کے لیے آپ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
چیئرمین سینٹ : اس وقت پاکستان سیاسی جماعتوں کے مابین دوری کے باعث قومی مسائل کاشکار ہے، ان دوریوں کو ختم کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر حل ڈھونڈنا ہوگا،کیونکہ مسائل کا حل بات چیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ میں تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھابٹھا نے کے لیے تیار ہوں اس سلسلہ میں ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے موجود ہوں اور وہ متفقہ حل کی جانب جائیں، کیونکہ سیاسی جماعتوں کے پاس ڈائیلاگ کے علاوہ کوئی اور دوسرا راستہ نہیں ہے۔
پاکستان اس وقت جن معاشی مشکلات سے دوچار ہے، اس پر تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا ہوجانا چاہیے، معیشت پر سیاست سے گریز کرنا چاہیے ۔معیشت کو ترقی دینے کے لیے سینٹ تیار ہے ، مستقبل کے لیے میرا اولین مقصد آئین کی پاسداری اور حکمرانی میں احتساب کو یقینی بنا کرجمہوری عمل میں اہم کردار کو جاری رکھنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ایوان بالاکی استعداد کار کو بڑھانے، شفافیت کو فروغ دینے اور دیگر اداروں کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرناہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ کوئی فرد ، معاشرہ یا ادارہ الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔
جنگ : کیا آپ نئے صوبوں کے قیام کے حق میں ہیں ؟
چیئرمین سینیٹ: جی، پاکستان کو انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کی اشد ضرورت ہے ۔یہ صوبے لسانی بنیادوں پر نہیں ہونے چاہیے ،جیسے کہ رقبہ کے لحاظ بلوچستان سب سے بڑا صوبہ ہے ،اسے مزید چار ڈویژنز میں تقسیم کر کے نیا صوبہ بنادیا جائے ،اس سے پاکستان مضبوط ہوگا، وفاق مضبوط ہوگا۔بڑی آبادی اور بڑے رقبہ کو سنبھالنے کے لیے انتظامی بنیادوں پر صوبے کی تقسیم کو ئی بری بات نہیں ہے اس سے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور عوام کے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں مدد ملے گی۔ ملکی مسائل کے حل کی راہ میں سول بیورو کریسی بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
عوامی مسائل کے حل کے لیے سول سروس کی تنظیم نو کی ضرورت ہے، کئی سرکاری اداروں میں رولز نہیں ہیں اور کئی ادارے خو دساختہ رولز کے تحت چل رہے ہیں، سول بیوروکریسی ابھی ملک کو نوآبادیاتی نظام اور کالونیل نظام کے تحت چلا رہی ہے ۔ نوآبادیاتی نظام کے قوانین کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،زمینی حقائق اور جغرافیائی حالات کو مدنظر رکھ کر رولز بنانے ہونگے ۔ دنیا اسمارٹ سیکرٹریٹ کی جانب جارہی ہے۔ پاکستان میں بھی اس سیکرٹریٹ کے تصور کو اپنانے کی ضرورت ہے ،ساٹھ سال کی عمر سے زائد لوگوں کو نوکری پر نہ رکھا جائے وسائل کو قابو میں لانے کے لیے کنٹریکٹ کی بنیادوں اور کارکردگی کی بنیادوں پر ملازمت دی جائے۔
سول اسٹرکچر اصلاحات سے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے میں مدد ملے گی، کیونکہ سرمایہ کار خودکو غیر محفوظ سمجھتا ہے،اس کےلئے ضروری ہے کہ ان اصلاحات پر فوری طور پر کام شروع کیا جائے۔ ہمیں ملک میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کےلئے سرخ فیتے کا کلچر ختم کرنا ہوگا۔ سرمایہ کار کےلئے آسانیاں تب ہی پیدا ہونگی جب ریفامز کا ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ ا سکلڈ لیبر تیار کی جائے ،ہر ضلع میں آئی ٹی پارکس بنائیں جائیں ، آئی ٹی کے شعبہ کو ترقی دے کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔
جنگ: سینیٹ کے مستقبل کو آپ کیسے دیکھتے ہیں۔ آپ کے خیال میں ملک کے جمہوری نظام کو بہتر بنانے میں ایوان بالا کیااہم کردار کیسے ادا کر سکتا ہے؟
چیئرمین سینیٹ: مستقبل کے لیے میرا اولین مقصد آئین کی پاسداری اور حکمرانی میں احتساب کو یقینی بنا کرجمہوری عمل میں اہم کردار کو جاری رکھنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ایوان بالاکی استعداد کار کو بڑھانے، شفافیت کو فروغ دینے اور دیگر اداروں کے ساتھ تعلقات کو مزیدمضبوط کرنا ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ، کوئی فرد ، معاشرہ یا ادارہ الگ تھلگ نہیں رہ سکتا اور ایوان بالا کو بھی علیحدگی میں نہیں رکھا جا ئے گا ۔ اس کی عوام تک رسائی کو بڑھانے اور بین ادارہ جاتی رابطوں کو مزید مستحکم کرنا قومی مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوگا اور یہ میرا مشن ہے۔
جنگ : گزشتہ برسوں میں سینیٹ کا ارتقا کیسے ہوا، آپ نے کیا اہم تبدیلیاں دیکھی ہیں؟
چیئرمین سینٹ: ایوان بالا بلاشبہ ایک ارتقائی عمل سے گزرا ہے،اس کا قیام بھی ایک ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔ پاکستان کے 1956 اور1962 کے آئین میں ایک ایوانی مقننہ کی گنجائش تھی ،تاہم اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی گئی کہ ایک ایسا ایوان قائم کیاجائے جو صوبوں اور وفاق کے درمیان پُل کا کردار ادا کرے، تاکہ وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی کو فروغ دے کر ملک کو ترقی کی جانب گامزن کیا جا سکے۔ اس حوالے سے متعدد اقدامات اٹھائے گئے جن میں ایوان بالاءکی کمیٹیوں کو مزید مضبوط اور سفارشات پر عملدرآمد یقینی ، قانون سازی میں موثر ترامیم، کارکردگی اور شفافیت کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔
جنگ: ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں ایوان بالا کا کیا کردار رہا ہے اور اس سلسلے میں کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟
چیئرمین سینیٹ: ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کےلئے تعلیم، صحت، خوراک، خارجہ امور، دفاع اور انسانی حقوق جیسے متعدد مسائل پرسینیٹ نے موثر قانون سازی کی ہے اور ملک کی دفاعی ،سماجی و اقتصادی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ اقدامات میں زینب الرٹ بل، نیشنل کمیشن فار دی رائٹس آف چائلڈ بل کی منظوری کے علاوہ ملک میں خواتین کو با اختیار بنانے کےلئے قانون سازی ، ٹرانسجینڈ رکے بلز وغیرہ بھی شامل ہیں۔ سینیٹ نے عالمی وعلاقائی تناظر میں بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت کو ٹھوس سفارشات باہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
بین الاقوامی سطح پر بین الپارلیمانی اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کو یقینی بنانے میں ایوان بالا نے موثرمعاونت فراہم کی ، اسی طرح دنیا کو دہشت گردی سے محفوظ بنانے کےلئے فیفٹ جیسے بلوں کےلئے قانون سازی اور منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ ایوان بالا میں ایسا پہلا قانون بنا جس نے ایس ڈی جیز 16.6 اور16.7 جیسے اہداف کو پورا کیا جس کی دنیا معترف ہے۔
جنگ : سینیٹ کی گولڈن جوبلی کے اس اہم موقع پر آپ پاکستان کی عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
چئیرمین سینیٹ : اس اہم موقع پر، میں پاکستان کے عوام کو سینیٹ کی حمایت اور اعتماد پر خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ہم عوام کی خدمت اور آئین پاکستان کی پاسداری کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم سب مل کر ہی ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کی تعمیروترقی جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اور آگے بھی طویل جدوجہد جاری رہے گی اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام اداروں پر اپنا بھر پور اعتماد بحال رکھیں اور صبر وتحمل کے ساتھ مسائل کا حل ڈھونڈنے میں مدد فراہم کریں اور ان امور کی نشاندہی کریں جو فلاح عامہ کے راستے میں روکاٹ کا سبب بنتے ہیں۔
نوجوانوں کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ ہمارے ملک کا روشن مستقبل ہیں، ان کی آواز اور رائے اہمیت رکھتی ہے۔ ملک کے مستقبل کو سنوارنے میں ان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ میں ان پر زور دیتا ہوں کہ وہ تعلیم اور اپنے ہنر کو نکھارنے کیلئے سخت محنت کریں۔ محنت، محنت اور سخت محنت ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔