• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محی الدین اورنگزیب عالمگیر کی 1707ء میں وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرتا گیا۔ اودھ، روہیل کھنڈ، دکن اور میسور میں نیم خودمختار رِیاستیں قائم ہو گئیں۔ اُنہیں ایک دوسرے سے لڑانے کا سلسلہ غیرملکی تجارتی کمپنیوں نے بڑی عیاری سے تیز کر دیا۔ انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے آگے ریاست میسور کے حکمراں، حیدر علی اور ٹیپو سلطان بند باندھنے کی زبردست کوششیں کرتے رہے جنہیں درپردہ فرانس کی حمایت حاصل تھی۔ فرانس سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے نظام دکن نے انگریزوں سے مدد طلب کی۔ اِس چپقلش میں ٹیپو سلطان شکست سے دوچار ہوا اَور اُس کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی جو جنگِ پلاسی (1757ء) میں نواب سراج الدولہ کو اُس کے سپہ سالار میر جعفر سے سازباز کر کے اور اُسے بدترین شکست سے دوچار کر کے پورے بنگال پر قابض ہو چکی تھی، نے 1857ء میں پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا جو تاجِ برطانیہ کی کالونی قرار پایا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی میں پُرجوش مسلمانوں کے ساتھ انگریزی غلبے کے خلاف غیرمسلم عناصر بھی شریک تھے۔ جھانسی کی رانی اپنے علاقے میں آزادی کے متوالوں کی قیادت کر رہی تھی، مگر شکست کا سارا عتاب مسلمانوں پر گرا۔ انگریزوں نے حکومت سنبھالتے ہی اُن علما کے سر قلم کر دیے جنہوں نے اُن کے خلاف جہاد کے فتوے جاری کئے تھے۔ اُن کی لاشیں کئی روز درختوں سے لٹکی رہیں۔ انگریز مصنّفین لکھتے ہیں کہ پورا دِہلی شہر لاشوں سے اٹا پڑا تھا۔ کئی مہینوں تک یہ عالم رہا کہ کوئی مسلمان دہلی میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ خاصی بڑی تعداد میں علما اور مجاہدین کالاپانی جلاوطن کر دیے گئے۔ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی، اِس لئے اُن کی سب سے بڑی کوشش اُنہیں مکمل طور پر بےدست و پا کر دینے کی تھی۔ اِس مقصد کے لیے ہندوؤں نے اپنی خدمات پیش کر دی تھیں جو ہندوستان میں بھاری اکثریت میں تھے، چنانچہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو ظلم کا نشانہ بنانے اور ہندوؤں کو ہر شعبے میں آگے بڑھانے کی پالیسی اختیار کی۔ مسلم اشرافیہ شیروانی اور پگڑی کو اَپنی تہذیبی علامت کا درجہ دیتی تھی۔ انگریزوں نے سب سے پہلے اُس کا وقار ختم کیا اور یہ لباس اپنے چپراسیوں اور اَردلیوں کے لئے مخصوص کر دیا۔ پھر حکم جاری ہوا کہ زمینوں اور جاگیروں کے مسلمان مالکان اپنی ملکیت کے کاغذات پیش کریں۔ اِس سے پہلے ملکیت کے کاغذات رکھنے کا کوئی باقاعدہ نظام ہی نہیں تھا، چنانچہ وہ بڑی تعداد میں زمینوں سے بےدخل کر دیے گئے۔ انگریز حکومت نے مسلمانوں کو مزید زک پہنچانے کے لئے فارسی زبان کو سرکاری معاملات سے بےدخل کر دیا اور اُس کی جگہ انگریزی کو رواج دیا۔ اِس کے نتیجے میں مسلمان اعلیٰ مناصب سے محروم ہوتے گئے اور سرکاری محکموں میں اُن کا داخلہ بتدریج محدود ہو گیا۔ اِس کے برعکس انگریز حکمرانوں کی ہمت افزائی سے ہندو سرکاری ملازمتوں پر بھی قابض ہو گئے اور معاشی ترقی کے دروازے بھی اُن پر کھلتے چلے گئے۔ مسلمانوں کے لئے ایک آبرومندانہ زندگی بسر کرنا محال ہوتا گیا۔ معروف برطانوی مصنّف سر ولیم ہنٹر نے اپنی تصنیف "The Indian Musalmans" میں لکھا ہے کہ 1871ء میں مسلم اکثریتی صوبے بنگال کے 681؍اعلیٰ مناصب پر ہندو براجمان تھے جبکہ مسلمانوں کے حصّے میں صرف 92؍اعلیٰ عہدے آئے تھے۔ اِسی طرح 1852ء سے 1861ء کے درمیان کلکتہ بار میں 240 ہندوستانی وکلا رجسٹرڈ ہوئے، اُن میں صرف ایک مسلمان تھا۔ تمام صوبائی ہائی کورٹس میں ایک بھی مسلم جج نہیں تھا۔ اِس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر فوجی خدمات بجا لانے کے دروازے بھی بند کر دیے گئے جو ماضی میں اُن کے روزگار کا سب سے بڑا وَسیلہ تھیں۔ بعض علما نے انگریزی زبان سیکھنے کے خلاف تواتر سے فتوے جاری کئے اور ہندوستان کو ’’دارالحرب‘‘ بھی قرار دَے دیا۔ اِس کا واضح مطلب یہ تھا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد ایک دینی فریضہ ہے۔ اِس کے برعکس، ہندو قیادت انگریزوں کو اَپنی وفاداری کا یقین دلا چکی تھی اور اُن کا نجات دہندہ کی حیثیت سے خیرمقدم کر رہی تھی۔ اِس بنا پر ہندو بڑی حد تک پوری سول انتظامیہ پر غلبہ پا چکے تھے۔ اِس نئی صورتِ حال میں ایک طرف مسلمانوں اور اَنگریزوں کے درمیان فاصلے بہت زیادہ بڑھ گئے اور دُوسری طرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ مسلمانوں نے ہندوؤں پر سات صدیوں کے لگ بھگ حکومت کی تھی، اِس لئے اُنہیں یہ کسی طور گوارا نہیں تھا کہ وہ اُن کی تابعداری قبول کر لیں اور اَپنا مستقبل اُن کی اکثریت کے حوالے کر دیں۔ اُنہیں اِس بات کا بڑا قلق تھا کہ انگریزوں نے 1885ء میں نیشنل انڈین کانگریس اپنے ریٹائرڈ افسر ہیوم کے ذریعے کھڑی کر کے ہندوؤں کو مستقبل میں سیاسی قیادت سونپ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کانگریس کے سالانہ اجلاسوں میں انگلستان سے مہمانِ خصوصی مدعو کئے جاتے جن کی موجودگی میں جو قراردادیں منظور کی جاتیں، اُن پر فوری طور پر عمل درآمد ہوتا۔ اِس طرح ہندوؤں کی سیاسی جماعت بہت طاقت ور ہو گئی تھی جس کے مسلمانوں کے وجود پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ حکومتِ برطانیہ نے داخلی نظم و نسق چلانے کے لئے 1861ء میں انڈین کونسلز ایکٹ منظور کیا جس کا ایک بڑا مقصد مقامی آبادی کو نظامِ حکومت میں شامل کرنا تھا۔ اُس ایکٹ میں گورنرجنرل، پریذیڈنسیز اور گورنروں کے لئے کونسلوں کے قیام کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ گورنرجنرل کی کونسل پانچ ارکان پر مشتمل تھی جن میں تین کا تقرر وَزیرِ ہند کرنے کا مجاز تھا۔ باقی دو کا تقرر تاجِ برطانیہ کرتا تھا۔ اُن میں ایک بیرسٹر اور دُوسرا فوج کا کمانڈر اِن چیف ہوتا۔ گورنرجنرل قانون سازی کے لئے آٹھ سے بارہ اَرکان کا اضافی تقرر کر سکتا تھا۔ اِس ایکٹ میں 1862ء میں ترمیم ہوئی جس کی رو سے گورنرجنرل کی کونسل کے اضافی ارکان کی تعداد بیس تک بڑھا دی گئی اور تمام کونسلوں میں ہندوستانیوں کے تقرر اَور نمائندگی کا دروازہ بھی کھول دیا گیا، مگر یہی انتخابی عمل مسلمانوں کے لئے کڑی آزمائش ثابت ہوا۔ وہ تو دورِ غلامی تھا، مگر آج سب سے زیادہ تکلیف دہ کیفیت یہ ہے کہ ہم آزادی کے پچھتر سال بعد بھی اقتدار کی ہوس یا شوقِ خودآرائی میں ایک خطرناک سیاسی منظرنامے کی طرف لڑھکتے جا رہے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین