• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست اس وقت عمران خان کے ہاتھوں میں یرغمال ہے ۔ پاکستانی میڈیا میں سب سے زیادہ کوریج عمران خان کو مل رہی ہے ۔ ہر شخص عمران خان کی سیاست کے حوالے سے بات کر رہا ہے ، چاہے وہ ان کا مخالف ہو یا حامی ۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین کے پاس بھی عمران خان پر بات کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا موضوع نہیں ۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے حلقے بھی یقیناً اس صورت حال سے لاتعلق نہیں ہونگے بلکہ وہ زیادہ ’’ Engaged‘‘ ہونگے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ سیاست آگے کیا رخ اختیار کرنے والی ہے ۔ سیاست میں اس رفتار کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ یہ ’’ ٹیمپو ‘‘ طویل عرصے سے برقرار ہے ۔ وہ مختصر نوٹس پر بڑا سیاسی پاور شو کر سکتے ہیں اور مسلسل کئی سال سے کر رہے ہیں ۔ پچھلے چار یا پانچ دنوں سے ان کی گرفتاری کیلئے آئی ہوئی پولیس اور دیگر فورسز کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے کارکنوں نے زمان پارک لاہور سے جو مزاحمت دی ، اس کی مثال بہت کم ملتی ہے ۔ شاید عمران خان کی اس سیاسی طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالتیں انہیں ریلیف دے رہی ہیں کہ سیاسی تصادم کو روکا جائے اور امن وامان کی صورت حال خراب نہ ہونے دی جائے ۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان ریاست کے مقابلے میں آگئے ہیں ۔ کچھ لوگ تو یہاں تک بھی باتیں کر رہے ہیںکہ ریاست بے بس ہو گئی ہے ۔ بعض لوگوں کا تجزیہ یہ ہے کہ ریاست عمران خان کی سیاسی طاقت کی وجہ سے بے بس نہیں ہوئی ہے بلکہ ریاست کے بعض طاقتور حلقے چاہتے ہیں کہ ایسا ہو ۔ حقیقت کچھ بھی ہو ، عمران خان ایک ایسا سیاسی فیکٹر بن گئے ہیں ، جو اداروں سمیت ہر شعبے پر اثر انداز ہے ۔ نہ صرف عدالتوں سے عمران خان کو ایسا ریلیف ملا ، جسکے بارے میں ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس طرح کا ریلیف کسی اور کو آج تک نہیں ملا لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت بھی عمران خان کو عدالتوں کی طرف سے وارنٹ گرفتاری کے باوجود گرفتار کرنے سے ہچکچارہی ہے ۔ نہ صرف حکومت کے بعض اتحادی ،خصوصاً پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام کے قائدین، عمران خان کو گرفتار کرنے کے مخالف ہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی اس گرفتاری کی مخالفت کی جا رہی ہے کیونکہ یہ رہنما سمجھتے ہیںکہ عمران خان کی گرفتاری سے حالات زیادہ خراب ہوں گے اور عمران خان کی مقبولیت میں زیادہ اضافہ ہو گا ۔ جیل میں بیٹھا ہوا عمران خان پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گا ۔ اس وقت بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ عمران خان ملکی سیاست کو کنٹرول کر رہے ہیں اور جس طرف چاہتے ہیں ، سیاست کا رخ موڑ دیتے ہیں ۔ انہیں یہ طاقت وہ لوگ فراہم کر رہے ہیں ، جو ان کی سب سے زیادہ مخالفت کر رہے ہیں ۔ انہیں پاکستانی سیاست کے ’’ عمران فیکٹر ‘‘ کو ڈیل کرنے کیلئے سیاسی اپروچ اختیار کرنی چاہئے ۔ صرف مخالفت اور ردعمل ہی سیاست نہیں ہے۔ میرے خیال میں عمران خان جس ’’ ٹیمپو ‘‘ کیساتھ مسلسل سیاست کر رہے ہیں ، یہ ’’ ٹیمپو ‘‘ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا ۔ ایم کیو ایم کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ کراچی کو ہر وقت ہنگامی صورتحال سے دوچار رکھا جاتا تھا تاکہ لوگ ایم کیو ایم کی سیاست میں الجھے رہیں اور اس سے باہر نہ نکل سکیں ۔ بالکل یہی کام تحریک انصاف والے ملکی سطح پر کر رہے ہیں ۔ اس ٹیمپو کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ مہم جوئی کی جائے ۔ حکومت سے نکلنے کے بعد عمران خان نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ، جو آہستہ آہستہ کمزور ہو تا گیا۔ انہوں نے جب محسوس کیا کہ حکومت اس احتجا ج کو خاطر میں نہیں لا رہی تو انہوں نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ۔ یہ ایک بڑی سیاسی مہم جوئی تھی ۔ ابتدائی دنوں میں لانگ مارچ بہت کامیاب رہا لیکن ہر آئے دن لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد کم ہوتی گئی ۔ یہاں تک کہ یہ ایک کمزور سیاسی شو بن گیا ۔ اسی دوران عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو پھر ان کی سیاست میں تھوڑی تیزی آئی۔کچھ عرصے بعد لانگ مارچ دوبارہ شروع تو ہو گیا لیکن اسلام آباد میں دھرنا دینے کا پلان کامیاب نہ ہو سکا ۔ اس لانگ مارچ کی ناکامی کا تاثر ختم کرنے کیلئے عمران خان نے ایک اور بڑی سیاسی مہم جوئی کی اور اسمبلیوں سے باہر آنے کا اعلان کر دیا ۔ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے معاملے پر ان کی اپنی پارٹی اختلافات کا شکار ہوئی ۔ پھر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ لینے اور ملک میں قبل از وقت انتخابات کیلئے عمران خان نے اس سے بھی بڑی مہم جوئی کی اور جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیا ۔ یہ جیل بھرو تحریک بھی ناکام ہو گئی ۔ یہ تو اچھا ہوا کہ عدلیہ کی طرف سے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 90دنوں کے اندر کرانے کا حکم دیدیا گیااور عمران خان کو اپنی ناکام جیل بھرو تحریک ختم کرنے کا موقع مل گیا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ٹیمپو کے ساتھ دیر تک سیاست کرنا اور سیاست کو طویل عرصے تک اپنے کنٹرول میں رکھنا ممکن نہیں ہوتا ۔ تحریک انصاف کی طرف سے احتجاجی مظاہروں ، جلسوں ، لانگ مارچز اور جیل بھرو تحریک کے تجربات سب کے سامنے ہیں ۔ انکے سیاسی مخالفین کو چاہئے کہ عمران خان کو سیاست میں چھوٹ دی جائے اور انہیں سیاست کرنے دی جائے ۔ عمران خان کے طرز سیاستکیلئےجو افرادی قوت اور مالی وسائل درکار ہوتے ہیں ، ان کی فراہمی بھی زیادہ دیر تک ممکن نہیں ہوتی ۔ عمران خان کے خلاف مقدمات پر کی جانیوالی عدالتی اور قانونی کارروائیوں سے انہیں پھر سے سیاسی طاقت مل رہی ہے ۔ یہ کارروائیاں تھوڑے عرصے کیلئے موخر کر دی جائیں ۔ عمران خان کی اپنی پارٹی کے لوگ اس طرز سیاست سے اکتا رہے ہیں ۔ ’’ عمران فیکٹر ‘‘ کو سیاسی حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہو گا ۔ موجودہ صورت حال سے نہ صرف ملک کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ سیاسی قوتیں بھی کمزور ہو رہی ہیں اور خود عمران خان کی سیاست کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ انکے سیاسی مخالفین کو مخالفت اور ردعمل کی سیاست سے نکل کر اپنا نیا اور موثر سیاسی بیانیہ ترتیب دینا ہو گا اور اپنی حکومتوں میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا۔

تازہ ترین