• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ واقعہ مجھے ایک بزرگ نے سُنایا تھا، جو میرے دل پر ایسا نقش ہوا کہ پھر عُمر بھر بھول نہیں پایا بلکہ اس واقعے سے ہونے والی نصیحت نے زندگی بھر میری رہنمائی بھی کی۔ یہ اُس وقت کی بات ہے،جب مَیں غلّہ منڈی، پاک پتن میں محنت مزدوری کرتا تھا۔ ایک روز دن بھر مزدوری کرنے کے بعد جب سخت تھک گیا، تو سوچا، کچھ دیر تھوڑا آرام کر لیتا ہوں۔ 

یہ سوچ کر ایک قریبی پارک کی بینچ پر جا کے لیٹ گیا۔ ابھی لیٹا ہی تھا کہ میرے پاس ایک بزرگ شخص آکر بیٹھ گئے اور مجھ سے پوچھنے لگے۔ ’’بیٹا! آپ کچھ پریشان لگ رہے ہو؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’پریشان نہ ہوں، تو کیا کروں، حالات ہی کچھ اِس طرح کے ہوگئے ہیں کہ دن بھر محنت مزدوری کرکے بھی گزارہ نہ ہو تو پریشانی تو بندے کے چہرے پر خود بخود آجاتی ہے۔‘‘ 

جواباً بزرگ شخص بولے۔ ’’بیٹا!روزی روٹی کے لیے پریشان نہ ہوا کریں، رزق دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، آپ بس محنت اور ایمان داری سے اپنا کام کیا کرو۔ کام میں برکت اللہ تعالیٰ خود ڈالے گا اور پانچ وقت نماز ادا کیا کرو، اللہ تعالیٰ بہتر رزق دینے والا ہے۔‘‘ پھر بولے، ’’مَیں آج آپ کو ایک واقعہ سُناتا ہوں، جس نے میرے رزق، روٹی سے متعلق خیالات بہت بدل دیئے۔ میرا اِس بات پر ایمان پختہ ہوگیا کہ بےشک رزق کا وعدہ اللہ کا ہے۔ کب، کہاں سے، کیسے، کتنا دینا ہے، وہی بہتر جانتا ہے۔‘‘ مَیں نے بزرگ کی طرف توجّہ کی اور اُٹھ کر بیٹھ گیا، تو اُنھوں نے واقعہ کچھ اِس طرح سُنایا۔

’’مجھے شکار کھیلنے کا بہت شوق تھا اور مَیں نے بہت شکار کھیلا بھی۔ ایک دن مَیں نے مچھلیاں پکڑنے کا ارادہ کیا۔ اور سب سامان لے کے نکل کھڑا ہوا۔ مَیں گائوں سےکافی فاصلے پر واقع ایک چھپّر پر جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ عموماً گاؤں کے لوگ وہاں مچھلی پکڑنے نہیں جاتے تھے، کبھی کبھار کوئی دوست میرے ساتھ ہی نکل کھڑا ہوتا۔ خیر، اُس دن میں اکیلا ہی چل پڑا۔ مَیں چھپّر کے پاس پہنچنے ہی والا تھا کہ مَیں نے دیکھا، ایک پرندہ اُڑتا ہوا آیا، اور اُس نے چھپّر کے اندر پانی میں غوطہ لگا دیا۔ وہ پانی سے باہرنکلا تو ایک بہت بڑی سی مچھلی اُس کے منہ میں تھی۔ 

مچھلی بہت زیادہ وزنی تھی، مجھے یقین تھا کہ پرندہ یہ مچھلی اپنی منزل تک نہیں لےجا سکے گا، راستے میں اُس کے منہ سے لازماً گر جائے گی۔ یہی سوچ کر مَیں نے اُس کے پیچھے بھاگنا شروع کردیا، پرندے کی پرواز خاصی نیچی تھی، مگر بہرحال پرندے کی پرواز تھی۔ اُس کے پیچھے مسلسل تیزی سے دوڑنے کی وجہ سے میری سانس سخت پُھولنے لگی تھی، تو مَیں تھک کے ایک جگہ رُک گیا، لیکن میری نطریں بدستور پرندے ہی پر جَمی تھیں۔ تھوڑی دُور جاکر پرندہ ایک سایا دار درخت پر بیٹھ گیا۔ مَیں نے سوچا، مچھلی بہت بڑی ہے، پرندے سے کسی صُورت نہیں کھائی جائے گی۔ ابھی یہ اِس کے پنجوں سے پھسل کے نیچے گرے گی تو مَیں اُٹھا لوں گا۔

وہ درخت بھی بہت ہی بڑا سا تھا۔ اُس کے اطراف زمین پر خاصی گھاس پھونس تھی، مجھے تھوڑا ڈر بھی لگ رہا تھا۔ خیر، تھوڑی ہی دیر انتظار کے بعد میرے دل کی خواہش پوری ہوگئی۔ مچھلی، پرندے کے منہ سے نکل کے بالکل صحیح سلامت نیچےگرچُکی تھی۔ مَیں تیزی سے مچھلی اُٹھانے کے لیے دوڑا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ درخت کے نیچے ایک بہت بڑا بلّا بیٹھا ہے۔ وہ ایک بہت ہی صحت مند، خُوب موٹا تازہ بلّا تھا۔ مگر اچانک میری نظریں اُس کے پیروں کی طرف گئیں، تو حیرت انگیز طور پر اُس کی چاروں ٹانگیں غائب تھیں۔ 

پرندے کی چونچ سے مچھلی عین اُس کے اوپر گری تھی۔ اور اب وہ بڑے انہماک اُسےکھانے میں مصروف تھا۔جب مَیں نےاوپر درخت کی سمت دیکھا، تو پرندہ غائب تھا۔ تب مَیں، قادرِ مُطلق کے اُس وعدے کا دل سے قائل ہوگیا کہ بےشک وہی بہتر رزق دینے والا ہے۔ کس کو، کب، کہاں سے، کیسے اور کتنا رزق دینا ہے، وہی جانتا ہے۔ اگر وہ ایک اپاہج بلّے کو اتنا شان دار اور اتنا فراواں رزق دےرہا ہے، تو بھلا اشرف المخلوقات کو اپنے رزق کے لیے اس قدر بےحال ہونے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

وہ بزرگ تو مجھے یہ واقعہ سُنا کر اور ایک نصیحت کر کے چلے گئے، لیکن وہ دن ہے، اور آج کا دن، پھر مَیں کبھی رزق کے لیے پریشان نہیں ہوا۔ اُس دن مَیں نے خُود سے تہیّہ کر لیا تھا کہ اب کبھی رزق کے پیچھے نہیں بھاگوں گا، ہاں، رازق کی دل وجان سے عبادت ضرور کروں گا۔ اور الحمدللہ، آج میرے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ (خالد یعقوب،پیر غنی روڈ، پاک پتن)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے،جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اُٹھایئے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر،’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔