• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خلیفہ دوم سیّدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد خلافت کی ذمّے داری سیّدنا عثمانؓ بن عفان کے کاندھوں پر آگئی۔ آپؓ کی خلافت کا دس سال کا عرصہ نہایت پُرامن اور خوش حال رہا۔ مدینۂ منوّرہ سمیت پوری اسلامی حکومت میں آپؓ کو نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ سن32 ہجری میں پہلی مرتبہ ایک منافق عبداللہ بن سبا نے فتنہ و فساد کا سلسلہ شروع کیا، جسے اس کے حامی منافقین نے نہایت خفیہ طریقے سے پورے عرب میں پھیلا دیا۔ 35 ہجری تک یہ شورش اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ یہاں تک کہ عبداللہ بن سبا نے اپنے ہم خیالوں کو مدینۂ منوّرہ میں جمع کرلیا۔ 

سیّدنا عثمان غنیؓ نے مدینے کے تقدّس کے پیشِ نظر ان سب کی شکایات صبر و تحمّل کے ساتھ سُنیں اور مطمئن کرکے واپس بھیج دیا، لیکن یہود و نصاریٰ کو مدینۂ منوّرہ کی اسلامی ریاست اور جزائر عرب کا امن و سکون اور خوش حالی کسی طور ہضم نہ ہوتی تھی، چناں چہ انھوں نے اپنے آلۂ کار عبداللہ بن سبا کواور اس کے ہم خیال منافقین نے باغیوں کو مشتعل کرکے ایک بار پھر مدینۂ منوّرہ میں داخل کردیا۔ عبداللہ بن سبا اورمنافقین نے باغیوں کے درمیان یہ بات پھیلا دی کہ حضرت عثمانؓ نے مصر کے گورنر کو پیغام بھیجا ہے کہ جیسے ہی یہ لوگ مدینۂ منوّرہ سے نکل کر اپنے علاقوں میں پہنچیں، ان سب کو قتل کردیا جائے۔ اس افواہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ 

مشتعل ہجوم نے امیرالمومنین حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ چالیس دِن تک جاری رہا۔ صحابہؓ نے مشورہ دیا کہ آپؓ ہمیں اجازت دیں، تو ہم ان سب باغیوں کا سر قلم کرکے آپؓ کے قدموں میں ڈال دیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ ’’میں نہیں چاہتا کہ میرے لیے کسی مسلمان کا خون بہایا جائے۔‘‘ حضرت علیؓ ایک طرف تو مسلسل یہ کوشش کرتے رہے کہ حضرت عثمانؓ ان لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم جاری فرمائیں، دُوسری طرف وہ باغیوں کو سمجھانے اور محاصرہ ختم کرکے واپس جانے کے لیے سرتوڑ جدوجہد میں مصروف رہے، لیکن نہ باغی محاصرہ ختم کرنے پر تیار تھے نہ حضرت عثمانؓ جنگ کی اجازت دینے پر تیار۔ آپؓ نے فرمایا کہ ’’ان سے مقابلہ کرکے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلاخلیفہ بننا گوارہ نہیں کہ جس کے ہاتھوں اُمّت میں خون ریزی کا آغاز ہو، اور نہ ہی میں قربِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ کر مکّہ یا شام جائوں گا۔ 

میرے لیے مدینہ منوّرہ چھوڑنا کسی طور ممکن نہیں۔‘‘ یہ قیامتِ صغریٰ کا منظر تھا، پورے مدینۂ منوّرہ پر چند ہزار باغیوں کا قبضہ تھا اور مسلمان اپنے گھروں میں محصور ہوچکے تھے۔ بالآخر18ذی الحجہ35ہجری بروز جمعہ باغیوں نے گھر میں داخل ہوکر آپؓ کو اس وقت شہید کردیا، جب آپؓ قرآنِ کریم کی تلاوت فرما رہے تھے۔آپ نے 12دِن کم12سال خلافت کے فرائض انجام دیئے۔ (تاریخِ اسلام، اکبر شاہ نجیب آبادی،437/1)۔

امیرالمومنین سیّدنا علی مرتضیٰؓ کی خلافت کا آغاز اور مدینۂ منوّرہ کے تقدّس کی بحالی 

سیّدنا عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد مدینۂ منوّرہ پر باغیوں نے قبضہ کرلیا۔ مصریوں کا سرغنہ غافقی بن حرب مسجدِ نبویؐ میں نماز پڑھاتا رہا۔ ڈر تھا کہ باغی ان ہی میں سے کسی کو خلیفہ مقرر نہ کردیں۔ چناں چہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے فوری بعد مدینۂ منوّرہ میں موجود صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت نے سیّدنا علی مرتضیٰؓ سے رابطہ کیا۔ آپؓ نے آب دیدہ ہوکرفرمایا، ’’میں اِس وقت شدید غم میں مبتلا ہوں۔ میرے بھائی عثمانؓ کی لاش بے گوروکفن پڑی ہے۔ میرے لیے اُن کی جگہ خلافت کا منصب سنبھالنا ممکن نہیں۔‘‘ 

اسی اثناء میں باغیوں نے اعلان کردیا کہ اگر تین دِن کے اندر خلیفہ کا اعلان نہیں ہوا، تو ہم علیؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ کو قتل کردیں گے۔ سیّدنا علی مرتضیٰؓ بخوبی جانتے تھے کہ اگر اس نازک وقت میں اس ذمّے داری کو نہ سنبھالا تو اُمّتِ مسلمہ کے درمیان شدید خوں ریزی ہوگی۔ خلافت کی ذمّے داری سنبھالنے کے بعد آپؓ مسجدِ نبویؐ تشریف لے گئے، جو باغیوں کے قبضے میں تھی۔ آپؓ نے حکم جاری کیا کہ تمام باغی فوری طور پر مدینہ خالی کر کے اپنے اپنے علاقوں میں واپس چلے جائیں۔ عبداللہ بن سبا اور اس کی جماعت نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ لوگ مدینے کے اندر مسلمانوں کے درمیان غلط فہمی اور انتشار پھیلانے میں مصروف رہے۔ 

دُوسری طرف حضرت عثمانؓ کے قصاص کا معاملہ سر اُٹھاتا رہا اور نئے نئے مسائل جنم لیتے رہے۔ ان ہی ابَتر حالات میں عبداللہ بن سبا اور دیگر منافقین کی فتنہ پردازیاں اور شرانگیزیاں مسلمانوں کے دو گروہوں میں شدید خوں ریزی کا باعث بنیں۔ سیّدنا علی مرتضیٰؓ کی پہلی ترجیح مدینۂ منوّرہ کے تقدّس کی بحالی تھی، چناں چہ آپؓ نے بہت جلد ہر طرح کے فتنہ پردازوں سے مدینۂ منوّرہ کو پاک کرکے یہاں امن و امان کی فضا قائم کردی۔ (تاریخِ طبری)۔

آپؓ کے دَور میں تمام بڑے واقعات مدینۂ منوّرہ سے دُور عراق اور شام میں ہوئے۔19رمضان المبارک کو مسلمانوں کے چوتھے خلیفۂ راشد اور امیرالمومنین سیّدنا علی مرتضیٰؓ کو ایک خارجی عبدالرحمٰن بن ملجم نے حملہ کرکے زخمی کردیا۔ دو دِن بعد21رمضان المبارک40ہجری صبح، فجر کے وقت آپؓ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوکر حیاتِ جاودانی کے حق دار ٹھہرے۔ آپؓ کی شہادت کے بعد آپؓ کے بڑے صاحب زادے حضرت حسنؓ سے بیعت لی گئی، لیکن حضرت حسنؓ نے دست بردار ہو کر اپنے نانا اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت پر عمل کیا، جس میں آپؐ نے یہ فرمایا تھا کہ’’ میرا یہ بیٹا مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صُلح کا باعث بنے گا۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 2704)۔

مدینۂ منوّرہ..... بنو اُمیّہ کے دَورِ خلافت میں

خلافتِ راشدہ کا عظیم الشّان زرّیں دَور اختتام پذیر ہوا۔ حضرت امیر معاویہؓ خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد مدینۂ منوّرہ کی زیارت کو آئے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اَقدس پر درود و سلام کے نذرانے پیش کیے۔ بنو ہاشم سمیت مدینے کی سربرآوردہ شخصیات کے ساتھ اکرام و نوازش کا معاملہ کیا۔ مروان بن الحکم کو مدینۂ منوّرہ کا گورنر مقرر کیا۔ ان اقدامات سے مدینے کے لوگ مطمئن ہوئے۔ مروان نے مدینے کے باشندوں کی پانی کی ضروریات کے لیے ’’چشمہ زرقاء‘‘ جاری کیا، جس کی وجہ سے مدینۂ منورہ کی زراعت و تجارت کو خوب فروغ حاصل ہوا۔60ہجری میں حضرت امیر معاویہؓکی وفات ہوئی۔ 

جس کے بعد آپؓ کا نااہل بیٹا، یزید مسندِ خلافت پر براجمان ہوا۔ یہ شخص کسی طور بھی مسلمانوں کا خلیفہ بننے کے لائق نہ تھا۔ چناں چہ حضرت امام حسینؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سمیت مدینۂ منوّرہ اور مکّہ مکرمہ کے مسلمانوں نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا، کیوں کہ اس کا انتخاب خلافتِ راشدہ کی سُنت کے خلاف اور اسلامی جمہوریت کی رُوح کے منافی تھا۔ یزید نے پونے چار سال حکومت کی۔ اس کے دَور میں مدینے میں امن و استقرار جاتا رہا اور حالات پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ اندرونی جھگڑوں، سازشوں اور امن و امان کے مسائل سر اُبھارتے رہے۔ یزید کے دامن پر سب سے بڑا داغ حضرت امام حسینؓ اور اہلِ بیت کی شہادت کا ہے۔ 

جس نے اس کے اور دُوسرے معائب کو بھی نمایاں کردیا۔ یزید نے مسلم بن عقبہ کی قیادت میں ایک لشکر مدینہ روانہ کیا جس نے مدینۂ منوّرہ میں یورش کی اور مخالفین کو تہ تیغ کیا۔ اس کے بعد یہ یزید کے حکم پر مدینے سے مکّے کی جانب روانہ ہوا، لیکن راستے میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ حصین بن نمیر نے فوج کی قیادت سنبھالی اور مکّے کا محاصرہ کرلیا۔ اس نے جبلِ قبیس پر منجنیقیں نصب کرکے خانۂ کعبہ پر سنگ باری شروع کر دی، جہاں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ پناہ گزیں تھے۔ محاصرے کو تین ماہ ہوچکے تھے کہ ایک دِن یزید کے مرنے کی خبر آئی۔ جس پر محاصرہ ختم کردیا گیا اور یزیدی فوج ناکام و نامراد اللہ کے گھرکی بے حرمتی کی مرتکب ہوکر واپس ہوگئی۔ صحابہؓ کے اصرار پر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے اپنی خلافت کا اعلان کیا، تو اہلِ مدینہ نے جُوق دَر جُوق اُن کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ 

اس طرح مدینۂ منوّرہ میں سیاست کا ایک نیا رُخ سامنے آیا۔ تقریباً 8سال تک یہ حالات رہے، اس دوران مدینے میں امن و امان قائم رہا۔ عبدالملک بن مروان مسندِ حکومت پر بیٹھا، تو اس نے اپنے سفّاک ترین جرنیل حجاج بن یوسف ثقفی کو ایک بڑی فوج کے ساتھ مکّے کی جانب روانہ کیا۔ حجاج نے مکّہ پہنچتے ہی بیت اللہ پر شدید سنگ باری شروع کردی۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور اُن کے رفقاء نے بڑی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اورہتھیار ڈالنے کے بجائے سیّدنا امام حسینؓ کی سُنّت کو زندہ کرتے ہوئے شہادت کو گلے لگالیا۔

شوال86ہجری کو عبدالملک بن مروان کا انتقال ہوا اور اس کا بیٹا ولید بن عبدالملک مسندِ خلافت پر براجمان ہوا۔ اس نے 87ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو مدینے کا گورنر مقرر کیا۔ جہاں انھوں نے 93ہجری تک مسجدِ نبویؐ کی توسیع، مساجد کی تعمیر سمیت مدینۂ منوّرہ میں بے شمار تعمیراتی کام کیے۔ یوں وہاں ترقّی و خوش حالی کا ایک نیا دَور شروع ہوا۔ عدل و انصاف عام ہوا، تجارت کو خوب فروغ ملا۔ آمدو رفت کے نئے راستوں کی تعمیر اور شاہ راہیں کشادہ ہوئیں۔ پورے شہر میں زبردست ترقیاتی کام ہوئے، علمی مجالس کا دوبارہ اجراء ہوا۔ 

مدارس کو بھرپور امداد دی گئی، تعلیمی وظائف عام کیے گئے، کھجور کے باغات سمیت زراعت کے شعبوں پر خصوصی توجّہ دی گئی۔ روضۂ اَقدس کے چاروں جانب پنج گوشہ دیوار چھت تک بنادی گئی، جس میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ حضور نبی کریمؐ نے مدینۂ منوّرہ میں جہاں جہاں نماز ادا فرمائی تھی، ان سب جگہوں پر مساجد تعمیر کروائی گئیں۔ بہترین نظم و نسق کے باعث اس دَور میں ہر طرح کے جرائم کا مکمل طور پر خاتمہ ہوچکا تھا، عوام خوش حال اور مالا مال تھے۔ 

مسجدِ نبویؐ میں پہلی مرتبہ محراب اور چاروں کونوں میں خُوب صورت مینار تعمیر کروانے کے علاوہ مسجد کی دیواروں پر مختلف آیات الکھوائی گئیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ پہلے شخص تھے، جنہوں نے مسجد کی دیواریں اور چھت جواہرات اور آب زَر کی میناکاری سے مرصّع کروائے۔ (تاریخ مدینۂ منوّرہ، محمد عبد المعبود،328)۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا دورِ خلافت

96 ہجری جمادی الآخر میں 51برس کی عُمر میں ولید بن عبدالملک کا انتقال ہوگیا۔ اب اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک مسندِ خلافت پر براجمان ہوا، جو بنو اُمیّہ میں باتدبیر بادشاہ سمجھا جانے والا نہایت فصیح البیان، عادل، منصف اور جہاد کا شوقین تھا۔ اس کی نیکیوں میں یہی بہت ہے کہ اس کے وزیر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے فرشتہ صفت تھے۔ جب 10؍ صفر 99ہجری میں سلیمان بن عبدالملک کا انتقال ہوا اور اس کی وفات کے بعد اس کا وصیت نامہ کھولا گیا، تو اس میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو خلیفہ نام زد کیا گیا تھا۔

آپ ؒ یہ دیکھ کر ششدر اور حیران رہ گئے۔ فرمایا، ’’واللہ، میں نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ سے اس کی درخواست نہیں کی تھی۔‘‘ جب داروغہ، اصطبلِ خاص سے خلیفہ کی سواری کا زرق برق گھوڑا لایا، تو آپ ؒنے اس پر سوار ہونے سے انکار کردیا اور فرمایا۔ ’’میرا خچر لے آئو، وہی میرے لیے کافی ہے۔‘‘ آپؒ کی مدّتِ خلافت کُل دو سال پانچ ماہ رہی۔ اس اثنا میں آپؒ نے عدل و انصاف قائم کرکے ظلم و ستم کا قلع قمع کردیا۔ (تاریخ خلفاء، امام جلال الدین سیوطی، 303)۔

مدینۂ منوّرہ..... عباسی دورِ حکومت میں

132 ہجری بمطابق 749عیسوی میں خلافت، بنو عباس کی جانب منتقل ہوئی۔ جن کی حکومت سقوطِ بغداد پر تاتاریوں کے ہاتھوں 656ہجری بمطابق 1258عیسوی میں ختم ہوئی۔ اس دور میں مدینۂ منوّرہ کی تاریخ کو تین مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا مرحلہ، عباسی حکومت کے زیرِانتظام 749سے 974عیسوی کے درمیان کا ہے۔ جس میں مدینۂ منوّرہ میں مجموعی طور پر اضطراب و خانہ جنگی اور سیاسی مدّوجزر کے علاوہ امن و امان کی صورت مخدوش رہی۔ بدّوئوں کے حملوں کے واقعات کثرت سے ہوئے۔ جس کی وجہ سے خوف و ہراس کا غلبہ رہا۔ دُوسرا مرحلہ، فاطمی حکومت کے زیرِ انتظام 974عیسوی سے1151عیسوی تک یعنی مسلسل دو سو سال تک مدینۂ منوّرہ، مصر میں قائم فاطمی حکومت سے منسلک رہا۔ 

اس پورے دَور میں مدینے کے امراء اور فاطمی حکومت کے مابین تعلقات خراب ہی رہے۔ تعلقات کی اس خرابی نے مدینۂ منوّرہ میں مختلف مسائل پیدا کیے۔ جب کہ تیسرا مرحلہ، زنگی اور ایوبی حکومتوں کے زیر انتظام، 1151عیسوی سے 1254عیسوی تک کا ہے۔ جس میں مدینۂ منوّرہ میں بالعموم امن و امان اور خوش حالی کی فضا قائم رہی۔ تاریخِ اسلام میں خلفائے راشدینؓ کے بعد دو فرماں روا ایسے گزرے ہیں، جن کی عظمتِ کردار نے آسمان کی رفعتوں کو چُھو لیا اور اپنے طرزِ حکم رانی سے خلفائے راشدین کی یاد تازہ کردی۔ ان میں ایک حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اور دُوسرے نورالدین محمود زنگی ؒ تھے۔ 

مدینۂ منوّرہ کی مخدوش حالت کی بناء پر نورالدین زنگیؒ نے مدینۂ منوّرہ کی تعمیر و ترقّی کے لیے دل کھول کر رقم فراہم کی۔ شہر کے گرد حفاظت کے لیے ایک جدید اور اُونچی فصیل اس طرح تعمیر کروائی کہ مدینے کی پوری آبادی اس میں محفوظ ہوگئی۔ نیز،مدینے کے تمام اندرونی اور بیرونی راستوں کی اَزسرنو تعمیر کے علاوہ پانی کی فراہمی کا معقول انتظام کیا۔ تاریخ میں دو راہب یہودیوں کا واقعہ تحریر ہے، جنھوں نے روضۂ اَقدس تک ایک سرنگ کھود لی تھی۔ نورالدین نے ان دونوں کو جہنم واصل کرنے کے بعد روضۂ اقدس کے چاروں جانب گہری خندق کھدوا کر اس میں پگھلا ہوا سیسہ بھروا دیا تاکہ آئندہ کوئی ایسی ناپاک جسارت نہ کرسکے۔

نورالدین زنگی کے بعد صلاح الدین ایوبی کا زمانہ آیا۔ انھوں نے بھی اہل ِمدینہ کے ساتھ خصوصی تعلق رکھا اورشہر کی ترقّی کے لے خوب مال و دولت مدینہ بھیجا۔ اس نے نہ صرف حجاج کرام کے تمام ٹیکس معاف کیے، بلکہ ان کی حفاظت اور سہولتوں کی فراہمی کے لیے قبائل میں دل کھول کر رقم تقسیم کی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے بعد ایوبی امراء نے مدینہ منوّرہ پر خصوصی توجہ مبذول رکھی اور مال و دولت سے اہلِ مدینہ کی خدمت کرتے رہے۔ (مدینۂ منوّرہ، ڈاکٹر احمد محمد شعبان صفحہ 20)۔ (جاری ہے)