• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خطے میں بڑی تیزی سے صورتحال تبدیل ہورہی ہے۔ چین کی ثالثی کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ یہ صرف دوممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی نہیںبلکہ ان دونوں اہم ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی بحالی سے پاکستان پر بھی نہایت مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے بہتر تعلقات سے خطے میں امن وامان کے قیام کے بعدمعاشی صورتحال میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی اور اقتصادی شعبوں کے علاوہ شعبوں میں بھی بڑی تبدیلی آئے گی ۔ خطے میں صورتحال کی تبدیلی میں چین کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ پاکستان چین کی امن کیلئےکی جانے والی ان کوششوں کو قدر کی نظر سےدیکھتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی سے بھارت اور اسرائیل کو بہت تکلیف پہنچی ہےکیونکہ یہ دونوں ممالک خطے میں امن اور خوشحالی نہیں چاہتے بلکہ امن کو تاراج کرنےاور خوشحالی کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ مسلمانوں کے ان دونوں ازلی دشمنوں سے یہی توقع کی جاسکتی ہے۔

بتایاگیاہے کہ دونوں ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کی میزبانی بھی چین ہی کرے گا۔سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعلامیے کے مطابق، آئندہ دو تین ہفتےمیں سفارت خانوں کو دوبارہ کھولا جائے گا، جس کیلئے سفیروں کی تعیناتی ،عملے کو بھیجنے کیلئے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ معاہدے کے مطابق سفارتی تعلقات کی بحالی کے علاوہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر بھی کاربند رہیں گے۔مذکورہ دونوں ممالک دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دیں گے اور باہمی اختلافات کو سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔ معاہدے میں یہ بھی شامل ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 2001کے سیکورٹی تعاون کے طے شدہ معاہدے کے علاوہ سائنس اور کھیلوں سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کوبھی فعال کیا جائے گا۔ یادرہے کہ گزشتہ سال کے ماہ دسمبر میں چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا تاریخی دورہ کیاتھا، جو سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کی ایک اہم کڑی تھی۔

یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے د ر میا ن 2016میں تعلقات اس وقت منقطع ہوئے تھے جب ایران میں سعودی سفارتخانے پرایرانی مظاہرین نے دھاوا بولا تھا اور سعودی حکام نے سعودی شیعہ عالم نمرالنم کو پھانسی دی تھی۔بہرحال اب چین کی کوششوں سے خطے میں امن وامان کے قیام اور معاشی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہونیوالا ہے۔ پاکستان چین کی ان کوششوں کو سراہتا ہے اور اس ضمن میں ہر ممکن تعاو ن کیلئے ہر وقت تیارہے۔پاکستان، سعودی عرب اور ایران کی قیادت کی بصیرت اور تعلقات کی بحالی کے معاہدےکیلئےچین کی کوششوں کو کامیاب بنانے کی تعریف وتوصیف کرتا ہے۔ عراق،متحدہ عرب امارات، مصر،لبنان اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی دوسرے ممالک نے اس معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اسرائیل نے اس معاہدے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اس معاہدے کو اسرائیل کیلئے خطرناک قرار دیتےہوئےناپسندیدگی کا اظہار کیاہے، جس سے خطے میں اسرائیل کے عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ایرنا کے مطابق اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے توقع ظاہر کی ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان طے پانے والے اس تاریخی معاہدے سے یمن میں جنگ کے خاتمے اور تنازعہ کو سیاسی وسفارتی طور پر حل کرنے میں بہت مدد ملے گی اور جلد جنگ بندی ہوجائے گی، اس کے علاوہ بات چیت کے ذریعے یمن میں جامع قومی حکومت کی تشکیل کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی۔ یمن2014سے میدان جنگ بنا ہوا ہے، جہاں یمنی حکومت اور حوثی ملیشیا ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اس جنگ میں الزام عائد کیا جارہا تھا کہ یمنی حکومت کی سعودی عرب جب کہ حوثیوں کی مدد ایران کررہا ہے۔ اب اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مثبت اثرات یمن میں جنگ کے اختتام کا باعث بنیں گے اور یمن میں بھی امن کا قیام عمل میں آئے گا۔ ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات ہمیشہ امن وخوشحالی کے ضامن ہوتے ہیں۔ کاش یہ بات بھارت کو بھی سمجھ آجائے۔

دوسری طرف اطلاعات یہ ہیں کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے ہونے والے مختلف معاہدوں کے فی الوقت منجمد ہونے کا امکان ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کو فی الحال منجمد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جس کی وجہ اسرائیل کی طرف سے فلسطین میں ظلم وزیادتی، فلسطینیوں کی جابرانہ طور پر ان کے اپنے علاقوں سے بیدخلی اور وہاں غاصبانہ قبضوں کو قرار دیاگیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور ایران کے درمیان طے پا نے والے معاہدے کے بعد خطے میں بدلتی صورتحال کو مدنظر رکھا جارہا ہے۔ مجموعی طور پر اس معاہدے کے خطے میں امن وامان اور خوشحالی کے فروغ پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی بحالی بھی ممکن ہوجائے گی،جس سے پاکستان سمیت خطے کے دیگر کئی ممالک بلکہ خود ایران کی معاشی صورتحال میں بھی بہتری آئے گی۔ہم اس معاہدے کی کامیابی کے لئے دعاگو ہیں۔

تازہ ترین