• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھوپ زندگی،روشنی اور امید کی علامت ہے۔ زمین کی ہر زرخیزی اور شادابی اس کے مرہونِ منت ہے۔جنگلوں، بیابانوں،سمندروں اور پہاڑوں پر اسی کی کرنیں روشنی کا استعارہ ہیں۔دھوپ نہ ہوتی تو ہم مصنوعی روشنیوں کے محدود دائروں میں ٹکریں مارتے عجیب زندگی گزار رہے ہوتے۔یہ ہماری انکھیں،دل اور روح بن کر کائنات سے رابطے کا وسیلہ بنتی ہے۔ لیکن ہم نے کیا کیا،وہ طاقت جو چیزوں کی اصل شکلوں سے ہمیں متعارف کراتی ہے اُسی کو میلا کر دیا۔ اپنے اور اس کے درمیان آلودگی کی تہیں رکھ کر خود کو تازگی،شگفتگی اور خوبصورتی سے محروم کر دیا۔ہمارے لئے نہ صرف ارد گرد کے منظر دھندلے اور مبہم ہو گئے بلکہ ہماری اپنی شکلیں بھی اجنبی ہونے لگیں۔دھند،گرد اور دھوئیں نے ہماری نظر اور سماعت کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ ہمارا پورا نظام صحت ہی ہلا کر رکھ دیا۔ماحولیاتی تبدیلیوں نے یوں تو پوری دنیا کے نین نقش بگاڑنے کا عمل شروع کر رکھا ہے مگر پاکستان سمیت چند ملکوں میں تو سانس لینا ہی دوبھر کر دیا ہے۔بے موسمی بارشیں، سخت گرمی،سخت سردی، گلیشیرز کا پگھلنا،طوفانی ہوائیں، خطرناک سیلابی ریلے اور ان سب کے نتیجے میں بانجھ ہونے والی زمین تشویش کا باعث بنتی جارہی ہے۔جتنی زرخیز اور شاداب زمین ہمارے پاس ہے ہمیں اپنی ضروریات کے علاوہ اناج، پھل، سبزیاں، دودھ مکھن اور باقی غذائی اشیاء کو برآمد کرنا چاہئے تھا مگر ہم تو ان سب کے علاوہ اپنی سچی محبتوں کے اظہار کیلئے دئیے جانے والے پھول بھی در آمد کرتے ہیں، سوچئے اگر یہ سب ہوتا تو ہماری معیشت کتنی مستحکم ہو تی اور اگر معیشت مستحکم ہوتی تو ہم عالمی بنکوں کے ترلے منتیں نہ کر رہے ہوتے بلکہ ایک خوددار قوم کی طرح جی رہے ہوتے۔

کچھ ادیب فلسفی، صوفی اور گیانی ہوتے ہیں۔ انھیں وقت سے پہلے حالات و واقعات کا ادارک ہو جاتا ہے وہ خوابِ غفلت میں مست افراد کو معاملات کی سنگینی سے علامتی یا براہ راست آگاہ کرتے رہتے ہیں۔سحری کے وقت جگانے والوں کی طرح وہ بھی قدرت کی طرف سے تقویض فرض ادا کر رہے ہوتے ہیں کہ جاگ جاؤ۔عمل کا وقت ہے۔جو معاشرے اپنے انٹلیکچوئیلز کی صدا کی پیروی کرتے ہیں وہ کامران رہتے ہیں۔ انور مسعود بھی پاکستان کا ایک ایسا شاعر، ادیب، محقق، ماہرِلسانیات اور مفکر ہے جس پر قدرت کا خاص کرم ہے۔ قدرت کا کرم اس محبوبیت میں بھی شامل ہے جو پوری دنیا میں انھیں حاصل ہے۔ برسوں پہلے میرا ان سے پہلا تعارف گجرات میں گجرات کے حوالے سے ہوا جو دن بدن بڑھتا رہا اور پھر اس محبت کے دائرے میں عمار مسعود اور شنیلہ عمار بھی شامل ہو گئے۔ان سے مل کر عجیب اپنائیت اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی شاعری احساسات کو مہکانے اور تصورات کو اُجلانے کے ساتھ اُداس ماحول اور خاموش منظر کو چہکانے،اور دکھی دل کو بہلانے کا کام کرتی ہے۔ ان کی شاعری کا دائرہ کار بہت وسیع ہے،جو صرف ان کے مزاحیہ کلام تک محدود ہیں وہ ان کی سنجیدہ شاعری کے موضوعات، تخیل کی بلندی اور شاعرانہ خوبصورتیوں سے لاعلم ہے۔وہ عام مزاح نگار نہیں بلکہ فلسفی ہیں۔تجربہ گاہ میں نتائج اخذ کرتے ہیں،پہلے ہنساتے ہیں پھر رُلاتے ہیں۔یہ دونوں کتھارسز کے عمل ہیں۔ہنسنا اور رونا شخصیت کو متوازن رکھتا ہے۔دل کو پتھر اور رویے کو جابرانہ ہونے سے بچاتا ہے۔

انور مسعود طبیعتاً فطرت کی طرح سادہ،معصوم، خالص اور اُجلے انسان ہیں۔ اپنے چہار طرف اجلا پن معدوم ہوتا دیکھ کر انھوں نے شاعری کے ذریعے آگاہی کا فیصلہ کیا۔ ماحولیات پر ان کا شعری مجموعہ،میلی دھوپ، کے عنوان سے آج سے بارہ سال پہلے 2010میں شائع ہوا جس کا ہر لفظ،مصرعہ اور شعر طاقتور پیغام ہے۔اس میں ماحولیات کو درپیش تمام چیلنجز کی نشاندھی اور ان کے سدباب کی ایسی بے مثال کاوش کہیں اور نظر نہیں آتی۔ حمد،نعت کے علاوہ اپنے بیان کی تاثیر کے لئے اقوال انبیا اور مختلف دینی حوالے کس عمدگی سے سموئے گئے ہیں ملاحظہ کیجئے۔

ہر اک لفظ ہے گوہرِ بے بہا

جنابِ محمدؐ کے فرمان کا

یہ ہے قولِ سالارِ اہلِ صفا

صفائی تو حصہ ہے ایمان کا

قولِ جناب ِعلی مرتضیٰؓ

خوشبو کا سونگھنا ہو کہ سبزے کو دیکھنا

کرتا ہے دل سے دور غم و اضطراب کو

زمیں اک پیڑ سے کاٹی گئی ہے

نہ اب اِس کا نہ اب اُس کا ٹھکانہ

میں کیسے اس کے پھیلاؤ کو روکوں

مری ہمت کے فوکس میں نہیں ہے

نہ پوچھو حال میری بے بسی کا

دُھواں بس کا مرے بس میں نہیں ہے

حکومت سے گزارش ہے کہ محکمۂ ماحول کو متحرک کرنے کے ساتھ لوگوں کے شعور و آگاہی پر دستک کے لئے میلی دھوپ کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔

تازہ ترین