• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) ،جس میں قرآن اُتارا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس، تم میں سے جو کوئی اِس مہینے کو پالے، تو وہ اِس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو، تو دوسرے دِنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے،اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا اور اِس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اِس لیے کہ اُس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے، اُس پر اُس کی بڑائی بیان کرو اور اِس لیے کہ تم شُکر گزار بن جاؤ‘‘۔ (سورۃ البقرہ، 185)مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ’’سکتے کے مریض کا آخری امتحان اِس طرح کیا جاتا ہے کہ اُس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں۔

اگر آئینے پر کچھ دُھندلاہٹ پیدا ہو، تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے۔اِسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا امتحان لینا مقصود ہو، تو اُسے رمضان کے مہینے میں دیکھو۔اگر اِس مہینے میں اُس کے اندر کچھ تقویٰ، کچھ خوفِ خدا، کچھ نیکی کے اُبھار کا جذبہ نظر آئے، تو سمجھو ابھی زندہ ہے۔اور اگر اِس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو، فسق و فجور کے آثار نمایاں ہوں اور اسلامی حِس مُردہ نظر آئے، تو’’ اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون‘‘ پڑھ لو۔‘‘ 

گویا رمضان المبارک کا یہ مہینہ ہمارے معاشرے کی انفرادی و اجتماعی، دونوں حیثیتوں میں ایک جانچ بھی ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں اور یہ کہ کہیں ایمان کا دعویٰ، محض زبانی دعویٰ تو نہیں ہے۔روزے کو عربی میں’’ صوم‘‘ کہتے ہیں اور صوم کے لغوی معنی کسی چیز سے رُکنے کے ہیں، جب کہ اصطلاحاً یہ وہ عبادت ہے، جس میں مسلمان اللہ تعالی کے حکم سے طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک خود کو کھانے پینے اور ہر اُس کام سے روکے رکھتے ہیں، جو حالتِ روزہ میں ممنوع ہیں، گرچہ وہ حلال ہوں۔

ماہِ رمضان، اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک بڑی اور عظیم نعمت ہے، اِس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار وبرکات کا سیلاب آتا ہے اور اُس کی رحمتیں موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہیں۔ لفظ رمضان میں پانچ حروف ہیں اور ان تمام میں ایک خاص اشارہ ہے،’’ ر‘‘ سے اللہ کی رضا،’’م‘‘ سے اللہ کی محبّت،’’ض‘‘ سے اللہ کی ضمانت،’’الف‘‘ سے اللہ تعالیٰ کی الفت و محبّت اور’’ ن‘‘سے اللہ کا نور مُراد ہے۔

اِس طرح رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی، محبّت، ضمانت، الفت اور اُس کے نور کا جامع ہے۔یہ بہت بڑی بزرگی اور بخشش کی علامت ہے، اُن لوگوں کے لیے، جو اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور نیک کردار ہیں۔ لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ جب تک ہم رمضان المبارک کی اہمیت اور اس کے فوائد و ثمرات کا شعوری طور پر احساس نہیں کریں گے، اُس وقت تک اِس ماہِ مبارک کے فوائد سے اُس طرح مستفید نہیں ہوسکیں گے ،جیسا کہ اس کا حق ہے۔

یوں تو ماہِ رمضان کئی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، مگر روزے کے بعد جو اہم ترین امتیاز اِس ماہِ مبارک کو حاصل ہے، وہ ہم دردی وغم خواری ہے۔ حدیث شریف میں رمضان المبارک کو’’شہر المواساۃ‘‘یعنی خیرخواہی کا مہینہ کہا گیا ہے۔ گویا یہ انسانوں کے درمیان خیر خواہی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد بانٹنے کا مہینہ ہے۔ معاشرے کے کم زور اور محروم افراد کے مسائل سمجھنے اور مل کر اُنہیں حل کرنے کا مہینہ ہے، نیز اپنی خوش حالی اور دولت میں ان کو شامل کرنے کا مہینہ ہے۔

رمضان المبارک کی انفرادیت یہ ہے کہ انسان سال بھر جن لذّتوں سے لُطف اندوز ہوتا ہے، اُن نعمتوں پر ایک خاص وقت تک کے لیے روک لگا دی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کسی کو بھوکا پیاسا رکھنا نہیں چاہتے، بلکہ اِس وقت اُسے بھوکا پیاسا رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بہت سے انسان، جنہوں نے کبھی بھوک کا مزہ نہیں چکھا، جنہیں کبھی پیاس کی شدّت کا احساس نہیں ہوا، جنہیں کبھی لذّتوں سے محرومی کا تجربہ نہیں ہوا، وہ اپنے اُس بھائی کے درد اور تکلیف کا اندازہ کرسکیں، جسے یہ تمام سہولتیں میسّر نہیں ہیں یا وہ تنگی کا شکار ہے۔یوں اِس ماہ کی برکت سے انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے دُکھ درد اور اُن کی آزمائشوں کا بذاتِ خود تجربہ کرتا ہے اور اس کے اندر اپنے بھائیوں کی تکلیف دُور کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ 

انسان جب تک خُود تکلیف سے دوچار نہیں ہوتا، اُسے تکلیف کا صحیح ادراک نہیں ہوتا اور جب تک اُسے تکلیف کا صحیح ادراک نہیں ہوگا، اُس وقت تک اُس تکلیف میں مبتلا لوگوں کے ساتھ حقیقی خیر خواہی بھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ حقیقی خیرخواہی کا جذبہ اُسی وقت بیدار ہوتا ہے، جب حقیقی تکلیف کا احساس ہو۔ اِس مہینے میں کشادہ دست اور تنگ دست دونوں ایک کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں اور دونوں کے درمیان ایک وقتی، لیکن حقیقی مساوات پیدا ہوجاتی ہے اور یہ مساوات خوش حال لوگوں کو بدحال لوگوں کی خیر خواہی پر اُبھارتی ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺجود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے اور رمضان المبارک میں آپ ﷺ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی۔

مستدرک حاکم کی ایک حدیثِ مبارکہؐ کا مفہوم ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا’’ منبر کے قریب ہوجاؤ۔‘‘تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم منبر کے قریب ہوگئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم مبارک رکھا، تو فرمایا’’آمین۔‘‘، جب دوسری پر قدم مبارک رکھا، تو پھر فرمایا’’ آمین۔‘‘، اِسی طرح جب تیسری پر قدم مبارک رکھا، تو پھر فرمایا’’ آمین۔‘‘ 

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلّم خطبے سے فارغ ہوکر نیچے اُترے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ’’ (یا رسول اللہ ﷺ) !ہم نے آج آپﷺ سے(منبر پر چڑھتے ہوئے) ایسی بات سُنی، جو پہلے کبھی نہیں سُنی تھی۔‘‘ اِس پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا’’ اُس وقت جبرائیل علیہ السّلام میرے پاس آئے تھے، (جب مَیں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو) اُنہوں نے کہا’’ ہلاک ہو جائے وہ شخص، جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا، پھر بھی اُس کی مغفرت نہ ہوئی۔‘‘، مَیں نے کہا’’ آمین۔‘‘ پھر جب مَیں نے دوسرا قدم اُٹھایا، تو اُنہوں نے کہا’’ہلاک ہوجائے وہ شخص، جس کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے۔‘‘، مَیں نے کہا’’ آمین۔‘‘ جب تیسرا قدم اوپر رکھا،تو اُنہوں نے کہا’’ہلاک ہو وہ شخص، جس کے سامنے اُس کے والدین یا اُن میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائے اور وہ اُن کی خدمت کرکے جنّت میں داخل نہ ہوجائے۔‘‘، مَیں نے کہا’’ آمین۔‘‘ یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ اگر کوئی شخص کوشش کرے، تو یہ اُس کے گناہوں کی مغفرت کے لیے کافی ہے۔ 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا’’ جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے،تو اُس کے وہ سب گناہ معاف کر دئیے جائیں گے، جو اُس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے، جس شخص نے رمضان میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا( یعنی راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی)، تو اُس کے سارے قصور معاف کر دئیے جائیں گے، جس شخص نے’’ لیلتہ القدر‘‘ میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا، تواُس کے بھی سارے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔‘‘

احتساب اس چیز کا نام ہے کہ آدمی اپنے تمام نیک اعمال پر صرف اللہ تعالی ہی سے اجر کا امیدوار ہو، صرف اور صرف اُسی کی رضا جوئی کے لیے کام کرے۔اُس کے تمام اعمال ریا اور کھوٹ سے پاک ہوں۔غرض یہ کہ اس ماہ کا ہر ہر لمحہ گویا لمحۂ سعید ہے اور اس ماہ میں کی گئی ہر نیکی کے اجر و ثواب میں کئی گُنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں اللہ کے بہت سے بندوں کو یہ توفیق حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے مالک کی اطاعت و فرمان برداری میں مقرّرہ وقت کے لیے اپنی جائز خواہشات سے رُک جاتے ہیں اور اس کا اجر پاتے ہیں، لیکن یہاں پر رُک کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا رمضان المبارک کی یہ رحمتیں اور برکتیں ہر اُس شخص کے حصّے میں آئیں گی، جو اِس ماہ کو پائے گا یا اس کے لیے کچھ شرائط بھی ہیں۔ جس طرح بارش رحمت ہے اور یک ساں برستی ہے، لیکن ہر زمین اپنے ظرف کے مطابق اس سے فائدہ اُٹھاتی ہے، بالکل یہی معاملہ روزوں کا ہے۔ اس کا ہمارے ظرف، شوق، محنت، طلب اور منصوبہ بندی پر انحصار ہے کہ ہم ان رحمتوں اور برکتوں میں سے کتنا سمیٹتے ہیں۔

اپنے ربّ ِ کریم سے رمضان کی رحمت بَھری ساعتوں میں برکت کی دعائیں مانگیں، صحت و عافیت مانگیں تاکہ کوئی گھڑی، لمحہ یا دن کسی وجہ سے ضائع نہ ہو۔ وقت کے صحیح استعمال کی توفیق مانگیں، گناہوں سے مکمل طور پر بچنے کی کوشش میں اُس سے مدد مانگیں۔ زیادہ سے زیادہ خیر العمل میں آگے بڑھ جانے کا جذبہ مانگیں۔ زندگی کے صحیح معاملے کی رہنمائی مانگیں۔استغفار کرنے والا دل اور ذکر کرنے والی زبان مانگیں۔تدبّرِ قرآن، فہمِ قرآن کی توفیق مانگیں۔ سب سے بڑھ کر جس مقصد کے لیے اللہ نے روزے کی عبادت فرض کی ہے، اُس مقصد پر پورا اُترنے کی توفیق، تقویٰ کا حصول، تقویٰ کے ذریعے ربّ ِ کائنات کی کبریائی کے اظہار و اقرار کی توفیق مانگیں۔

صالحینِ اُمّت سے پوچھا گیا’’ نیکیوں کے موسم کا استقبال کیسے کیا جائے؟‘‘ تو فرمایا’’اخلاص کے ساتھ کثرت سے استغفار کرنا۔‘‘کیوں کہ بندے کے گناہ اُسے توفیق سے محروم کر دیتے ہیں اور جو بھی اپنے دل کو استغفار کا پابند کرتا ہے، تو وہ اُسے پا ک کر دیتا ہے۔ اگر وہ کم زور ہو، تو طاقت وَر کردیتا ہے، اگر آزمائش میں ہو، تو عافیت دیتا ہے۔بیمار ہو، تو اُسے شفا یاب کر دیتا ہے۔اگر بھٹکا ہوا ہو، تو اُس کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور بے شک استغفار ہمارے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد باقی بچی ہوئی امان ہے۔رمضان المبارک کی ایک فضیلت اور برکت یہ بھی ہے کہ اِسی ماہ میں قرآن پاک نازل ہوا، جو رہتی دنیا تک کے لیے اللہ کا واحد محفوظ اور مکمل کلام ہے اور اُمّتِ مسلمہ اس کی امین ہے۔ 

رمضان کی خصوصی نسبت قرآن سے ہے، جس کے نزول پر شُکرانے کے لیے اس ماہ کو روزے جیسی عبادت کے لیے مختص کر دیا گیا اور روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول قرار دیا گیا۔روزے کی عبادت دیگر اُمّتوں پر بھی فرض تھی کہ دیگر آسمانی کتب کا نزول بھی اِسی ماہِ مبارک میں ہوا۔سوال یہ ہے کہ آخر روزے میں وہ کیا خاص بات ہے، جس کی بنیاد پر اللہ نے اسے دیگر اُمّتوں پر بھی فرض قرار دیا۔حضرت ابوامامہؓ نے اللہ کے نبی ﷺسے سوال کیا کہ کوئی ایسا عمل بتائیے، جو مجھے نفع دے؟آپﷺ نے فرمایا’’ روزے رکھا کرو، اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔‘‘

دراصل ،روزے کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ کیا ہے اور یہ کیسے حاصل ہوگا؟تقویٰ کے لغوی معنی کسی چیز سے بچنا اور پرہیز کرنا ہے۔گویا، اُن تمام اعمال سے بچنا، جو اللہ کے غضب کا باعث ہوں اور جو دنیاوی اور اخروی زندگی کو جہنّم سے ہم کنار کرتے ہوں۔اللہ کا حکم ہوا، تو ہم نے کھانا پینا ترک کردیا، گویا یہ احساس کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ یہ طرزِ عمل زندگی کے ہر ہر معاملے میں روا رکھنا چاہیے، یعنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک ایسا ضابطۂ حیات اختیار کرنا، جس میں قواعد، عبادات، اخلاقیات، معاملات، معاشرت، معیشت،سیاست، عدالت اور حکومت سب کچھ اللہ کی مرضی کے تابع ہو جائے۔یعنی قرآن و سنّت کے مطابق ہو جائے۔

آسان الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ ہر اُس عمل کو اختیار کرنے کے لیے دوڑنا، جس سے اللہ راضی ہوتا ہے اور ہر اُس رویّے سے بچنے کی کوشش کرنا، جس سے وہ ناراض ہوتا ہے، تقویٰ ہے۔تقویٰ، دراصل اندرونی محاسبہ ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔یہ بڑے اونچے درجے کی بیش بہا صفت ہے اور تمام مطلوبہ صفات کی جامع بھی۔ جو لوگ تقویٰ کی صفت اختیار کرتے ہیں، اللہ تعالی اُنھیں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کی ضمانت دیتے ہیں۔

تقویٰ ہمارے نفس کی وہ قوّت ہے، جس کے بل پر ہم ہر اُس امر سے رُک جائیں، جس سے رُکنے کا حکم اللہ نے قرآن و سنُت کے ذریعے ہمیں دیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’ اگر بستی کے لوگ توبہ کرتے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے، تو ہم زمین اور آسمان سے اپنی رحمتوں کے دہانے کھول دیتے۔‘‘ (سورۃ الاعراف)اس تقویٰ کو ہم جن ذرائع سے حاصل کرسکتے ہیں، اُس کا جواب بھی ہمیں قرآن ہی سے ملتا ہے کہ روزہ، قرآن، قیام الّلیل، اللّٰہ سے محبّت، مادیّت پر ضرب اس کے حصول کے ذرایع ہیں۔ 

رمضان المبارک اُمّتِ مسلمہ کی سربلندی اور فخر و غرور کے بھی بہت سے واقعات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ یومِ بدر (یوم الفرقان)، یومِ فتحِ مکہ، یومِ باب الاسلام اور پاکستان کے یومِ آزادی کا اِسی ماہ سے تعلق ہے۔ان ساری کام یابیوں کے لیے بھی ہمیں اللہ کی شُکر گزاری کا رویّہ اختیار کرنا چاہیے۔ اور اگر اُمّتِ مسلمہ آج بھی عروج حاصل کرنا چاہتی ہے، تو اُسے رمضان المبارک کو اُسی اسپرٹ کے ساتھ گزارنا چاہیے، جو مطلوب و مقصود ہے۔ (مضمون نگار، حلقہ خواتین، جماعتِ اسلامی پاکستان کی سیکریٹری جنرل ہیں)