• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی جی چاہتا ہے، یہ دنیا اور اس کی ساری مصروفیات چھوڑ کر کسی اکیلے کونے میں بیٹھ جائیں اورسب کی نظروں سے چُھپ کر اپنے آپ سے ملاقات کریں ، رب کو ڈھونڈیں ، اُس سے دل کی بات کریں۔ دُعا کا دامن پھیلائیں اور اشکوں سے دل کا آنگن دھوڈالیں۔

گرچہ اسلام میں ترکِ دنیا منع ہے۔ اللہ کے نبیﷺ نے رہبانیت سے منع فرمایا ہے۔دنیا میں رہ کر دنیا کے تقاضوں کو اللہ کی مرضی کے مطابق پورا کرنا ہی اسلام کا مطالبہ ہے۔ رشتے، تعلقات، معاشی تگ و دو، سیاسی اور سماجی ذمّے داریاں سب انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں۔ اور انہی میں اللہ تعالی نے ہر انسان کی جنّت اور دوزخ رکھی ہے، لیکن ساتھ ساتھ اسلام نے انسانی روح کے تزکیے کے لیے عبادات کا نظام بھی ترتیب دیا ہے۔نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج یہ ساری عبادات خاکی وجود میں موجود روحانی پیکر کو جلا بخشنے کے لیے ہیں، جن کے ذریعے انسان ربّ کے قریب ہوتا اور نفسانی کثافتوں سے نجات پاتا ہے۔

ماہِ رمضان میں نماز، روزوں، تلاوتِ قرآن اور ذکرِ الٰہی کا اہتمام از بس ضروری ہے اور ہر مسلمان کو بہت خوشی، طمانیت اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ یہ فرائض بجا لانے چاہئیں۔ دراصل اس ماہ مسلمان کی بنیادی/نفسانی خواہشات پر فجر سے مغرب تک پابندی لگا کر نفس کو اللہ کی اطاعت کی تربیت دی جاتی ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، تاکہ تم میں تقوٰی کی صفت پیدا ہو۔‘‘ ویسے بھی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد ربّ کی اطاعت، خوشنودی حاصل کرنا ہی ہے۔ جب کہ اعتکاف، رمضان کی خاص عبادت ہے،  جو رمضان کے آخری دس دنوں میں کی جاتی ہے۔

قرآن و حدیث میں اعتکاف 21 رمضان سے چاند رات تک کرنے کا حکم ہے، اس عبادت میں دنیا سے مکمل طور پر کٹ کر مسجد کے ایک گوشے ، کونے میں بیٹھ کر صرف اور صرف اللہ سے لَو لگائی جاتی ہے۔ کچھ علماء کی رائے میں عورتوں کے اعتکاف کے لیے بھی مسجد کی گوشہ نشینی ضروری ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک گھر کا وہ کونا، جس میں عورت نماز پڑھتی ہے، ذکر اذکار اور تلاوت کرتی ہے، اس کے لیے مسجد کی مثل ہے اور وہ اپنے گھر کے کسی کونے کو مخصوص کر کے وہاں اعتکاف کر سکتی ہے۔

پیارے نبی ﷺ نے تمام زندگی رمضان میں اعتکاف کا اہتمام کیا اور امّہات المومنین نے بھی ہمیشہ اعتکاف کی سنّت پر عمل کیا۔ اللہ کے نبیﷺکا ارشاد ہے کہ’’ اعتکاف کرنے والے کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں‘‘، تو گناہوں کی سیاہی دھونے، روح کی کثافتیں اُتارنے کے لیے رمضان کے آخری عشرے میں کمرے کے ایک کونے میں معتکف ہو جائیں۔ خُوب خُوب دُعائیں مانگیں، کوشش کریں کہ یہ ساری عبادت محض رسماً نہ ہو بلکہ ہمارے اند اور باہر کو بہتر بنانے کا ذریعہ اور ہماری مغفرت کا سامان ثابت ہو۔

ویسے ہمارا ذاتی خیال ہے کہ کسی عالمِ دین سے اعتکاف کے فقہی مسائل معلوم کرکے، زندگی کے شب و روز سے فرار پاکر اس عبادت کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔ بچّے بڑے ہوگئے ہوں، گھر کی ذمّے داری آپ کے اوپر کم ہو یا کم کی جاسکتی ہو، تو دل اور روح پر پڑا بوجھ اُتارنے کے لیےدنیا کی جلوت کے ہنگاموں سے خلوت کی دنیا کا سفر، آخرت کا بہترین زادِ راہ بن سکتا ہے۔

یاد رکھیں، دنیا تو یوں ہی پاؤں سے لپٹی رہے گی کہ یہ کب کسی کی جان چھوڑتی ہے۔ باہر کا شور، اندر کی آواز سُننے نہیں دیتا، تو دامن تو ہمیں خود ہی جھٹکنا چاہیے، باہر کا شور اندر کی آواز سننے نہیں دیتا۔ 

وہ آواز، جو ربّ اور بندے کا تعلق بناتی ہے، وہ آواز سُنیں اور روح کی پیاس بجھانے کا اہتمام کریں۔ اس ماہ بالخصوص اعتکاف میں قرآن کا زیادہ سے زیادہ شعوری مطالعہ کریں۔ یہ قیمتی وقت، بیش قیمتی ساعتیں ہیں، انہیں ضایع نہ کریں۔ ربّ کے حضور سجدے اور رکوع میں وقت گزاریں۔ دُعا کے لیے دامن اور ہاتھ پھیلائیں، جو مانگنا ہے مانگیں، دنیا سے زیادہ آخرت طلب کریں اور…ظاہر سے زیادہ باطن کو خُوش نما بنانے کی درخواست کریں۔