مدینۂ منوّرہ..... دورِ مملوکین میں: 1454 میں مملوکین نے ایوبیوں سے حکومت چھین کرمصر پر اپنی حکومت قائم کی، تو مدینۂ منوّرہ کا تعلق بھی مصر سے ہوگیا۔ 1517ء تک ان کی حکومت رہی، لیکن اس طویل عرصے میں مدینۂ منوّرہ کے مجموعی حالات میں اُتار چڑھاؤ آتا رہا۔ کبھی امن و امان ہوجاتا، تو اکثر اضطرابی و بدحالی کی کیفیت رہتی۔ اس دور میں دو اہم واقعات بھی پیش آئے،جب شہرِ مدینہ میں بہت زیادہ بے چینی پھیلی۔ مدینے کے مشرق میں ماہ رجب 654ہجری، بمطابق 1256 عیسوی کو آتش فشانی کا واقعہ پیش آیا۔
یہ پہاڑوں کی ایسی آگ تھی، جس کا لاوا نہر کی مانند تیزی کے ساتھ مدینے کی آبادی کی جانب بڑھ رہا تھا، لیکن پھر چشمِ فلک نے قدرت کا کرشمہ دیکھا کہ اچانک اُس کا رُخ شمال کی جانب مڑگیا اور یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہرِ جاناں کو اس خطرناک آگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ و مامون فرمادیا۔ جب کہ دُوسری بار آسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے 886ہجری بمطابق1481ء کو آتش زدگی کا واقعہ پیش آیا۔ (مدینۂ منوّرہ، ڈاکٹر احمد محمد شعبان،22)۔
مدینہ منوّرہ میں عثمانی حکم رانی کا پہلا دور: 923ہجری بمطابق 1517 عیسوی میں سلطان سلیم اوّل نے مصر پر قبضہ کرکے سلطنتِ عثمانیہ کا آغاز کیا، تو مدینے کے حکم رانوں نے سلطنتِ عثمانیہ سے اپنا تعلق قائم کرلیا، جس کے نتیجے میں عثمانیوں نے اہلِ مدینہ پر دل کھول کر مال و دولت خرچ کیا۔ 1532عیسوی میں سلطان سلیمان قانونی نے مدینہ منوّرہ کے گرد ایک بہت بُلند اور مضبوط فصیل تعمیر کر کے شہر کو محفوظ قلعے میں تبدیل کردیا۔ اہلِ مدینہ عثمانیوں کے دورِ حکومت میں خوش حالی کی زندگی بسر کررہے تھے۔
سعودی حکمرانی کا عہدِ اوّل
1220 ہجری مطابق1805ء میں مدینے میں سعودی قیادت کا پہلا دَور شروع ہوا، جس کی مدّت چھے سال رہی۔ اس دور میں مدینے میں بہترین امن و امان رہا، لیکن پھرمحمد علی پاشا نے اپنے بیٹے کی قیادت میں مدینے پر لشکرکشی کی، پہلی مرتبہ ناکام رہا، لیکن دُوسری دفعہ سخت ترین مقابلے کے بعد مدینے پر قابض ہوگیا۔
مدینہ منوّرہ میں محمد علی پاشا کا دَور: یہ دَور 1811 ء سے شروع ہو کر 1840ء پر ختم ہوا۔ یہاں سے مدینے کی نئی تاریخ شروع ہوئی۔ اقتدار کی باگ ڈور محمد علی پاشا کے ہاتھ میں رہی، لیکن یکے بعد دیگرے اس کے بیٹے شہر کی اندرونی ذمّے داری نبھاتے رہے۔ ابراہیم پاشا نے شہر کی فصیل، قلعے اور مسجد نبوی ؐ کی مرمّت کروائی۔ ایک بڑا وسیع تکیہ تیار کروایا، جہاں فقراء کو کھانا اور رقم تقسیم کی جاتی۔ اس طرح مدینے میں امن وسکون کی فضا قائم ہوئی، لیکن پھر 1840ء میں محمد علی پاشا نے مدینہ منورہ کا نظم و نسق عثمانی فوج کے حوالے کر دیا۔
مدینہ منوّرہ سلطنتِ عثمانیہ کے دُوسرے دَور میں: عثمانی حکم رانوں نےشہر قدس کی تعمیر و ترقّی میں بے دریغ پیسا خرچ کیا۔1844ء میں مدینے کے والی، دائود پاشا نے سلطان عبدالمجید کے حکم پر بہت سے اصلاحی کام کیے، جن میں سب سے اہم کام مسجد نبوی ؐ کی تعمیر و توسیع ہے۔ مسجد نبوی ؐ کی تزئین و آرائش کا جوکام سلطنتِ عثمانیہ کے دَور میں ہوا، اس کے حُسن و جمال کو دیکھ کر زائرین حیرت کے سمندر میں ڈُوب جاتے ہیں۔ یہ تمام کام سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں کا عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندہ مثال ہے۔
جزائرِ عرب میں بجلی کی فراہمی، الیکٹرک اور وائرلیس اسٹیشن کا قیام، مدینہ منورہ اور استنبول کے درمیان ٹیلی گرام کا نظام اورمدینہ منوّرہ، شام اور استنبول کے درمیان ریلوے لائن بچھا کر ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتوں کی فراہمی عثمانی دَورِ حکومت کے روشن اقدامات ہیں۔ آج بھی مدینہ منوّرہ کے ریلوے اسٹیشن پر اُس دَور کا ریلوے انجن دورِ عثمانیہ کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں، مدینے سے استنبول اور دیگر ممالک تک سڑکوں کا جال بچھایا گیا، پانی کی فراہمی کا نظام بہتر کرکے زراعت پر بھرپور توجّہ دی گئی۔
ان تمام اصلاحات نے مدینہ منوّرہ کی تجارت و زراعت میں کئی گنا اضافے کے ساتھ زائرین کی تعداد میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ عالمِ اسلام کے مختلف مقامات سے عاشقانِ رسولﷺ شہر مقدّس میں آکر بسنے لگے۔ آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا، 1918ء میں شریف حسین نے مملکتِ عثمانیہ سے بغاوت کرکے مدینے کا محاصرہ کرلیا اور پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر ایک معاہدے کے تحت ترکی نے مدینہ منوّرہ کو شریف حسین کے حوالے کردیا۔ یوں ماہ ربیع الاوّل 1918ء میں ہاشمیوں نے مدینے کا اقتدار سنبھال لیا۔ (مدینہ منورہ، ڈاکٹر احمد محمد شعبان، 25)
ہاشمی دورِ حکومت : 1337ہجری بمطابق 1918ء میں شریف علی بن حسین نے مدینہ منوّرہ کی امارت سنبھالی، لیکن1924ء میں سعودی حکم رانوں نے ایک بہت بڑے لشکرکے ساتھ مدینے کا محاصرہ کرلیا، جو سات ماہ تک جاری رہا۔ اس دوران دونوں گروپوں کے درمیان سخت ترین جنگ جاری رہی۔ اہلِ مدینہ بے مقصد جنگ اور محاصرے سے تنگ آچکے تھے۔ چناں چہ امراء پر مشتمل ایک وفد نے جدّہ میں امیر عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن آلِ سعود سے مذاکرات کیے اور معاہدہ طے پایا کہ مدینہ منوّرہ پر سعودی حکومت ہوگی، لیکن اہلِ مدینہ کو مکمل امن و امان اور تحفّظ فراہم کیا جائے گا۔ چناں چہ 19؍جمادی الاوّل 1344 ہجری بمطابق 1925ء میں مدینہ منوّرہ سے ہاشمی دَورِ حکومت کا خاتمہ اور سعودی دَور کا آغاز ہوا۔
موجودہ سعودی عہد میں مدینہ منوّرہ: آلِ سعود کے حکم رانوں نے اس شہرِ مقدّس کو جو عزّت و احترام دیا، مدینے کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس شہرِ جاناں کو رنگ و نُور سے نہلا کر حُسن و پاکیزگی اور امن و سکون کا گہوارہ بنادیا۔ مدینہ منوّرہ کے چہار اطراف جدید ترین ساز و سامان سے لیس سپر مارکیٹس، تجارتی مراکز، کشادہ صاف ستھری سڑکوں کا ایک جال بچھادیا اور پھر پُھولوں سے لدے حسین پارکس، امن و امان، نظم و ضبط، صاف شفّاف پُرسکون ماحول نے اس شہر مہربان کے حُسن کو چار چاند لگا دیئے۔
آلِ سعود کا سب سے اہم انقلابی کارنامہ مسجد نبویؐ کی عظیم الشّان توسیع، تزئین و آرائش ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسجد سے متصل علاقے، مرکزیہ میں جدید ترین سہولتوں سے مزّین ہوٹلز، عالی شان تجارتی مراکز، دُنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں حجاج اور عمرہ زائرین کو ہر وقت، ہر لمحہ خوش آمدید کہنے کو بے قرار رہتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج کا شہرِ مدینہ معاشی، معاشرتی اور ثقافتی اعتبار سے دُنیا کے ترقّی یافتہ شہروں کی فہرست میں شامل ہے۔
مسجد نبویؐ ، دُوسری مقدّس ترین عبادت گاہ:کعبۃ اللہ کا طواف، مسجد نبویؐ کی زیارت اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دُنیا بھر کے مسلمانوں کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہوتی ہے۔ حسین و جمیل، مقدّس و محترم شہر مدینہ منوّرہ کے قلب میں کائنات کی دُوسری سب سے مقدّس و قابلِ تعظیم عمارت واقع ہے کہ جس کی رفعت و شان اور قدر و منزلت اعلیٰ و ارفع ہے اور جس کے در و دیوار ایمان کی حرارت، دین کی تابانیوں، ذکر اَذکار کی لذّتوں، تسبیح و تہلیل کی حلاوتوں اور جلوئہ محبوبؐ کی کیف سامانیوں سے سرشارہیں۔
بلاشبہ مسجدِ نبویؐ، کرّۂ اَرض پر رَبِّ ذوالجلال کی عبادت و بندگی اور عظمت و تعظیم کا مستقر، مسلمانوں کی دینی سطوت، ملّی تحفّظ اور اجتماعی وحدت کا مرکز، حبیبِ کبریا کی خوش نودی کی مظہر ہے۔ یہیں سے ہدایت و برکت کا وہ زَم زَم جاری ہوا، جس نے سارے جہانوں کی معنوی تشنگی دُور کرنے، ان کے قلوب و اَرواح اور فکر و عمل کی سیرابی کا سامان پیدا کیا۔ مسجدِ نبویؐ اسلام کی شان و شوکت کا نشان، رضائے الٰہی کا مرکز، آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دربار فرشی، علم و عمل کا مرکز، حرب و ضرب، دفاعِ دین کی تربیت گاہ ہے۔
یہ وہ عالی مرتبت دربارِ گوہر ہے کہ جس کی جاروب کشی کو بھی اولیاء اور سلاطین باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ اللہ کے اس عظیم دربار کے ایک گوشے میں فخرِ کون و مکاں، سرورِ زمین و زماں، نیّرِ تاباں، روشن و درخشاں، نورِ مجسّم، رسولِ معظّم، محبوبِ رَبّانی، حبیبِ یزدانی، خاتم النبیّین، سیّدالمرسلین، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دو رفقائے خاص کے ساتھ آرام فرما ہیں۔ (صحیح بخاری، حدیث، 446)۔
مسجد نبویؐ کی مرحلہ وار تعمیر و توسیع: گزشتہ 14 سو برسوں میں مسجد نبویؐ کی14بار توسیع ہوئی۔ یکم ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک سے قائم ہونے والی دُنیا کی دُوسری مقدّس ترین مسجد کا رقبہ ایک ہزار پچاس مربع میٹر تھا، جو آج 1444ہجری میں پانچ لاکھ مربع میٹر پر محیط ہے۔
l پہلی توسیع: 7ہجری میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم یہودیت کے غرور و تکبّر کو خیبر کے قلعوں میں دفن فرماکر مدینہ منوّرہ تشریف لائے، تو مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی بناء پر مسجد نبویؐ کی توسیع فرمائی۔ چوڑائی میں20میٹر اور لمبائی میں 15میٹر اضافہ فرمایا۔ اب مسجد مربع کی صورت اختیار کرگئی ہے اور اس کا کُل رقبہ 2500: 50X50مربع میٹر ہوگیا ہے۔l 17ہجری بمطابق638ء میں سیّدنا عمر فاروقؓ نے مسجد کی تعمیر و توسیع فرمائی۔ قبلے کی جانب ایک دالان بنوایا۔
مغرب میں دالان کو کشادہ کیا اور شمال میں15میٹر کا اضافہ کیا۔ (اخبار مدینۃ الرسولؐ،93)۔l 29 ہجری بمطابق649ء میں سیّدنا عثمان غنیؓ نے مسجد کی تعمیر و توسیع کرتے ہوئے قبلے کی جانب ایک دالان بنوایا۔ قبلے کی جانب یہ آخری توسیع تھی۔ اس کے بعد آج تک پھر قبلے میں کوئی توسیع نہیں ہوئی۔ مغرب کی جانب ایک دالان اور شمال کی جانب 5 میٹر کا اضافہ کیا۔ (وفاء الوفا،504/2)۔
l 88ہجری بمطابق707ء میں اموی خلیفہ، ولید بن عبدالملک نے گورنر مدینہ حضرت عُمر بن عبدالعزیزکو مسجد نبویؐ کی تعمیرو توسیع کا حکم دیا۔ یہ توسیع مغرب و شمال اور مشرق کی سمتوں میں ہوئی۔اس وقت تک تمام اُمہات المومنینؓ رحلت فرما چکی تھیں، چناں چہ اُن سب حُجروں کو مسجد کی حدود میں شامل کرلیا گیا۔ حضرت عُمر بن عبدالعزیز نے مسجد کی حدود میں2369 مربع میٹر کا اضافہ کیا۔ جس کے بعد مسجد نبویؐ6465مربع میٹر رقبے تک کشادہ ہوگئی۔ آپؒ نے مسجد کے چاروں کونوں پر مینار، محراب کی موجودہ شکل اور منقّش دروازے بھی بنائے۔
یہ تعمیر91ہجری بمطابق710ء میں مکمل ہوئی۔161ہجری بمطابق778 ء عباسی خلیفہ مہدی بن ابوجعفرنے 2450مربع میٹر کی توسیع کی، جس کے بعد مسجد کا کُل رقبہ 8915مربع میٹر ہوگیا۔ 886 ہجری بمطابق1481 ء میں مسجد کے ایک مینار پر بجلی گرنے سے زبردست آگ لگ گئی، یہ ملوکِ مصر سُلطان اشرف قاتیبائی کا دورِ حکومت تھا، اس نے فوری طور پر مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور مسجد کے مشرق میں جانبِ مقصورہ شریف120مربع میٹر کا اضافہ کیا۔ روشنی کی خاطر مسجد میں کھڑکیاں بنوائیں۔ مؤذن کا چبوترا تعمیر کروایا اور روضۂ اَقدس کے گنبد بنوائے گئے۔ یہ سب کام پہلی مرتبہ ہوا اور چار سال میں مکمل ہوا۔
مسجدِ نبویؐ کی توسیع، سلطنتِ عثمانیہ کے دَور میں
1265 ہجری بمطابق1848 عیسوی میں عثمانی خلیفہ سلطان عبدالمجید نے مسجدِ نبویؐ میں 1293مربع میٹر کی توسیع کروائی۔ اس طرح مسجد کا رقبہ10328 مربع میٹر ہوگیا۔ عثمانی دَور کی اس تعمیر میں مسجد کی آرائش وزیبائش پر خصوصی توجّہ دی گئی۔ کاری گروں نے اپنی بہترین صلاحیتیں بُروئے کار لاتے ہوئے بے مثال جدّت اور خُوب صورتی کا ایسا شان دار مظاہرہ کیا کہ جس نے مسجد کے دَر و دیوار اور گنبد کو مزید حسین اور دل کش بنادیا۔
تب ہی ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی اپنے مخصوص طرزِ تعمیر کے باعث مسجد بے حد ممتاز و ممیّزنظر آتی ہے۔ بابِ مجیدی کا اضافہ بھی اسی دور میں ہوا۔ تُرکوں نے تعمیر مسجد نبویؐ پر مال و زَر ہی خرچ نہیں کیا، بلکہ اپنے خلوص و عشق، عقیدت و محبت اور احترامِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سراپا مجسّم کردیا۔ مسجد نبویؐ کے دَر و دیوار کا ہر نقش عشقِ مصطفیٰﷺ سے سرشار اور خلوص و محبت کا آئینہ دارہے۔
اِمتدادِ زمانہ کے باوصف اس فن تعمیر میں تُرکوں کے دل دھڑکتے نظر آتے ہیں۔ ہر پتھر، ہر بلاک اور ہر زاویے سے جنابِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبّت جھلک رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ترکوں نے تعمیرِ مسجد کے لیے اس بات کا التزام کیا تھا کہ ہر معمار حافظِ قرآن ہو۔ کام کی ابتدا سے پہلے ہر معمار غسل کرتا۔ دو رکعت نفل ادا کرتا اور سرکار مدینہؐ پر درود و سلام بھیجتا۔ غرض ہر ایک معمار تقویٰ کا پیکر اور پاکیزگی کا نمونہ تھا۔
سلاطینِ عثمانیہ نے مسجد نبویؐ کی ایسی پُرشکوہ عمارت تعمیر کروائی، جس کے دَر و بام پر گردشِ اَیّام اَثرانداز نہ ہوسکی۔ باب السلام سے مقامِ جبریلؑ تک ساری دیوار قرآن پاک کے سنہری حروف سے مزین ہے، جب کہ اسمائے مقدّسہ نہایت دیدہ زیب خطّاطی میں نقش کیے گئے۔ چھت میں واقع گنبدوں میں مختلف آیات نہایت اعلیٰ خط میں تحریر کروائی گئیں۔ جن کے حُسن و زیبائش میں نظر ڈُوب کررہ جاتی ہے۔ ہرنقش محبت کا آئینہ دار، ہر سطر خلوص کی مظہر اور ہر گوشہ عقیدت کی تصویر ہے۔ (تاریخ مدینہ منوّرہ / محمد عبدالمعبود، 343)۔
مسجدِ نبوی ؐکی توسیع و تعمیر، سعودی عہد میں
1371 ہجری بمطابق1951ء میں شاہ عبدالعزیز آلِ سعود نے مسجد کی تعمیر و توسیع کا اعلان کیا، جس کے بعد قدیم عمارت کے شمال مغرب اور شمال کے بعض حصّوں کو منہدم کیا گیا، جن کارقبہ6247مربع میٹر تھا۔ شاہ عبدالعزیز نے اِردگرد کی عمارتیں خطیر رقم کے عوض خریدکر اسے توسیع دی۔ شاہ عبدالعزیز کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادے، شاہ سعود بن عبدالعزیز نے 5 ربیع الاوّل 1375ہجری بمطابق اکتوبر1955ء کو اس توسیع شدہ عمارت کا افتتاح کیا۔
اس توسیع پر55کروڑ ریال خرچ ہوئے۔ (تاریخِ مدینہ منوّرہ،75)۔9 صفر 1405ہجری بمطابق2 نومبر 1984 ء کو خادم الحرمین الشریفین، شاہ فہد بن عبدالعزیز نے مسجدِ نبویؐ کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع کا سنگِ بنیاد رکھا، جسے دیکھ کر عقل انسانی دَنگ رہ جاتی ہے۔ پہلی توسیع کے بعد مسجد میں28ہزار نمازیوں کی گنجائش تھی، لیکن اس توسیع کے بعد نمازیوں کی گنجائش2لاکھ68ہزار ہوگئی۔ (جاری ہے)