میں عرصہ سے ایک کتاب کی تلاش میں تھا اور کتاب بھی کوئی سیریس یا علمی قسم کی نہیں ’’تفریحی‘‘ قسم کی تھی لیکن موضوع اور مصنف دونوں میرے پسندیدہ۔ کتاب کا موضوع ہے پاکستان کی فلم انڈسٹری کے آغاز سے لیکر عروج تک کے مراحل، نام ہے ’’فلمی الف لیلہ‘‘ اور مصنف ہیں علی سفیان آفاقی مرحوم جنہوں نے بطور صحافی کیریئر کا آغاز کیا اورپھر فلمی صنعت میں خود کو ایک بڑے مصنف، ہدایت کاراورفلمساز کے طور پر منوایا۔ آفاقی مرحوم میرٹھ کے رہنے والے ایک انتہائی نفیس اور نستعلیق قسم کے انسان تھے۔ بیحد مہربان، شفیق اور ڈائون ٹو ارتھ اس پیارے انسان کے ساتھ سالوں پر محیط میرا محبت بھرا رشتہ تھا۔ خاص طور پر جب تک وہ ماڈل ٹائون میں رہے، ان سے بہت ملاقاتیں رہیں، بہت کچھ سیکھا اور سمجھا کیونکہ وہ فلم انڈسٹری پر کسی اتھارٹی سے کم نہ تھے۔چند روز پہلے اتفاقاً آفاقی صاحب کی’’فلمی الف لیلہ‘‘ کی پہلی جلد ہاتھ لگی تو میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ندیدوں کی طرح اس کتاب پر ٹوٹ پڑا۔ طلسمی شخصیات کی مسحور کن کہانیاں اپنی جگہ بہت دلچسپ لیکن کتاب کے ایک مخصوص حصہ نے میرے حصے بخرے کردیئے۔ انور کمال پاشا کبھی فلم انڈسٹری کا بہت بڑا اور معتبرنام تھے جنہیں انڈین فلم انڈسٹری میں بھی انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا۔ حکیم احمد شجاع پاشا جیسے نامور آدمی کے اس نامور بیٹے کے انتہائی عروج اورانتہائی زوال کی سچی کہانی تو سنسنی خیز ہے ہی لیکن ان کی ایک مشہور فلم کے ایک انتہائی مشہور مکالمہ کے حوالہ سے آفاقی صاحب کا تبصرہ اور تجزیہ اس سے بھی زیادہ سنسنی خیز اور خوفناک ہے۔ غور فرمایئے، آفاقی مرحوم لکھتے ہیں۔’’انتقام‘‘ ریلیز ہوئی اور ’’گمنام‘‘ سے بھی زیادہ کامیابی ہوئی۔ اس کے نغموں کی بمبئی تک دھوم مچ گئی۔ اب پاشا صاحب پاکستان کی فلمی دنیا کا سب سے بڑا نام بن چکے تھے۔ پاشا صاحب کے مکالموں میں گھن گرج اور ڈرامائی عنصرزیادہ تھا۔ کسی حد تک اس پر تھیٹر کا رنگ بھی چھایا ہوا تھا۔ وہ شوکت الفاظ کے قائل تھے۔ ایسے فقرے تحریر کرتے کہ عام فلم بین کے دل پر اثر کرتے۔ اپنی فلم ’’سرفروش‘‘ میں انہوں نے ایک مکالمہ لکھا تھا جو سارے ملک میں مشہور ہوگیا۔ ترقی پسند لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا لیکن عوام نے اس کی بے پناہ داد دی۔ منظر یہ تھا کہ فلم کے ہیرو سنتوش کمار رات کے وقت چوری کے ارادے سے ایک گھر میں داخل ہوتے ہیں وہ تمام سامان پوٹلی میں باندھ لیتے ہیں کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوتی ہے۔ وہ چوری کا مال ایک طرف رکھ کر وہیں نیت باندھ لیتے ہیں اور نماز پڑھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران ہیروئن کی بھی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ چوری کا سامان بھی دیکھ لیتی ہے اور چور کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر بہت حیران بھی ہوتی ہے۔ جب سنتوش کمار سلام پھیرتے ہیں تو وہ حیران ہو کر ان سے کہتی ہے .......’’تم کیسے چور ہو۔ ایک طرف چوری کرتے ہو اور دوسری طرف نماز بھی پڑھتے ہو۔ جواب میں سنتوش کہتے ہیں.......’’چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض‘‘۔اس فقرے کی تماشائیوں نے توبے تحاشا داد دی ۔ ترقی پسند لوگوں نےاس کا مذاق اڑایا لیکن کسی نے کسی حوالہ سے ملک بھر میں اس کا چرچا ہوگیا۔ اس بات کو طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ انور کمال پاشا بھی اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور نہ ہی سنتوش کمار اور فلم کی دوسری ہیروئین مینا شوری بقید حیات ہیں لیکن آج کے دور میں اگر اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو اس فقرے کے پیچھے پوشیدہ فلسفہ نظر آجاتا ہے۔ ہمارے آس پاس ہرطرف مسجدیں آباد ہیں۔ رمضان المبارک میں روزے داروں کی بھی کمی نہیں ہوتی، حج کے دنوں میں بہت بڑی تعداد میں لوگ فریضہ حج ادا کرنے بھی جاتے ہیں، عمرہ کرنے والوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہے، جمعہ کے روز مسجدیں نمازیوں سے لبالب بھر جاتی ہیں۔ تبلیغی جماعتوں کے اجتماعات میں لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں اس کے باوجود ہر طرف ملاوٹ، دھاندلی، رشوت، چوری، ڈاکہ زنی اور بددیانتی کا دور دورہ ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر اتنے بہت سے نیک لوگوں کے ہوتے ہوئے معاشرے میں اتنی خرابیاں کیوں ہیں؟ آج کے ماحول کو دیکھ کرانور کمال پاشا کے اس فقرے کی صداقت واضح ہوجاتی ہے کہ ’’چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض‘‘۔قارئین!یہ تو تھے آفاقی صاحب۔ مجھے صرف اتنا اضافہ کرنا ہے کہ رشوت، کمیشن، کک بیکس، ذخیرہ اندوزی، مصنوعی مہنگائی، ملاوٹ اور کم تولنا....... یہ سب چوریاں ہی نہیں ڈاکے ہیں یعنی .......’’ڈاکہ ہمارا پیشہ ہے، نماز ہمارا فرض‘‘’’ڈاکہ ہمارا پیشہ ہے، حج ہمارا فرض‘‘’’ڈاکہ ہمارا پیشہ ہے، روزہ ہمارا فرض‘‘ٹی وی سکرینوں پر عوام کو رمضان بازاروں میں مہنگائی پر بلبلاتے، روتے، چیختے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ’’پیشے‘‘ اور ’’فرض‘‘ میں رشتہ کیا ہے؟ اور کیا کبھی یہ رشتہ ہماری سمجھ میں آئے گا؟