قانتہ رابعہ، گوجرہ
تین بھائیوں کی اکلوتی اور لاڈلی بہن فرحینہ ظفر(فرحی) کو اپنی دادی جان سے بہت پیار تھا، حالاں کہ اُس کی دادی جان کی زندگی بھی بیش تر مشرقی دادیوں کی طرح طرح پندو نصائح ہی میں گزررہی تھی۔اور اُس کے تینوںبھائیوں کو دادی کی ہر وقت کی روک ٹوک،ہر بات میں بولنے کی عادت سے سخت چڑ تھی، لیکن فرحی،بالکل ایسی نہیں تھی۔ اُسے تو داد ی جان کی روک ٹوک،بُرے بھلےکی اصلاح کرنا اچھا لگتا تھا۔ اُسے دادی جان کی ڈانٹ میں بھی اُن کا پیار نظر آتا تھا، حالاں کہ وہ پوتوں سے کہیں زیادہ فرحی کو ڈانٹتی تھیں، لیکن مجال ہے، جو کبھی اس نے پلٹ کر جواب دیا ہو یا اُن سےکبھی اونچی آواز میں بات کی ہو۔
یہاں تک کہ کبھی کالج سے تاخیر سے آنے پر جب کبھی وہ بے نقط ہی سُنانے لگتیں، تب بھی وہ آگے سے ہرگز تنک کر جواب نہ دیتی۔ بہت غصّہ آتا، تو خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ اورپھر جب غصّہ ٹھنڈا ہوجاتا تو اپنے نرم ہاتھوں سے دادی کے سر میں تیل ڈالتی، چھوٹے چھوٹے محبّت بَھرے جملوں سے ان کے کانوں میں رَس گھولتی، یہاں تک کہ دادی کی آنکھوں میں خود ہی ندامت تیرجاتی اور وہ اپنے ہاتھوں کی پُشت سے اپنےآنسو صاف کرنے لگتیں، مگر آنسو تھمنے کے بجائے مزید بہتے چلے جاتےتو پھر خود ہی کہتیں ’’ارے میری جان فرحی!یہ کئی دِنوں کا میل تھا، جو دل پر جَم گیا تھا۔ جانے مَیں غصّے میں اپنی گڑیا سی بچّی کو کیا کچھ کہہ جاتی ہوں۔
اس کم بخت مارے دل کو پورے گھر میں ایک تُو ہی نظر آتی ہے، اسی لیے اپنے دل کا سارا غبار تُجھ پر نکال دیتی ہوں۔اب اس بڑھیا کی کون سُنتا ہے، تُو سُن لیتی ہے، تو تُجھے سُناتی ہی چلی جاتی ہوں۔‘‘پھر وہ پوتی کو سینے سے لگاکر خُوب پیار کرتیں اور کہتیں’’تُو تو میری ولی پُتر ہے،تُو نہ ہو تو تیری دادی بول بول کر، سَڑ سَڑ کر ہی مرجائے۔ پتا نہیں اوپر والے نے تیرا دل کس نرم میٹھی مٹّی سے بنایا ہے۔‘‘ ’’نہیں، نہیں دادی جان! مجھ سے تو بس آپ کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔ مجھے معلوم ہے آپ ہم سب کے لیے بہت فکر مند رہتی ہیں، اسی لیے روک ٹوک کرتی ہیں اور یہ ڈانٹ ڈپٹ تھوڑی ہے، یہ تو آپ کا پیار ہے ۔اسی لیےچُپ چاپ برداشت کرلیتی ہوں۔ اور مَیں نے آپ سے کتنی مرتبہ کہا ہے کہ چھوڑیں ان جنگلیوں کو، وقت آنے پر خود ہی سُدھر جائیں گے۔‘‘وہ اپنے چھوٹے بھائیوں سے متعلق کہتی، جو آئے روز دادی جان کو کچھ نہ کچھ کہہ دیتے تھے۔
دن یوں ہی گزرتے چلے جا رہے تھے اور پھر ایک روز دادی جان کی لاڈو فرحی تعلیم مکمل کر کے میاں اور سُسرال کو پیاری ہوگئی۔ گرچہ دادی جان مزید بوڑھی ہوچُکی تھیں، مگر حیرت انگیز طور پر اُن کی چڑچڑاہٹ نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ شاید وہ بھی جانتی تھیں کہ اب ان کی اپنی اولاد سمیت اس گھر میں کوئی ان کی چڑچڑاہٹ برداشت نہیں کرے گا۔ وہ تو فرحی ہی تھی، جو چُپ چاپ سب سہہ لیتی تھی۔ سچ تو یہ تھا کہ پوتی کی جُدائی نے انہیں گم صُم کردیاتھا، اچھا، بُرا سب بولنا بھول گئی تھیں اور پھر ایک دن سانس لینا بھی بھول گئیں۔
اُس روز سب ہی رو رو کر بین ڈال رہے تھے، لیکن فرحی نہیں۔ اس کی آنکھیں بھیگی تھیں مگر زبان بالکل خاموش تھی۔ ’’میّت پر بین ڈالنا سخت گناہ ہے، جانے والے کے حق میں گواہیاں دینی چاہئیں، اُسے اچھے الفاظ سے یاد کرنا چاہیے، اُس کے لیے دُعائے مغفرت کرنی چاہیے۔ بیٹا! یہ جو لوگ میّت پر بین ڈالتے، سینہ پیٹتے ہیں ناں، وہ بڑا غلط کرتے ہیں۔ ‘‘ فرحی کے کان میں دادی کے الفاظ گونجے، جو انہوں نے اپنی بہن کی میّت سے واپسی پر اسے سمجھاتے ہوئے کہے تھے۔ وہ اُٹھی اور کفن میں لپٹی دادی کے سرہانے کلمۂ شہادت پڑھنے لگی۔
اُسے دیکھ کر باقی لوگوں نے بھی رونا دھونا بند کردیا اور سپارے پڑھنے لگے۔’’کیا ہی اچھا ہو کہ ہم زندگی ہی میں اپنے پیاروں کی قدر کرلیں۔ جانے والوں کے پیچھے تو سب روتے ہیں، مگر جانے ہم زندوں کی قدر کرنا کب سیکھیں گے۔ جب دادی جان زندہ تھیں، تو سب کو ان کا بولنا، نصیحت کرنا گراں گزرتا تھا اور آج وہی لوگ ان کی ایک آواز سُننے کے لیے ترس رہےہیں، اُن کے لیے رو رہے ہیں۔ہم بہت بے مروّت لوگ ہیں، کبھی اپنے پیاروں، اپنی فکر کرنے والوں کی پروا نہیں کرتے اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ کوئی ہم سے پیار نہیں کرتا۔‘‘ یہی سوچتے سوچتے کب اس کی آنکھ لگ گئی، پتا ہی نہ چلا۔
وقت گزرتا گیا، فرحی اپنی گھر گرہستی میں مصروف تو ہوگئی، لیکن دادی جان ہر وقت اس کے ذہن میں رہتیں اور جب اُسے ان کی کوئی بات یاد آتی، تو وہ زیرِ لب ان کے لیے دُعائے مغفرت کرتی۔ کئی مرتبہ تو فرحی کی عجیب حالت ہو جاتی وقت، بے وقت دادی جان کی کوئی باتیں یاد آتیں، بالخصوص تب، جب وہ کسی الجھن کا شکار ہوتی، تو دادی جان کی نصیحت، کوئی بات فوراًمسئلے کا حل، الجھن کی سلجھن بن کر دماغ میں آجاتی۔ فرحی کے تین بچّے تھے، ایک بیٹی، دو بیٹے۔ بچّے اب بڑے ہورہےتھے۔
اُسے اپنے بچّوں میں اپنی اور اپنے بھائیوں کی جھلک دکھائی دیتی، بس فرق اتنا تھا کہ بیٹی کا مزاج ماں کے مزاج کے برعکس تھا۔ فرحی کے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ اس کی ایک نہ سُنتی۔ نہ ہی اُسے اپنے دادا، دادی سے کوئی خاص لگاؤ تھا۔ البتہ، فرحی کی ساس بہت نرم مزاج، اپنے کام سے کام رکھنے والی، دھیمے لہجے کی حامل تھیں، جنہیں اپنی پوتی سے بےحد اُنسیت تھی۔ عام طور سے دادیوں کو پوتے پیارے ہوتے ہیں، لیکن یہاں معاملہ اُلٹا تھا کہ دادی، دادا کی جان تو حیا میں بستی تھی۔
دوسری جانب حیا تھی، جسے اُن کا کوئی خیال ہی نہ تھا۔ کچھ دنوں سے فرحی کی ساس کی طبیعت خراب تھی، ٹیسٹس ہوئے تو پتا چلا کہ انہیں سرطان ہے۔ علاج شروع تو ہوگیا، لیکن ان کی عُمر کی وجہ سے ڈاکٹرز کچھ زیادہ پُرامید نہیں تھے۔ فرحی کو لگا، جیسے اس کی دنیا تھم گئی ہو۔ ساس اُس کے لیے ماں سے کم نہیں تھیں، انہوں نے اُسے اِس گھر میں بھرپور پیار دیا تھا اوراب ان کی تکلیف، یہ حال اُس سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔
رمضان شروع ہوچُکا تھا اور اس کی ساس کی طبیعت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ وہ بہت کم زور اور لاغر ہوچُکی تھیں۔ فرحی نے رمضان کی مصروفیات کے باوجود ساس کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔دن گزرتے جارہے تھے اور اس کی ساس کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی اور پھر ایک دن وہ بھی داعیِ اجل کو لبّیک کہہ گئیں۔ سوئم کے اگلے روز افطار سے فارغ ہوکر فرحی نے حیا کو ایک بند لفافہ پکڑایا’’ماما! یہ کیا ہے؟‘‘ حیا نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’یہ تمہاری دادی کا خط ہے، جو انہوں نے مجھے امانتاً یہ کہہ کر دیا تھا کہ تمہیں اُن کے جانے کے بعد دے دوں۔ اب چاہو تو اسے پڑھ لینایا خط کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنا، جو دادی کے ساتھ کیا ہے۔‘‘یہ کہہ کر فرحی کمرے سے چلی گئی۔
حیا نے زندگی میں پہلی بار اپنی ماں کی آنکھوں میں اتنی سرد مہری اور لہجے میں اس قدر سختی دیکھی تھی۔اُس نے خط لیا اور اپنی من پسند جگہ گیلری میں جاکر بیٹھ گئی۔ خط کھولا، تو لکھا تھا۔ ’’پیاری بٹیا حیا! جب تمہیں یہ خط ملے گا، تو مَیں اِس دنیا سے جا چُکی ہوں گی۔ مَیں نے تمہیں یہ خط کچھ خاص وجوہ سے لکھا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ تمہاری مصروف زندگی میں ہمیں کبھی یہ بتانے کا موقع ہی نہیں ملا کہ مَیں اور تمہارے دادا تم سے بےحد پیار کرتے ہیں۔ جانتی ہو بیٹا، جب تم پیدا ہونے والی تھیں، تو مَیں نےاللہ سے خوب دُعائیں مانگی تھیں کہ ہمارے گھر اپنی رحمت بھیجیں، مَیں زندگی بَھر بیٹی کے پیار کے لیے ترسی، پھر جب تمہاری ماں اس گھر میں بیاہ کر آئی، تو میری بیٹی کی ماں بننے کی خواہش تو پوری ہوگئی، لیکن مَیں ایک بیٹی کی زندگی کے تمام مراحل دیکھنا، محسوس کرنا چاہتی تھی۔ یوں تمہاری پیدایش نے میرے سارے ارمان پورے کردئیے۔
مَیں جانتی ہوں، تم بھی مجھ سے بہت پیار کرتی ہو، بس آج کل کی تعلیم اتنی مشکل ہوگئی ہے کہ بچّوں کو بزرگوں کے پاس دو گھڑی بیٹھنے کا وقت ہی نہیں ملتا، لیکن میری گڑیا! یقین کرو، جب جب تم میرے پاس بیٹھتی تھیں، مجھ سے باتیں کرتی تھیں، وہ لمحات میری زندگی کے خوش گوارترین لمحات ہوتے تھے۔ حیا! مجھے معلوم ہے کہ تم بہت مصروف رہتی ہو، لیکن بس اتنی سی خواہش، ایک درخواست ہے کہ میرے بعد دن کے کچھ لمحات اپنے دادا کے ساتھ بیٹھ جایا کرنا۔ وہ میرے بعد بہت اکیلے ہو گئے ہوں گے۔ویسے تو مجھے پتا ہے کہ تمہاری ماں اُن کا بہت خیال رکھے گی، لیکن تمہاری بات الگ ہے۔ وہ کبھی اظہار نہیں کرتے، لیکن تمہاری ایک مسکراہٹ دیکھنے، تمہاری آواز سُننے کو بےچین رہتے ہیں۔
جب جب تمہاری ہنسی گھر میں گونجتی ہے، تو یہی کہتے ہیں’’اِس چڑیا کے دَم سے ہمارا گلشن چہک رہا ہے۔‘‘ بیٹا! اپنے دادا کا خیال رکھنا اور میرے لیے دُعائے مغفرت کرنا، مجھے یقین ہے کہ میرے حق میں کی گئی میری چڑیا کی دُعا ضرور قبول ہوگی۔‘‘ خط ختم کرتے کرتے حیا زارو قطار رو رہی ، خود کو کوس رہی تھی، ’’کیوں مَیںنے دادی کے پیار، محبّت کی قدر نہیں کی۔اللہ نے تومجھے ایک بہت ہی اَن مول ، بےلوث رشتے سے نوازا تھا، لیکن مَیں اس کی قدر نہ کر سکی۔ اور مَیں ہی کیا، میری زیادہ تر سہیلیاں اپنے گھر کے بزرگوں سےاُکھڑی اُکھڑی ہی رہتی ہیں، ہم کیسی نسل ہیں، جو گھر میں موجود نعمت کی قدر نہیں کرتی۔ ہم گھروں سے باہر سکون تلاش کرتے ہیں، جب کہ سکون تو والدین اور بزرگوں کی صُورت ہمارےگھروں میں موجود ہے۔ اے کاش! مجھے دادی کی زندگی میں عقل آجاتی، اے کاش!میرا ضمیر کچھ پہلے جاگ جاتا،اےکاش…!!‘‘ وہ چہرہ ہاتھوں میں چُھپائے زارو قطار رو رہی تھی، اُسے اپنا وجود بہت بے معنی، بہت چھوٹا محسوس ہو رہا تھا۔
شدتِ جذبات سے روتے روتے کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔ وہ سُرخ آنکھوں کے ساتھ پلٹی تو دادا پاس کھڑے بڑی شفقت سے پوچھ رہے تھے۔ ’’کیا ہوا بیٹا، کسی نے کچھ کہہ دیا، رو کیوں رہی ہو؟‘‘ وہ اُٹھی اور جھٹ اپنے دادا سے لپٹ گئی’’دادا! میرے پیارے دادا، مجھے معاف کردیں، آپ کی حیا اپنے آپ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں۔ مَیں نےآپ لوگوں کا بہت دل دُکھایا ہے، مجھے معاف کردیں، بس مجھ سے کبھی ناراض مت ہوئیے گا پلیز،دادی کی طرح مجھے چھوڑ کر مت جایئے گا، مَیں وعدہ کرتی ہوں کہ اب کبھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑوں گی، آپ کا پورا خیال رکھوں گی۔‘‘ ’’پگلی! تُوتو میری لاڈلی، اس گھر کی رحمت ہےاور رحمت سےبھی بھلا کوئی روٹھتاہے۔اچھا چلو، اب آنسو پونچھو اور جلدی سے سونے کی تیاری کرو، ورنہ سحری میں نہیں اُٹھ سکو گی اور ہاں، اب سے مجھے سحری میں اُٹھانے کی ذمّے داری تمہاری ہے۔‘‘ دادا نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا، تو حیا بھی مُسکرادی۔