• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مَیں نے آئین بنتے دیکھا‘‘ کا سلسلہ اِس خیال سے شروع کیا تھا کہ اپنی نئی نسل کو یہ احساس دلا سکوں کہ ایک زمانے میں برِصغیر کے طول و عرض میں آدابِ جہانبانی کےآشنا مسلمانوں کی ایک عظیم الشان سلطنت قائم تھی جس کے ساتھ تجارت کرنے کے لئے یورپی طاقتوں کے اندر ایک دوڑ لگی ہوئی تھی، جو معاشی، صنعتی اور تہذیبی اعتبار سے بڑی ترقی یافتہ تھی۔ اُسے اٹھارہویں صدی کے اوائل میں زوال آنے لگا اور مرہٹوں اور سکھوں نے غیرملکی طاقتوں کی خفیہ مدد سے ایسے حالات پیدا کر دیے جن میں برِصغیر پر انگریز قابض ہو گئے۔ اُن کی دست برد سے محفوظ رہنے کے لئے مسلمانوں کے اندر مختلف تحریکیں اٹھتی رہیں، مگر برطانیہ کی سامراجی طاقت علم، تحقیق اور سامانِ حرب میں بہت آگے تھی، اِس لئے آزادی کی عوامی تحریکیں ناکام رہیں۔ انگریزوں کو فوراً ہی ہندوؤں کی حمایت حاصل ہو گئی اور دونوں نے مل کر مسلمانوں کا وجود ختم کرنے کی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ ایسے میں سرسیّد احمد خاں اُفق پر نمودار ہوئے جنہوں نے مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت کا سیاسی فلسفہ تخلیق کیا۔ اِس کی بنیاد پر آئینی اصلاحات کا سلسلہ چل نکلا اور آخرکار نوے سال کی جدوجہد کے بعد پاکستان وجود میں آیا۔

پاکستان میں دستور سازی کے تمام تجربات کا احاطہ کرتے ہوئے مَیں سب سے آخر میں 1973ء کے دستور کی تدوین کا پورا حال بیان کروں گا اِن شاء اللّٰہ۔ میری نظر میں انتہائی کشیدہ اَور پژمردہ حالات میں ایک متفقہ دستور کی منظوری ہمارے اجتماعی شعور کا ایک بہترین اظہار تھا جس میں پسِ پردہ سفارت کاری نے بھی ایک اہم کردار اَدا کیا۔ چند روز پہلے دس اپریل کو پارلیمنٹ میں دستورسازی کا جشن منایا گیا ہے جس میں پُرجوش تقریریں ہوئیں۔ سب سے اچھی روایت یہ قائم ہوئی کہ سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اُس میں شرکت کی اور آئین کی اہمیت، افادیت اور اُس کی قوت بڑے شاندار اَلفاظ میں بیان ہوئے۔ مجھے محسوس ہوا کہ بیشتر مقررین اُن عظیم کرداروں سے بےخبر ہیں جنہوں نے 1973ء کے آئین کی اتفاقِ رائے سے منظوری میں ایک ناگزیر کردار اَدا کیا تھا۔ یہ خاکسار چونکہ پسِ پردہ ڈپلومیسی کا حصّہ رہا ہے، اِس لئےیہی مناسب سمجھا کہ اِس موقع پر بنیادی حقائق بیان کر دیے جائیں۔سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بچے کچھے پاکستان میں شدید مایوسی، اضطراب اور اِشتعال پھیل رہا تھا۔ ایک بڑا طبقہ محسوس کر رہا تھا کہ مسٹر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے لئے مشرقی پاکستان سے جان چھڑائی تھی اور وُہ پاکستان میں اشتراکیت نافذ کرنا چاہتے تھے۔ یہ تاثر بھی بہت گہرا تھا کہ دستور بناتے بناتے ہم پاکستان کا ایک بازو گنوا بیٹھے ہیں، اِسلئے آئندہ دَستورسازی کے عمل کو پوری سنجیدگی سے لیا جائے اور ملک توڑنے والوں کا کڑا اِحتساب ہونا چاہئے۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں سرحد (خیبرپختونخوا) اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے اتحاد نے اکثریت حاصل کر لی تھی اور پیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں حکومتیں بھی بنا لی تھیں جبکہ دَستورسازی کا عمل بھی شروع ہو چکا تھا۔ 21؍اپریل 1972ء کو آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لئے25رکنی کمیٹی وزیرِ قانون میاں محمود علی قصوری کی چیئرمین شپ میں تشکیل پائی۔ حکومتی پارٹی کے نمائندوں کے علاوہ اُس کمیٹی میں حزبِ اختلاف کے مولانا شاہ اَحمد نورانی ،مولانا مفتی محمود، میر غوث بخش بزنجو، امیرزادہ خاں، پروفیسر غفور اَحمد، سردار شوکت حیات خاں اور میاں ممتاز دولتانہ شامل تھے۔

اکتوبر 1972ء میں دستوری بِل قومی اسمبلی میں پیش ہوا، تو محمود علی قصوری مستعفی ہو گئے اور اُن کی جگہ عبدالحفیظ پیرزادہ وَزیرِ قانون تعینات ہوئے۔ آگے چل کر اَپوزیشن اور حکومت کے مابین آئینی مسائل پر اختلافات بہت سنگین ہوتے گئے، تب روزنامہ ’وفاق‘ کے ایڈیٹر جناب مصطفیٰ صادق میرے پاس آئے اور اُمڈتے ہوئے خطرات کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اِس نازک وقت میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے بحران پر قابو پانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ دوسرے روز ہم دونوں اسلام آباد روانہ ہوئے اور اَپنے سیاسی مرشد مولانا ظفر احمد انصاری سے ملے اور اُن سے قائدانہ کردار اَدا کرنے کی درخواست کی۔ غوروخوض کے بعد طے پایا کہ سب سے پہلے گورنر پنجاب جناب ملک غلام مصطفیٰ کھر کو اِعتماد میں لیا جائے۔ مولانا انصاری، کھر صاحب سے ملاقات کے لئے لاہور آئے جس کا اہتمام جناب مصطفیٰ صادق نے کیا تھا۔ اُن کے کھر صاحب سے اچھے روابط تھے۔ تفصیلی ملاقات کے بعد کھر صاحب نے مسٹر بھٹو کو مولانا انصاری سے ملاقات کرنے اور دَرمیانی راستہ نکالنے کا مشورہ دِیا۔ مسٹر بھٹو، مولانا انصاری کی سیاسی ذہانت اور خلوصِ نیت سے بہت متاثر ہوئے اور وَزیرِ قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کو ہدایت کی کہ وہ دَستورسازی کے عمل میں مولانا سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔

ایک طرف اِس نوع کی ٘مثبت سوچ پرورش پا رہی تھی اور دُوسری طرف بعض حلقے جن میں انتہاپسند بائیں بازو کے افراد بھی تھے، ایسے حالات پیدا کر رہے تھے جن میں بہت بڑا قومی تصادم رونما ہو سکتا تھا۔ غالباً وزیرِ داخلہ خان عبدالقیوم خاں کے اُکسانے پر فروری 1973ء میں صدر بھٹو نے سردار عطاء اللّٰہ مینگل کی حکومت ختم کر دی جس کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کرتے ہوئے سرحد کے وزیرِاعلیٰ جناب مفتی محمود مستعفی ہو گئے۔ یوں سیاسی بحران گہرا ہوتا گیا۔ اگلے مہینے 23مارچ کی سہ پہر پیپلزپارٹی نے متحدہ جمہوری محاذ کے جلسۂ عام پر وحشیانہ حملہ کیا جس میں درجنوں کارکن جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا جبکہ دستور کی دوسری خواندگی 29 مارچ کو ہونے والی تھی۔ اپوزیشن کی غیرموجودگی میں دوسری خواندگی مکمل کر لی گئی اور دَستور کی منظوری اور اُس پر دستخط ثبت کرنے کے لئے 10؍اپریل کی تاریخ مقرر ہوئی۔ اِن حددرجہ تَنے ہوئے حالات میں ایک متفقہ دستور کا خیال دیوانے کا خواب معلوم ہوتا تھا، لیکن اللّٰہ کے فضل سے جناب غلام مصطفیٰ کھر، جناب عبدالحفیظ پیرزادہ، خان عبدالولی خاں، میر غوث بخش بزنجو، پروفیسر غفور اَحمد، سردار شیرباز مزاری، مولانا ظفر احمد انصاری اور بالخصوص مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی سیاسی بصیرت ،بے پناہ فکری ریاضت،سالہاسال کی محنت سے دستوری تاریخ میں بہت بڑا معجزہ تخلیق ہوا۔

تازہ ترین