• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر فرد قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ کسی خاص مقصد کو نبھانے کی ذمہ داری لے کر اس دنیا میں آتا ہے،جو اپنے آپ کو دریافت کرکے اپنا طے شدہ کردار اچھی طرح نبھا پائے وہ دین و دنیا میں کامیاب ٹھہرتا ہے۔ کچھ لوگوں کو بڑے مقاصد اور ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں اور اس حوالے سے انھیں مخصوص صلاحیتوں سے سرفراز کر کے بھیجا جاتا ہے۔ وہ جو ظاہری اور باطنی دونوں دنیاوں میں توازن رکھنے پر مامور ہوتے ہیں صوفی اور گیانی کہلاتے ہیں۔ان کا وجود معاشرے کو خیروبرکت کی کرنوںسے استوار رکھتا ہے۔

دنیا میں مرد اور عورت دونوں کو قدرت نے روحانی اور باطنی رہنمائی کا فریضہ عطا کیا۔ برصغیر میں خواتین صوفیا کی بات کریں تو ایسے سینکڑوں نام ستاروں کی طرح روشنی پھیلاتے نظر آتے ہیں۔تاہم بہت سی ہستیاں ایسی بھی ہیں جن کا فیض تو عام ہوا مگر وہ خود منظرعام پر نہ آ سکیں۔ لاہور شہر کی مٹی میں کئی خواتین صوفیا محوِ خواب ہیں۔ان ہی میں ایک درویش صفت ہستی حضرت سیدہ بی بی فاطمہ گیلانی ہیں جنہیں بی بی کلاں کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ایک علمی اور روحانی خانوادے میں پیدا ہوئیں۔انکے والد سید جیون شاہ جو سید عبدالقادر ثالث گیلانی کے نام سے معروف ہیں اپنے عہد کے معتبر اور نیک صفت بزرگ تھے۔ بی بی کلاں کو قدرت کی طرف سے روحانی کمالات عطا کئے گئے تھے۔گھر کی صالح تربیت نے باطن کے جوہر کی عمدہ تربیت کی۔ بی بی خدا کی محبوب ہستی تھیں اسلئے انھیں خیر اور روحانیت کے علمبردار رشتے ناطے عنایت ہوئے۔ قسمت کی مہربانی دیکھئے، وقت کے ولی حضرت میراں محمد شاہ المعروف حضرت موج دریا بخاری سہروردی تبلیغ کی غرض سے لاہور تشریف لائے۔ لاہور کی روحانی ہستیوں سے میل ملاقات ہوئی۔ حضرت عبدالقادر گیلانی سے عقیدت و محبت ایسی بڑھی کہ بی بی فاطمہ سے ان کا نکاح ہو گیا۔ حضرت موج دریا بخاری انکی عبادت گزاری اور تقویٰ سے شدید متاثر ہوئے۔ ان پر ابھی بی بی کی روحانی صلاحتیں نمایاں نہیں ہوئیں تھیں مگر وہ ان کے اعلیٰ اخلاق اور پرہیزگاری کو بہت پسند کرتے تھے۔ بی بی نے خود بھی کبھی ان اسرار سے پردہ اٹھانے کی کوشش نہ کی لیکن قدرت جب ضروری سمجھتی ہے خود ہی تمام راز افشا کرنے کے اسباب کر دیتی ہے۔ ایک واقعے نے والد اور شوہر کے ساتھ ساتھ دنیا پر ان کی حقیقت ظاہر کردی۔کہا جاتا ہے کہ ایک دن بی بی نے اپنی چادر دھو کر دھوپ میں خشک ہونے کے لئے پھیلانا چاہی تو عصر کاوقت ہونے کے باعث صحن سے دھوپ ختم ہو چکی تھی۔صحن میں موجود بیری کے درخت کے اوپر دھوپ موجود تھی۔انھوں نے درخت کے پاس جا کر اسے جھکنے کے لئے کہا تاکہ وہ چوٹی پر چادر پھیلا سکیں تو اللّٰہ کی قدرت سے درخت سرنگوں ہو گیا اور بی بی کے چادر پھیلا دینے کے بعد دوبارہ اپنی اصلی حالت میں آ گیا۔حضرت موج دریا بخاری نے گھر کے باہر سےجب درخت کی چوٹی پر اپنی زوجہ کی پھیلی چادر دیکھی تو سخت غصے کے عالم میں گھر آئے اوربی بی سے درخت پر چڑھنے اور چادر پھیلانے پر ناراضی کا اظہار کرنے لگے۔بی بی نے درخت کے جھکنے کاواقعہ سنایا تو کہنے لگے اگر یہ بات ہے تو اب میرے سامنے چادر اتار کر دکھاو، بی بی نے درخت کے پاس جا کر اسے نیچے ہونے کو کہا تو وہ پہلے کی طرح سکڑ کر چھوٹا ہو گیا اور بی بی نے آرام سے چادر اتار لی۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت موج دریا بخاری حیرت زدہ رہ گئے کہ ان کی زوجہ خدا کی اتنی محبوب اور برگزیدہ ہستی ہے۔صوفی ولی بڑے لمبے سفر کے بعد ایسی منزل تک پہنچتے ہیں۔خدا کا شکر ادا کرتےہوئے انھوں نے بی بی سے استفسار کیا کہ وہ اس درجے تک کیسے پہنچیں تو جواب ملا۔ رب کی کامل اطاعت سے۔ کہ جو رب کا ہو جاتا ہے دنیا کی ہر چیز نہ صرف اس کی تکریم کرنے لگتی ہے بلکہ اس کی بات سمجھنے اور حکم ماننے لگتی ہے۔بی بی کلاں نے اپنے رب کے ذکر کیساتھ ساتھ اپنے دونوںصاحبزادوں سید صفی الدین گیلانی اور سید بہاوالدین گیلانی کی عمدہ پرورش کی۔جہانگیر کے دور میں 1607عیسوی میں جب ان کی وفات ہوئی توانھیں رہائشی مکان میں ہی دفن کیا گیا۔ یہ مزار لیک روڈ پر جین مندر اور کپور تھلہ کے درمیان واقعہ ہے۔ ایک مسجد اور مدرسہ بھی اس مزار کے ساتھ قائم ہیں۔ رب کا ذکر کرنے والوں کے مزار پر بھی ذکر کی محفل جاری رہتی ہے۔ ہوسکے تو کبھی وہاں سے گزرتے ہوئے اس دربار پر کچھ لمحے فاتحہ پڑھیں اور ملک کی تقدیس اور وقار کے لئے خدائے بزرگ و برتر کے حضور دعا کیجئے کہ دعا میں بڑی شفا ہے۔

تازہ ترین