• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

مہمانانِ گرامی: ثنیہ احمد، عائشہ نواز، تحریم خان،

علی عاصم، ہادی عاصم، سیّد کمیل، محمّد ابراہیم

ملبوسات: عرشمان بائے فیصل رضا

آرائش: SLEEK BY ANNIE 

زیورات: کاشف اینڈ کاشف جیولزر

عکّاسی: ایم کاشف

اہتمام: وسیم ملک

لےآؤٹ: نوید رشید

’’عید مبارک ہو‘‘ کے عنوان سے ایک نظم نظر پڑی ؎ رب نے رکھا مان، عید مبارک ہو… سب اُس کا احسان، عید مبارک ہو… دیکھو نکلا چاند، گلی میں شور ہوا… جاری ہے اعلان، عید مبارک ہو… روزے ہوںمقبول، دُعا کی ساعت ہے… لو جی، کھائو پان، عید مبارک ہو… مہکے، میٹھے رنگ ہوا میں شامل ہیں… اُڑتی ہے مسکان، عید مبارک ہو۔ بظاہر بہت سادہ سی نظم ہے، مگر نہ جانے کیوں، یک بارگی تصوّرِ عید کو جگمگا سا گئی۔ غالباً اس لیےکہ دورِحاضرمیں تو اصلی، حقیقی، دلی خوشی کا گویا تصوّر ہی ختم ہوگیا ہے۔ بس، تصنّع، بناوٹ، تکلّف، دنیا دکھاوے، مسابقت و موزانت کی ایک دوڑ سی لگی ہے اور جسے دیکھو، منہ اُٹھائے اسی سمت دوڑا چلا جا رہا ہے۔ خصوصاً اس ’’سوشل میڈیا‘‘ نے تو کچھ بھی خالص، کچھ بھی پرائیویٹ رہنے ہی نہیں دیا۔ لوگوں کے جذبات و احساسات تک جعلی، بناوٹی، جھوٹے، مصنوعی (FAKE) ہوگئے ہیں۔ 

یہ فیس بُک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ کے اسٹیٹسز، اسٹوریز اور رِیلز کی چکر پھیریوں نے تو خُوشیوں، غموں کا سارا حُسن و حُزن تک گہنا دیا، ہائی جیک کرلیا ہے۔ اپنوں، پیاروں کے روٹھنے، بچھڑنے، ہمیشہ کے لیے چھوڑ جانے تک کے لمحات میں مکرو فریب دَر آیا ہے۔ انتہائی دُکھ، صدمے کی کیفیات، لمحات کو ہر ہر زاوئیے سے موبائل کیمروں میں مقیّد کرنا اور پھر اُن میں سے بھی ’’بہترین‘‘ کا انتخاب کر کے اَپ لوڈ کرنا المیہ نہیں، تو کیا ہے۔ 

اِس ’’لائیکس‘‘، ’’فالورز‘‘ کی ریس نے نہ تو حج و عُمرے جیسی اَن مول سعادت، دینی و مذہبی فرائض و عبادات کے روحانی و الوہی احساس کو پوتّر و پاک رہنے دیا ہے، نہ ہی دیگر معاملاتِ زندگی ہی کا کوئی تقدّس و احترام باقی رہ گیا ہے۔ بچّے کی پیدائش (ایک پاک رُوح کے دنیا میں آنےکے موقعے) سے لےکر، نمازِجنازہ (ایک پوری ہستی کا بابِ حیات بند ہوجانے کے وقت) تک بس ہر طرف کِلک، کِلک کی آوازیں۔ 

اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونا، رونا، گِڑگڑانا، دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھانا عکس بند ہو رہا ہے، تو نومولود کے کان میں اذان دینے سے، بیٹی کی رُخصتی جیسے انتہائی جذباتی، نازک مواقع کو بھی محض اس تصویرکشی کی افراتفری نے بالکل سپاٹ، بے تاثر و بےرُوح سا کر کے رکھ دیا ہے۔ ہنسی بھی کھوکھلی، بے جان، رونا بھی مصنوعی، بناوٹی… خاص طور پر پچھلے چند برسوں سے یہ جو یُوٹیوبرز، وی لاگرز، ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے ایک آفت سی مچا رکھی ہے ناں کہ صبح بستر سے اُٹھتے ہی کُلّی نہیں کرنی، پہلے موبائل کیمرا آن کرنا ہے اور پھر رات گئے بستر میں لیٹ کر، لحاف اوڑھنے تک کا اِک اِک پَل جب تک Captured کر کے اَپ لوڈ نہیں کرلینا، سونا نہیں ہے۔ تو اس طرز عمل نے خُود ان کی زندگیاں ہی طشت ازبام نہیں کیں، عوام النّاس کو بھی اِک عجب پاگل پن میں مبتلا کر دیا ہے۔ کہاں ہمارا دین دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے، کن سوئیاں لینے کی ممانعت کرتا ہے اور کہاں لوگ ایک دوسرے کے بیڈ رومز، باتھ رومز تک میں داخل ہو چُکے ہیں۔

ساری دنیا ایک بار پھر اپنے اصل، اپنی رُوٹس (جَڑوں) کی طرف لوٹنے کے لیے برسرِپیکار ہے۔ وہ ممالک بھی، جن کی اپنی کوئی بہت زرخیز، شان دار تہذیب و ثقافت بھی نہیں، تو پھر بھلا ہم یہ کس طرف سرپٹ دوڑے جا رہے ہیں، جب کہ ہمارے ساتھ تو ایک بدترین المیہ ہماری تباہ حال، ڈوبتی معیشت و معاشرت کا بھی جُڑا ہے، تو کیا، باقی ساری دنیا کی نسبت ایک سادہ و سُتھرا طرزِ زندگی اختیار کرنے، اپنے اصل کی طرف لوٹنے کے ہم کہیں زیادہ حق دار نہیں۔ تو چلیں، اِس عید الفطر، اِس میٹھی عید ہی سے سادگی و سادہ کاری کا چلن اپنانے کی ایک سعی کرتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ عید منہدی کا، خوشیوں کا…رنگوں کا، خُوشبو کا… اور کانچ کی چوڑیوں کی کھنک میں بَسی … آرزوؤں کا اِک نام ہے… عید انعام ہے… عید اُمید ہے… عید تجدید ہے… عید، جیسے کوئی روشنی کی کرن… ایک وعدے، کہانی، فسانے کی یا… ہجر موسم میں لِپٹے ہوئے وصل کے… دُکھ کی تمہید ہے… عید اُمید ہے… ایک گھر میں تو خُوشیوں کا سامان ہے… ایک گھر میں مگر دُکھ کا طوفان ہے… عیدحیران ہے… عیدہیرانہیں، عیدموتی نہیں… عید ہنستی نہیں، عید روتی نہیں… ایک آنگن کہیں کوئی ایسا بھی ہے… جس میں شہزادی صدیوں سے سوتی نہیں… شاہ زادے کی جب دید ہوتی نہیں… عید کے دن بھی پھر عید ہوتی نہیں۔ تو اِمسال، عید کو، جو ایک انعام، یومِ اُمید و تجدید ہے۔ اُس کے سو فی صد اصلی، فطری، بہت خالص رُوپ رنگ کے ساتھ منانےکا تہیّہ کرتے ہیں۔ جس حد تک بھی ممکن ہوگا، اِن الیکٹرانک ڈیوائسز سے دُؑور اور اپنوں، پیاروں سے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کریں گے اور میٹھی عید کا جتنا رَس، جوہر، شیرینی و حلاوت اپنے اندر اُتار سکتے ہیں، ضرور اُتاریں گے۔

ہماری طرف سے آپ کے لیے ’’بزمِ عید‘‘ کی صُورت یہ ایک چھوٹا سا نذرانہ پیشِ خدمت ہے اور اِسی تحفے کے ساتھ آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے عیدالفطر بہت بہت مبارک ہو۔