مولانا حافظ عبدالرحمٰن سلفی
ہر قوم اور مذہب کی کوئی نہ کوئی عید ہوتی ہے جس کا پس منظر اور مقصد بھی ہوتا ہے، اس دن قومیں جشن مناتی اور خوشیوں کا اظہار کرتی ہیں۔ دوسرے لوگ واقوام اپنے تہواروں کو انسانیت وشرافت کے لبادے سے باہر نکل کر شراب نوشی،قمار بازی اور دوسرے لہوولعب میں مشغول ہو کر ایسے ایام گزارتی ہیں، جب کہ ان سب کے برعکس اسلام ہی ایسا پاکیزہ نظام حیات ہے کہ جس میں دین ودنیا دونوں کی خاطر مذہبی وقومی شعائر میں مابہ الامتیاز خصوصیات رکھی گئی ہیں اور اسلامی تہواروں میں نہ شراب وقمار ہے، نہ لہو ولعب ہے اور نہ انسانیت سوز نظارے ہیں، بلکہ تواضع، انکساری وخاکساری اور خشیت الٰہی کے جلوے ہیں۔ اسلامی تہواروں میں ایثار ومحبت کے مجسمے، ہم دردی وغم خواری کے نمونے ہیں۔ اتحاد واتفاق کی جیتی جاگتی عملی تصویریں ہیں۔ عیدالفطر بھی ایک ایسا ہی اسلامی تہوار ہے۔ لفط عید ’’عود‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی لوٹنے اور بار بار آنے کے ہیں۔
محاورتاً عید خوشی ومسرت کے اس دن کو کہا جاتا ہے جو ہر سال اہل اسلام میں نہایت تزک واحتشام سے منایا جاتا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ امام کائناتﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ شریف کے مسلمانوں کو خوشی کا دن مناتے اور لہوولعب کرتے دیکھا تو فرمایا یہ کیسا دن ہے؟ ان لوگوں نے کہاکہ زمانہ قدیم سے ہم لوگ ان دنوں میں کھیل اور لہوولعب کر کے خوشیاں مناتے چلے آئے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان دنوں سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں، تم ان میں خوشی منایا کرو، ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی۔ٰ (سنن ابودائود)
چناںچہ عیدالفطر اہل اسلام کے لیے مسرت وشادمانی کا دن ہے۔ یہ یوم مسرت رمضان المبارک میں ادا کی گئی عبادات پرشکر ربانی کے اظہار کے لیے ہے۔ آج کے دن اہل ایمان اپنے رب کے حضور سربسجود ہو کر اپنے آقا وخالق کی رضا وخوش نودی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ وہ زبان حال سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار حمدوثناء ہے جس نے ہمیں رمضان المبارک میں روزے رکھنے، راتوں کو قیام کرنے، تلاوت قرآن مجید، انفاق فی سیبل اللہ اور تقویٰ وطہارت اختیار کرنے کی توفیق مزید مرحمت فرمائی۔
جس کے اظہار تشکر کے لیے آج میدان عید میں جملہ اہل ایمان، بچے، بوڑھے، نوجوان ،خواتین، امیر، غریب ،عوام خواص، کیا ادنی،ٰ کیا اعلی،ٰ کیا حاکم کیا محکوم ،سب کے سب چہروں پر طمانیت وانبساط سجائے اپنے معبود برحق کے حضور اظہار عبودیت کے لیے حاضر ہیں اور چھوٹے بڑے سب ہی خوش وخرم دکھائی دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ آج جشن اور خوشی کا دن ہے۔
یہ سرور وانبساط اور یہ جشن شکرونشاط صرف اس لیے ہے کہ آج ہم ایک بڑے امتحان میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ آج انعام کی تقسیم کا دن ہے۔ قرآن مجید کی تنزیل پر سجدہ شکر بجا لانے کا دن ہے، کیوںکہ ماہ رمضان المبارک نزول قرآن کی برکت سے مبارک بن گیا ہے کہ اس ماہ مقدس میں ہر مسلمان کی ایمانی حرارت تازہ ہو جاتی ہے اور روزے دار بھوک وپیاس کی شدت برداشت کر کے اپنے رب کا محبوب اور پیارا بن جاتا ہے اور اللہ مالک الملک کی بے پناہ خوشنودیوں اور رضامندیوں کے حصول پر خوش وخرم ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی خوشی کے دن ہر ملک وملت میں پائے جاتے ہیں، جیسا کہ رحمت عالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ ہر قوم کے لیے عید اور خوشی کا دن ہے اور آج ہم مسلمانوں کی عید ہے۔ (بخاری)
ہلال عید! اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس سے بہت سے دینی ودنیوی فوائد ہیں۔ بندہ مومن جشن ومسرت میں بھی اپنے رب کی یاد سے غافل نہیں ہوتا بلکہ ہر حال میں خواہ غم ہو یا خوشی، وہ مالک کائنات کی حمدوثناء میں مصروف رہتا ہے،شب عید میں خصوصی طور پر نوافل اور دعائوں وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے اور غیرضروری طور پر بازاروں میں گھومنے پھرنے سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ صحیح معنوں میں رب کی رضا مندی حاصل ہو اور ہم جنت کے حق دار بن جائیں۔
صبح عید! جب عید کے دن کا سورج طلوع ہوتا ہے تو ہر طرف خوشی کا سماں نظر آتا ہے۔ گلی کوچوں میں بڑی چہل پہل نظر آتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ آج خوشی کا دن ہے اور آج کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ بے شمار فرشتوں کو روزے داروں کے استقبال کے لیے رضاکارانہ حیثیت سے ہر گلی کوچے اور راستوں میں کھڑا کر دیتا ہے، وہ اللہ کا پیغام سناتے ہیں۔
عیدالفطر اسلامی جشن مسرت وشادمانی کا دن ہے۔ اس دن کا آغاز تکبیرات سے کرنا چاہیے۔ یعنی نماز فجر کی ادائیگی کے بعد عید کی تیاری شروع کر دینی چاہیے اور اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، کبیرا۔ (بخاری) پڑھنا چاہیے یا اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الٰہ الّا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد کہنا چاہیے۔(طبرانی)
نماز عید آبادی سے باہر ادا کرنی چاہیے۔ عیدالفطر انعام واکرام کا دن ہے۔ ماہ رمضان المبارک میں کی گئی عبادات مثلاً روزہ، تراویح، تلاوت قرآن، زکوٰۃ، صدقات ،خیرات، صدقہ الفطر وغیرہ کے رب کے حضور قبولیت ورضامندی پر سجدہ شکر بجا لانے اور اپنے خالق ومالک سے جنت کے حصول کا پروانہ حاصل کرنے کا دن ہے، جیسا کہ اوپر بیان کردہ آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو پاک وصاف ہو گیا وہ مراد کو پہنچ گیا۔ ماہ صیام اہل ایمان کے لیے تزکیۂ نفس کا ذریعہ ہے۔ تزکیہ کے لفظی معنی پاک صاف کرنا ،نکھارنا اور میل کچیل دور کرنا ہے ،یعنی نفس کو ہر قسم کی نجاستوں اور آلودگیوں سے نکھار کر صاف ستھرا کر لیا جائے، جیسا کہ آیت کریمہ سے بھی واضح ہے۔
جو لوگ اپنا تزکیۂ نفس کر لیتے ہیں وہی کامیاب وکامران ٹھہرتے ہیں اور جو برائیوں اور رب کی نافرمانیوں میں غرق رہ کر اپنے نفسوں کو گناہوں کی دلدل میں دھنسا لیتے ہیں وہ ناکام ونامراد رہ جاتے ہیں۔ رمضان المبارک میں اہل ایمان اپنے احتساب کے ذریعے نفس کی اصلاح وتزکیہ کرتے ہیں تو پھر ان کے لیے یوم عید،یوم انعام واکرام بن جاتا ہے اور وہ نماز عید کے اجتماع سے اس حال میں اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں کہ رب تعالیٰ کی جانب سے یہ مژدہ جاںفزا سنا دیا جاتا ہے کہ میں نے اپنے ان تمام بندوں کومعاف کردیا ہے۔
سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں(1) جس دن مسلمان گناہ سے محفوظ رہے اور کوئی گناہ سرزد نہ ہو وہ اس کی عید کا دن ہے۔ (2) جس دن ایک مسلمان دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جائے اور مکائد شیطانی سے اس کا ایمان محفوظ رہے وہ اس کی عید ہے۔ (3) جس دن ایک مسلمان جہنم کے پل سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے وہ اس کی عید ہے۔ (4) جس دن ایک مسلمان دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہو جائے وہ اس کی عید ہے۔ (5) اور جس دن وہ پروردگار عالم کے دیدار کو پائے اور اس کی رضا سے بہرہ مند ہو وہ اس کی عید ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو عید کی حقیقی مسرتیں اور فیوض وبرکات نصیب فرمائے اور ہم سے راضی ہو جائے۔(آمین)