السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
آگے بڑھنے کی جستجو
’’سنڈے میگزین‘‘ میرا مَن پسند رسالہ ہے۔ یہ ہر ہفتے مجھ میں کچھ کرنے، آگے بڑھنے کی جستجو پیدا کرتا ہے۔ اِس میں شامل مختلف موضوعات پر مبنی مضامین جیسے ایک نئی تحریک دے جاتے ہیں۔ میرے ایک سے شب و روز میں تھوڑی ہلچل سی پیدا ہوجاتی ہے۔ (شری مُرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
ج: ویسےاس ہلچل کے لیے آپ کو کوئی اور طریقہ بھی دریافت کرنا چاہیے۔
ایک موضوع ذہن میں آیا
اُمید کرتی ہوں کہ آپ بمع ٹیم اللّہ کی امان میں ہوں گی۔ مجھے فخر ہے کہ میرے قلمی سفر کا آغاز ہم سب کے پسندیدہ اخبار ’’جنگ‘‘ سے ہوا۔ جماعت ششم سے جو کہانی لکھنے کا آغاز کیا، تو آج تک قلم محوِ سفر ہے۔ ایم فِل کی مصروفیات کے باعث قلمی مصروفیات تقریباً معطّل سی ہوکر رہ گئی تھیں۔ تاہم، قومی اور بین الاقوامی اخبارات و رسائل میں ’’مشقِ سخن‘‘ جاری رہی۔ اب افسانے لکھنے کے دوران اچانک ایک موضوع ذہن میں آیا تو سپردِ قلم کردیا ہے۔ اُمید ہے، شکریہ کا موقع دیں گی۔ (لیکچرار نسیم امیر عالم، حیدرآباد، سندھ)
ج: جہاں تک ہماری یادداشت ساتھ دیتی ہے، ابھی کچھ ہی عرصہ پیش تر ایک اچھوتے موضوع پر آپ کی ایک تحریر شایع ہو بھی چُکی ہے۔ یہ بھی معیار کے مطابق ہوگی تو ضرور اور جلد جگہ بنا لے گی۔
رشتوں کی ڈور سے بندھی کہانیاں
یوں تو سنڈے میگزین کا ہر سلسلہ اپنی جگہ بے مثال و لاجواب، اپنی مثال آپ ہے۔ نشانِ ہدایت سے چَھن چَھن کر آتی ہوئی دینی روشنی سے لے کر ’’چِٹھی آئی ہے، آئی ہے، چِٹھی آئی ہے…‘‘ تک، گویا اِک عالم رنگ و بُو ہے، جو کُشاں کُشاں اِس محفل میں لیے آتا ہے۔ کہیں عالمی سیاست کی قلا بازیاں، کہیں شطرنج کی بازی سی مُلکی سیاست، متفرق کے اَن گنت نشانات،ہردل عزیزی کے مراحل طے کرتی فن کاروں کی بیٹھک، پیارا گھر کی رونقیں، دسترخوانوں سے اُٹھتی خُوش بوئیں… الغرض، بیٹھے بٹھائے ایک نئے ہی جہاں کی سیر ہو جاتی ہے۔ لیکن آج یعنی8جنوری کو کسی نے اپنے خط میں بچّوں کے صفحے کےلیے’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ جیسے شان دار سلسلے کو ختم کرنے کی بات کی ، تو گویا دل پہ ہاتھ پڑا۔
مانا کہ بچّے بھی سنڈے میگزین شوق سے پڑھتے ہیں، لیکن اُن کے صفحے کے لیے اس سلسلے کو بند کرناحددرجہ زیادتی ہوگی۔ یوں تو پسند اپنی اپنی، خیال اپنا اپنا، لیکن میرے خیال میں جس طرح ’’ناقابل فراموش‘‘ میگزین کے ماتھے کا جھومر ہے، اِسی طرح رشتوں کو زبان دینے والا یہ سلسلہ بھی میگزین کی روح، جان ہے۔ چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک، گویا گھر کا ہر فرد ہی بہت ذوق و شوق سے اِس کا لفظ لفظ دل میں اُتارتا ہے۔ اس سلسلے نےلفظوں کی آڑ میں ہم بزرگوں کو وہ تعظیم و احترام دیا ہے کہ پڑھ کر سیروں خون بڑھ جاتا ہے اور دل سے ڈھیروں دُعائیں نکلتی ہیں۔
رشتوں کی ڈور سے بندھی اِن کہانیوں سے جانے کتنوں نے یادوں کے چراغ جلاکر اپنے دِلوں کا بوجھ ہلکا کیا ہے۔ یہ کتنے دُکھی دٍلوں کا درماں بناہے۔ کتنوں کو ڈھارس دے کر یوں کھڑا کیا کہ اپنے دل کا وہ سارا درد، جو وہ کبھی اکیلے سہتے تھے، اب قلم کے ذریعے صفحۂ قرطاس پر بِکھر کر اَن گنت کو اُن کا ہم درد و غم خوار بنارہا ہے۔ پھر کتنے ہی ہاتھوں نے قلم کے ذریعے اِن کے آنسو پونچھے، اِن کے دِلوں پر شفا کا مرہم رکھا، تو یہ کوئی عام سلسلہ نہیں، یہ بہت ہی خاص الخاص سلسلہ ہے۔ اس کار زارِ زیست، مصروفیت کی اِس تیز دوڑمیں جب کسی کےپاس ایک دوسرے سے مِل کر اپنا حالِ زارکہنےکی فرصت نہیں، ہم دردی کےدوبول کابھی وقت نہیں، ایسےمیں سنڈے میگزین کے اس صفحے نےہم سب کو یوں سمیٹ لیا ہے کہ اِس کے کاندھے پر سر رکھ کر ہم وہ سب کچھ کہہ ڈالتے ہیں، جو دل پر بوجھ بنا کبھی احساسِ ندامت سے مارتا ہے تو کبھی احساسِ شرمندگی و کوتاہی و غفلت سے۔
یہ رنگ برنگ واقعات، دراصل زندگی کی وہ کہانیاں ہیں، جو سُننے سُنانے سے آگے بڑھتی ہیں اور خواب ہوئے چہروں کو دم بدم ہمارے ساتھ رکھتی ہیں اور پھر یہی یادیں زندہ رہنے، جینے کا جواز بن جاتی ہیں۔ ایک اور گزارش بھی ہے، اگر کبھی محمود میاں نجمی کچھ وقت نکال کر بچّوں کے لیے بھی ہدایت و رہنمائی کی کوئی چھوٹی ہی سی سہی، اِک مشعل و شمع جلائیں تو یہ نسل ِنو پر اُن کا احسانِ عظیم ہوگا۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج:آپ ناحق ہی اِس قدر جذباتی ہو رہی ہیں، ہمارا فی الحال نہ تو کوئی نیا سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ ہے، اور نہ ہی کوئی چلتا ہوا سلسلہ بند کرنے کا۔
عاجزانہ قلمی کاوش
اُمید ہے، آپ خیریت سے ہوں گی۔ پہلی مرتبہ کوشش کر رہی ہوں، اپنے خیالات کو تحریری شکل میں پیش کرنے کی۔ بلاشبہ، روزنامہ جنگ نے اَن گنت نو آموز قلم کاروں کو ماہر ادیب بنایا ہے۔ میرے کئی اساتذہ بھی جنگ اخبار کے باقاعدہ لکھاری ہیں اور یہ میرا پسندیدہ اخبار، خصوصاً جریدہ ہے۔ گو کہ مَیں ابھی نوجوان ہوں اور کالج میں زیر تعلیم ہوں، مگر ہر قسم کی نصابی، غیر نصابی کتب کے مطالعے کی گویا رسیا ہوں، اگر آپ میری یہ پہلی تحریر شائع فرماکر حوصلہ افزائی کریں گی تو آئندہ لکھنے کی ہمّت و حوصلہ ملےگا۔ سو، عاجزانہ قلمی کاوش حاضر ہے۔ (عائشہ اکبر، کوٹری)
ج:عائشہ! ہماری پوری کوشش ہوگی کہ اگر آپ کی تحریر میں رتّی بھر بھی جان ہے، تو اُسےلازماً قابلِ اشاعت بنایا جائے تاکہ آپ کا اعتماد و اعتبار قائم رہے، لیکن اگر کسی کی پہلی تحریر نہ بھی شایع ہو، تو اُسےہمّت و حوصلہ ہرگز نہیں ہارناچاہیے کہ پہلی سیڑھی تو بڑے بڑے طرّم خانوں کو بھی منزل تک نہیں پہنچاتی اور خصوصاً آپ جیسی مطالعے کی شوقین طالبہ کے لیے تو آگے بہت راہیں کُھلی ہیں، سفر جاری رکھیں، منزل بھی ضرور ملے گی۔
مَیں دانتوں کی صحت اور احتیاطی تدابیر سے متعلق ایک مضمون ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے صفحے ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے لیے ارسال کر رہا ہوں۔ اور اُمید کرتا ہوں کہ ضرور شاملِ اشاعت فرمائیں گی۔ شکریہ، والسلام۔ (ڈاکٹر امیر حسن، ڈینٹل سرجن، حیدرآباد)
ج: ڈاکٹرصاحب!آپ نے ہم سے سو فی صد درست ہی اُمید رکھی۔ بلاشبہ آپ نے مضمون بہت اچھے انداز سے تحریر کیا اور ہم تو یوں بھی اچھے لکھنے والےمعالجین کی تلاش ہی میں رہتے ہیں، خاص طور پر دانتوں کی صحت سے متعلق لکھنے والوں کی، جو ڈھونڈے سے بھی بمشکل کہیں ملتے ہیں۔ لہٰذا ہماری آپ سے درخواست ہے کہ آپ دانتوں کے مختلف امراض اور مسائل سے متعلق وقتًافوقتاً کچھ نہ کچھ لکھ کے بھیجتے رہیں، عنایت ہوگی۔
کبھی کبھار تبصرہ
ہفت وار میگزین پر ہردفعہ تبصرہ تو ممکن نہیں، کبھی کبھار خط لکھ کے تبصرہ کر لیتا ہوں اور یوں میں نے اپنا ایک معیار برقرار رکھا ہوا ہے۔ ’’مکّہ مکرمہ:ماضی و حال‘‘ جیسے شان دار سلسلے کے بعد، مدینہ منوّرہ پہ تاریخی مضمون کا سلسلہ بھی بہترین کاوش ہے۔ سندھ کے بلدیاتی انتخابات پہ بہت معلوماتی مضمون پڑھنے کو ملا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال سے واقفیت تو یوٹیوب کے ذریعے سے تھی ہی، مگر انٹرویو کی بدولت خاصی جان کاری ہوئی۔ رائو محمّد شاہد اقبال کے مضامین، جو ہمارے پڑوسی شہر نواب شاہ کے ہیں، انتہائی معلوماتی اور اہم ہوتے ہیں۔
بےحد خوشی ہوتی ہے کہ ایسا قابل جوہر یہیں قریب ہی میں بستا ہے۔ اللّہ پاک اُن کی علمیت و قابلیت میں اضافہ فرمائے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ بھی لائقِ مطالعہ سلسلہ ہے۔ درمیانی صفحات میں اِس بار آپ کی تحریر رنگوں کے موضوع پر تھی۔ کیسی خُوشی کی بات ہے کہ اب اِن صفحات پر آپ کی مسلسل آمدورفت جاری ہے۔ رانجھا صاحب کا سفرنامہ بھی شوق سےپڑھ رہے ہیں۔ عرفان صدیقی کے مجموعۂ کلام سےمتعلق رپورٹ اچھی تھی۔ نئی کتابیں اور ڈائجسٹ کے صفحات بھی بہت خُوب رہے اور ناقابل فراموش اور آپ کا صفحہ تو پڑھ کر ہمیشہ ہی محظوظ ہوتےہیں۔ (محمّد عثمان، شاہ پور چاکر)
ج: جی جی، بجا فرمایا آپ نے۔ واقعتاً، قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا۔ اور آپ چوں کہ قصداً، ارادتاً وقفہ دے کے آتے ہیں، تو بہرحال اپنا ایک بھرم تو قائم رکھا ہوا ہے آپ نے۔
مرتے دَم تک وابستہ
اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات شامل تھے۔ پاکستان کے حالات صرف اورصرف معیشت مضبوط ہونےہی سے بدلیں گے۔ معروف سرجن، استاد، موٹیویشنل اسپیکر، پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال سے کی گئی فکر انگیز گفتگو پڑھی۔ اس بار ’’یادداشتیں‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے اپنے آغا جی، قاضی حسین احمد کی یادیں شیئر کیں۔ ’’دہلی نامہ‘‘ کی اقساط نمبر سات اور آٹھ دونوں شان دار رہیں۔ پانچ فروری کے بیش تر صفحات ’’کشمیر نامہ‘‘ تھے، اِن شاء اللہ تعالیٰ ایک دن ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ پاکستان کی تاریخ و ثقافت پر مبنی یادگاری ڈاک ٹکٹس کے سیٹ دیکھ کر تو دل ہی خُوش ہوگیا۔ بلاشبہ یہ پاکستان پوسٹ ہی کاخاصّہ ہے۔
پاک، بھارت تعلقات کی بہتری کےضمن میں اگر کوئی کردار ادا کرسکتا ہے، تو وہ متحدہ عرب امارات ہی ہے اور اُسے کردار ادا کرنا بھی چاہیے۔ شُکر ہے، اب آپ ’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ اَپ مسلسل لکھ رہی ہیں۔ اس بار ’’کہی اَن کہی‘‘ میں کوئٹہ مرکز کی منجھی ہوئی فن کارہ شائستہ صنم موجود تھیں۔ اُن کی سچّی، کھری باتیں بہت لُطف دےگئیں اوربہت زیادہ خوشی اس بات پر بھی ہوئی کہ دونوں شماروں میں ناچیز کے خطوط شامل تھے۔ ویسے یہ بات تو ہے کہ جو بھی ایک بار جنگ، سنڈے میگزین سے جُڑ جائے، پھر اُسی کا ہو کے رہ جاتا ہے۔ غالباً یہ محبّت و اُنسیت کی ایلفی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے، مَیں مرتے دم تک سنڈے میگزین سے اِسی طرح وابستہ رہوں گا۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: ارے بھئی، اب ایسی بھی کوئی مصیبت نہیں آن پڑی کہ مَر کے دکھانا ہی لازم ٹھہرا۔ ہمیں آپ کی چاہت و اُلفت کا ویسے ہی یقین ہے اور وہ کیا ہے ؎ کہ کون جیتا ہے، تِری زُلف کے سَر ہونے تک… تو زیادہ بڑے بڑے دعووں سے گریز ہی کرنا چاہیے، وگرنہ وہی حال ہوتا ہے، جو خیر سےسابقہ حکومت کا ہوا۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
گرچہ یہ قلم بےچین رہتا ہے، سنڈے میگزین کے ہر صفحے پر بے لاگ تبصرہ کرنےکو، مگر بقول غالب ؎ وہ فراق اور وہ وصال کہاں… وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں…فرصتِ کاروبارِ شوق کِسے … ذوقِ نظارۂ جمال کہاں… دل تو دل، وہ دماغ بھی نہ رہا… شورِ سودائے خط و خال کہاں… ایسا آساں نہیں لہو رونا… دل میں طاقت، جگر میں حال کہاں… فکرِ دنیا میں سر کھپاتا ہوں… مَیں کہاں اور یہ وبال کہاں۔ مُلک اور بیرونِ ملک کی بےشمار مصروفیات قلم اٹُھانے کی راہ میں حائل رہیں، وگرنہ سنڈے میگزین کی پوری ٹیم اور آپ جس محنت اور دل جمعی سے رسالے کو چار چاند لگاتے ہیں، اُس کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہر ہفتے ایک چٹھی تحریر کی جائے، خواہ چَھپے یا نہیں۔ 2022 ء کے ایک خط میں مجھے آپ کی طرف سے ’’بخت آور‘‘ کا خطاب عطا ہوا، بہت شکریہ! اب آتی ہوں میگزین کی جانب، حُسنِ ترتیب سے آراستہ سرِورق دیکھا تو مرتّب کرنے والی کے جمالیاتی حُسن کا قائل ہونا پڑا۔ سچ کہا ؎ کچھ بھی پہنادو، اچھے لگتے ہیں کچھ لوگ۔ اور سونے پر سہاگا، اب رائٹ اَپ بھی ایڈیٹر صاحبہ کا ہوتا ہے۔ تو صفحات کا اُجلا ہونا تو لازم ٹھہرا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘، نجمی صاحب کی علمی تحقیق اور معلومات پر مبنی ایک مدّبرانہ شاہ کار ہے۔
جس سے میری طرح بہت لوگوں کو ذہنی و روحانی جِلا حاصل ہو رہی ہے۔ منور مرزا کی بھی بات ہی کیا ہے۔ وہ ایک کہنہ مشق لکھاری ہیں اور اُن کی تحریریں بھی علمیت و معلومات سے بھرپور ہوتی ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ نے یہ خُوش خبری دی کہ بالآخر مردم شماری بذریعہ کمپیوٹر ہوگی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں شامل مضامین یقیناً اسپتالوں میں مریضوں کا رش کم کرنے میں معاون و مدرگار ثابت ہورہے ہوں گے۔ ’’انٹرویو‘‘ بھی کیا خُوب صُورت سوالات اور پُرمغز جوابات سے مرصّع تھا۔ رہی بات، ضیاء محی الدین کے حوالے سے لکھے گئے شاہ کار مضمون کی، تو ہمیں تو بےشمار نئی باتیں معلوم ہوئیں، خصوصاً اُس ہمہ گیر شخصیت کا ہر کام میں قائدِ اعظم کی طرح ’’وقت کی پابندی‘‘ کرنا اور بسیار خوری سے پرہیز خُوب ہی معلوم ہوا۔
شفق رفیع نے خواتین کو بااختیار بنانے کا جو بیڑہ اُٹھایا ہے، وہ نہ صرف معیشت کو مستحکم کرے گا بلکہ اِس طرح اُنہیں دوسرے شعبہ جاتِ زندگی میں بھی مَردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنے کا موقع ملےگا۔ بلاشبہ مضمون بہت جامع اور پُراثر تھا۔ ’’دہلی نامہ‘‘ تو ایک تاریخی وَرثہ ہے، جس سے نئی نسل کو بہرہ مند ہونا ہی چاہیے۔ ڈاکٹر رانجھا کا اندازِ بیاں بھی بہت دل نشیں ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ نے دو خُوش خبریاں دیں۔ پاکستان کو برآمدات میں سہولت اور شاعر مشرق کے والدین کی قبور کو وَرثےکادرجہ ملنا۔ ’’پیارا گھر‘‘ ساسوں کو یاد دہانی کرواتانظرآیاکہ’’بہوئیں، بیٹیوں سے کم نہیں ہوتیں۔‘‘ چکن تکہ سینڈوچ اور بند کباب بھی سب نے خُوب مزے لے لے کر کھائے اور ’’کچھ توجّہ ادھر بھی‘‘ کیا اچھا سلسلہ ہے۔
صفائی نصف ایمان ہے، سب ہی جانتے ہیں، لیکن فطرتِ انسانی، ’’یاد دہانی‘‘ کی محتاج ہے۔ اور خدانخواستہ کسی حادثے کی صُورت میں خُون کی ضرورت پڑے، تو اگراُس وقت بلڈ گروپ شناختی کارڈ میں درج ہو، تو کئی قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ گُل یا گِل میں نسیم احمد عالم نے بڑی عام غلطی کی طرف اشارہ کیا، لیکن کچھ طوالت کا احساس ہوا اور مزے کی بات یہ کہ اس ضمن میں ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا وہ شعر تو لکھا ہی نہیں، جو بہت اہم تھا کہ ؎ نالے بلبل کے سُنوں اور ہمہ تن گوش رہوں …ہم نوا مَیں بھی کوئی ’’گُل‘‘ ہوں کہ خاموش رہوں۔ سلسلہ ’’نئی کتابیں‘‘اپنی پسند کی کُتب کی تلاش میں بےحد مدد دیتا ہے۔ ’’اِک رشہ، اِک کہانی‘‘ کی کہانیاں بھی عُمدہ تھیں۔ اور اب آتی ہوں، اپنے باغ و بہار صفحے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، جو درحقیقت اس جریدے کی جان ہے کہ یہاں ہم اپنے اپنے دل کی بات بِنا روک ٹوک، وحدتِ تاثیر سے زیب قرطاس کر سکتے ہیں۔ رات بہت بیت چُکی ہے، آنکھوں میں نیند اُتر رہی ہے، مگر قلم ہے کہ کاغذ کا پیٹ بَھرنے سے باز نہیں آ رہا، لیکن کہیں رُکنا تو ہے۔ وہ امجد صاحب نے کیا خُوب کہا تھا ناں ؎ دل کو گواہ کر کے لکھا، جو بھی کچھ لکھا… کاغذ کا پیٹ بَھرنے کو لکھتا نہیں ہوں مَیں۔ (شاہدہ ناصر، گلشنِ اقبال، کراچی)
ج:بہت خوب، شاہدہ جی!! جو کم کم آتے ہیں، وہ جب جب آتے ہیں، ایسے ہی چھا جاتے ہیں۔
گوشہ برقی خطوط
* ہیلتھ اینڈ فٹنس اور اِک رشتہ، اِک کہانی سلسلوں کے لیے تحریریں بھیجی تھیں۔ جلد از جلد شائع کرکے شکریے کا موقع دیں۔ (ڈاکٹر شاہ جہاں کھتری، کراچی)
ج: اگرچہ آپ کی تحریروں کو سدھار کےلیے اچھی خاصی محنت درکار ہوتی ہے۔ اِس کے باوجود جس بھی تحریر میں رتّی بَھر بھی جان ہوتی ہے، باری آنے پر شائع کر ہی دی جاتی ہے۔
* ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ سے متعلق اہم تحریر میں اُس یوم کی تاریخ ہی دکھائی نہیں دی۔ اور میری پچھلی ای میل کو اس قدر بناسنوار کر شائع کرنے کا بےحد شکریہ۔ ’’دہلی نامہ‘‘ کمال ہے۔ دہلی سے متعلق تحریریں اِسی طرح شائع کرتی رہا کریں۔ مجھے آج بھی آپ کے جریدے میں دہلی کی بسنت سے متعلق شائع ہونے والی ایک تحریر اچھی طرح یاد ہے۔ نیز، جن تحریروں میں ضرب الامثال اور محاورات کا زیادہ استعمال ہو، وہ بھی ضرور شائع کیا کریں کہ مجھے ایسی تحریریں بہت فیسینیٹ کرتی ہیں، اگر اس ضمن میں تھوڑی فراخ دلی دکھائیں، تو دل سے ممنون رہوں گا۔ (امیر خان، کراچی)
ج: آپ پتا نہیں، خواتین کے عالمی یوم کی ہسٹری کی بات کررہے ہیں یا ڈیٹ (تاریخ) کی۔ ویسے ہم ہسٹری بھی متعدّد بار شائع کرچُکے ہیں اور تاریخ تو سب کے علم میں ہے ہی، پھر بھی متعلقہ مضامین میں سے ایک آدھ میں تاریخ کا ذکر ضرور آجاتا ہے، تو بار بار تکرار سے دانستہ احتراز کیا جاتا ہے۔
* سنڈے میگزین انتظامیہ کا تہہ دل سے شُکرگزار ہوں کہ میرا آرٹیکل بعنوان ’’گرڈ‘‘ اتنے عُمدہ انداز سے شائع کیا۔ مَیں بخدا آپ کی ایڈیٹنگ کا قائل ہوگیا۔ تحریر کو بہت ہی عُمدگی سے سنوارا گیا۔ بلاشبہ سنڈے میگزین ایک مکمل اور قابلِ تعریف جریدہ ہے۔ لگ بھگ ہر موضوع ہی کسی نہ کسی طبقۂ فلکر کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ خاص طور پر ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ تو ایک بےمثال سلسلہ ہے۔ ہماری دینی معلومات میں اس قدر اضافے کا بے حد شکریہ۔ (ڈاکٹر ایم عارف سکندری، حیدرآباد)
ج:ذرّہ نوازی ہے آپ کی۔ کم ہی لوگوں کو اِس طرح ہماری محنت کی قدر دانی کی توفیق ہوتی ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk