• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سال کے قومی میزانیہ پر سب سے اچھا تبصرہ پاکستان تحریک انصاف کے شعلہ بیان مقرر شاہ محمود قریشی کا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے محنت مشقت کے علاوہ پاکستان کے خیر خواہ عالمی ادارہ کی بھرپور مشاورت سے ایک ایسا میزانیہ پیش کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیر لوگوں کا غریب ملک بہت ہی لاچار اور بے بسی کا شکار ہے۔ جناب اسحاق ڈار بنیادی طور پر اکائونٹینٹ ہیں یہ لوگ اعداد کے حوالے سے ایسا گورکھ دھندہ تیار کرتے ہیں کہ کوئی بھی سرا آپ کے ہاتھ نہیں آتا۔ جب بے نظیر اور میاں صاحب کی جماعتیں انتخاب کے بعد حکومت بنانے کا سوچ رہی تھیں۔ اس زمانہ میں ملک کے صدر جنرل مشرف تھے۔ دونوں جماعتوں نے باہمی مفادات کے تناظر میں اہم فیصلہ کیاکہ مل جل کر حکومت بنائی جائے اور اس پر عمل بھی کچھ عرصہ ہوتا رہا اس وقت جناب اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ کے طور پر مسلم لیگ نواز نے نامزد کیا۔ مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد فریقین بدظن ہوگئے۔اسی زمانے میں آئی ایم ایف کی طرف سے حکومت پاکستان کو شکایت کی گئی کہ جو اعداد و شمار وزارت خزانہ پیش کرتی ہے وہ قابل اعتبارنہیں ہوتے کیونکہ دوسرے ملکی ادارے ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس لئے آئی ایم ایف پاکستان کی پیش کردہ معاشی صورت حال پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں۔ اس عہد میں امریکہ کی نظر عنایت کچھ زیادہ ہی تھی۔ امریکی اور برطانوی دوستوں کی مدد کی وجہ سے آئی ایم ایف نے خاموشی اختیار کرلی۔ معاشی معاملات میں پاکستان کو کافی مسائل کا سامنا تھا اور وہ مسائل اب بھی ہیں۔ ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ انکم ٹیکس کا تھا۔ انکم ٹیکس کی وصولی کے معاملہ میں سرکار سرگرم تو تھی مگر ٹیکس دینے والوں کی تعداد قابل تشویش رہی۔ اس زمانہ میں ملک کو آصف علی زرداری چلا رہے تھے۔ دہشت گردی کی وجہ سے ملکی معیشت بدحالی کا شکار تھی اگرچہ ان کے میاں نواز شریف سے ذاتی تعلقات مثالی تھے مگر سیاسی طور پر میاں نوازشریف کے متوالے پیپلز پارٹی کو ہردم پریشان رکھتے تھے ۔اس سال کے قومی بجٹ میں عوام اور کسانوں کے لئے بہت دعوے نظر آتے ہیں وزارت خزانہ کے ٹھنڈے دفتروں میں بیٹھے بابوئوں کے پاس تجاویز کی کوئی انتہا نہیں۔ تاہم گزشتہ چند سالوں سے زراعت کے معاملات نظر انداز ہورہے تھے زرعی اجناس کی قیمتوں میں مسلسل کمی کسانوں کو پریشان کررہی تھی جبکہ دوسری طرف قومی اسمبلی میں وڈیروں اورسرداروں کی بہتات ہے۔ایسے میں مسلم لیگ نواز کے ممبران اسمبلی ملکی مسائل پر توجہ دیتے نظر نہ آئے پھر نواز سرکار کی پالیسی صوبوں کے بارے میں بڑی غیر یقینی سی رہی۔ پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے اشتہار دوسرے صوبے کے لوگوں کے لئے حیرانی کا باعث بھی بنے۔ بظاہر تو پنجاب میں ترقی کا اتنا شوروغل تھا کہ پنجاب کے عوام حیران تھے کہ ترقی کہاں ہورہی ہے جو ان کے نصیب میں نہیں۔ مہنگائی کا جن سارے پاکستان میں راج کرتا نظر آتا۔ مرکزی سرکار اور صوبائی حکومتوں کا کام فقط دعوے تک محدود رہا۔ پھر آئین کی ترمیموں نے صوبوں کو بااختیار تو بنا دیا۔ مگران سے فیصلہ کی قوت چھین لی۔ اس سے صوبوں کی داخلی خودمختاری کو ضرب لگی۔
حالیہ بجٹ نے قومی معیشت کی زبوں حالی واضح کردی ہے۔ ہمارے اخراجات پر کوئی توجہ نہیں ہے اورآمدنی کے معاملات اندازوں پر قائم ہیں۔ محصولات کی مد میں تبدیلیاں نوکر شاہی کے زرخیز ذہن کی پیداوار لگتی ہیں ملکی کسانوں اور تاجروں سے مشاورت کا فقدان نظر آتا ہے پھر قومی میزانیہ میں چند ایسی تبدیلیاں خاموشی سے کی جارہی ہیں جو ہمارے ملک کے بااثرافراد کے مفادات سے وابستہ نظر آتی ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ نواز حکومت ملک میں کرپشن پر پردہ ڈالنے کو ہی مسائل کا حل خیال کرتی ہے۔ انہوں نے اس معاملہ میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو اپنا ہمنوا بنایا ہے اب سید خورشید شاہ اس سال کے بجٹ پر اپنے لیڈر سابق صدر آصف علی زرداری سے ذاتی حیثیت میں تجاویز لینے کے لئے دبئی جا چکے ہیں۔ آصف زرداری کے خصوصی مشیر سینیٹر رحمان ملک کوشش میں ہیںکہ بجٹ کو جیسے تیسے کر کے منظور کروانے میں میاں نوازشریف کی مدد کی جائے اور پھر پاناما کے معاملہ پر ان سے کوئی سودے بازی ممکن ہوسکے گی۔ اس ساری صورت حال میں جمہوریت پر لوگوں کا اعتماد مزید مشکوک ہوتا جارہا ہے۔بجٹ کے آنے سے پہلے کئی سرکاری حلقوں سے دعوے کیے جارہے تھے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ اس میزانیہ کا بنیادی ہدف ہوگا مگر بجٹ کے اعلان کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میاں نوازشریف کے خزانہ کے لوگ انکم ٹیکس کو ملکی آمدنی کے لئے زیادہ اہم نہیں سمجھتے اور اسی وجہ سے ٹیکس کی وصولی کا ہدف بھی مقرر نہیں کیا جاسکا اور ملکی معیشت میں نئے ٹیکس دینے والوں کی وسیع گنجائش موجود ہونے کے باوجود ٹیکس کے معاملہ کو نظر انداز کیاگیا۔ ہمارے ہاں عام ٹیکس جو روزمرہ کی اشیا پر ہے وہ تمام لوگ دیتے ہیں ایک امیرآدمی اور غریب آدمی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ غریب کی آمدنی اتنی نہیں کہ وہ باقاعدہ ٹیکس نیٹ کا حصہ بن سکے۔ مگر اس کے باوجود سرکار غیر اصولی اور غیر آئینی طریقہ سے ٹیکس لگاتی ہے اور وصول بھی کررہی ہے اور جو لوگ ٹیکس دینے کے لئے تیار ہیں ان کو بھی کوئی رعایت ملتی نظر نہیں آتی۔ وزیر خزانہ صرف اورصرف قرضوں کی معیشت پر یقین رکھتے ہیں جو ملک کے لئے بہت خطرناک ہوسکتی ہے۔اس غیر یقینی کی صورتحال میں وزیراعظم علیل اور علاج کے لئے ملک سے باہر ہیں۔ ملکی معاملات کی نگرانی وزیر خزانہ کے پاس ہے۔ جب بجٹ پیش کیا گیا تو وزیراعظم تو ایوان میں موجود نہ تھے پھر وزیر خزانہ کا رویہ بھی خاصا حیران کن تھا۔ ان کی تقریر میں خود ستائشی اتنی زیادہ تھی کہ ان کی اپنی جماعت کے لوگ حیران تھے کہ وزیر خزانہ کو اس کی کیا ضرورت ہے۔ بجٹ میں کسانوں کے معاملات پر وہ ایوان کی طرف سے تالیوں کے طلب گار بھی نظر آئے مگر ارکان اسمبلی وزیراعظم نوازشریف کی غیرحاضری کی وجہ سے بے چین سے نظر آئے۔ ارکان نے کافی توجہ سے وزیر خزانہ کا بھاشن سنا اور چند دعوئوں پر ان کی تعریف بھی کی۔ مگر سب ارکان اسمبلی کے چہروں پر تشویش مسلسل غالب رہی اور ایوان میں مختلف قسم کی خبروں پر بات چیت نمایاں رہی۔ ایوان کے اسپیکر نے بہت ہی کوشش کی کہ ایوان کا تقدس قائم رہے۔ مگر ممبران کی عدم توجہ نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔ ارکان اسمبلی کے لئے سب سے اہم معاملہ ان کی تنخواہوں کے اضافہ کا تھا جس میں ان کو سرفراز کیا گیا۔اس وقت بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نوازشریف حکومت اور عسکری ادارے ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات پر ہماری وزارت خارجہ اوراس کے بابو حسب روایت نوکر شاہی کے مزاج کا مظاہرہ کررہے ہیں مگر عسکری حلقے امریکی رویے کے خلاف بات کرتے نظر آتے ہیں اور اس سب سے امریکی حکومت کا ایک وفد پاکستان کی شکایات کا جائزہ لینے کے لئے آرہا ہے مگر امریکہ اس خطہ میں نئی تبدیلیوں کا خواہش مند ہے کیا اس کے لئے ہم لوگ تیار ہیں یہ اہم سوال ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ میاں نوازشریف صحت مند ہو کر پہلے تو بیت اللہ جائیں گے اور امید ہے رمضان کا آخری عشرہ وہاں گزاریں گے اوراس کے بعد وہ ملکی سیاست کے بارے میں حیران کن اعلانات بھی کرسکتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم معاملہ کرپشن کا ہوگا۔ مگر اس سے پہلے ان کی کابینہ میں تبدیلی بھی ممکن ہے ان کو بجٹ کو پاس کروانے میں ایک دفعہ پھر آصف زرداری اور ایم کیو ایم کے ساتھ بات کرنی ہوگی۔ ان کے وزیر خزانہ کی خواہشات کا مجموعہ اور مایوسی کی داستان ملکی سیاست میں تبدیلی کرتی نظر آرہی ہے جو کم از کم جمہوریت کے حق میں نہیں ہوگی اور اس وقت جمہوریت ان کے لئے کر بھی کیا سکتی ہے۔
تازہ ترین