• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت ،جس نے دیگر شعبوں میں ترقی کی ہے،وہاں اس کی فلم انڈسٹری ایک جہاں کو حصار میں لئے ہوئے ہے،پاکستان فلم انڈسٹری بھی ایک زمانے میں ملکی معیشت کا ایک حد تک بوجھ اُٹھائے ہوئے تھی،اس زمانے میں پی ٹی وی کے ڈرامے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی مقبول تھے،فلم وڈرامے جہاں لوگوں کو تفریح فراہم کرتے تھے وہاں وہ روزگارکا ذریعہ بھی تھے،سینماہاوسز میں اگرایک طرف لوگوں کو مزدوری ملتی تھی تو دوسری طرف سینماکے آس پاس کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے اپنی حیات کا کاروبار جاری رکھتے،اس زمانے میں فلم دیکھنابڑی عیاشی تھی، عید پر لگنے والی فلموں کیلئے تو ہفتہ دو پہلے ایڈوانس بکنگ کی جاتی تھی،فلم دیکھنے والوں کو اُس وقت مایوسی ہوتی تھی جب وہ سینما کے باہر ہائوس فل کا بورڈ دیکھتے،اب تو گھر گھر لوگ فلمیں دیکھتے ہیں لیکن فلموں کا وہ دور جنرل ضیاصاحب کے ڈنڈے سے ایسے مسلمان ہوگیا کہ اب صرف اُس کی یادیں ہی رہ گئی ہیں،یا پھر اُس دور کے گیت جو آج بھی سنیں تو خودکو جواں جواں سا محسوس کرتے ہوئے ماضی سے وابستہ یادوں کو ٹٹولنے لگتے ہیں ،یہ یادیں اور بھی دکھ اس باعث بھی دیتی ہیں کہ ایک تو عمر رفتہ کاخوف پھرایک عارضہ جسکا نام ہی خوف زدہ کرنے والا ہے لہٰذا نہیں لیتے اور آگے بڑھتے ہیں۔بات گیت سنگیت کی ہورہی تھی ۔گزشتہ شب فلم ناگ منی کا مشہور گیت سننے کا اتفاق ہوا۔تونثار بزمی کی موسیقی اور ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز اپنے حصار میں لینے لگی ’’تن تو پہ واروں من تو پہ واروں۔‘‘اس گیت میں ساز و آواز کا جمال پورے جلال کے ساتھ نمایاں ہے، پھراگر وسعتِ نظر ہو اور خیال کی رعنائیاں جواں ہوں تو اداکارہ رانی کا رقص مسحور کئے بنا کیسے چھوڑ سکتا ہے ! پھر دوسرا گیت بھی کیا لاجواب تھا،وہی آواز وہی موسیقی،وہی فلم ناگ منی۔ ’’من میں اُٹھی نئی ترنگ،ناچے مورا انگ انگ۔‘‘دونوں گیتوں کے خالق حبیب جالب ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے گیت آج بھی تازگی بخشتے ہیں،پھر جہاں حبیب جالب کی انقلابی شاعری ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے وہاں ان کے کلام کا وہ حصہ جو فلمی گیتوں پر مشتمل ہے اگرچہ اُن میں رومانس کا احساسِ حسیں بھی ملتا ہے لیکن ان میں بھی زیادہ تر نغمے انقلابی و عوامی احساسات کی عکاسی کرتے نظرآتے ہیں ۔ فلم ’زرقا‘ اور’ یہ امن‘ کے یادگار گیت حبیب جالب ہی کے قلم کا ورثہ ہیں، یادوں کو تازہ کیجئے، جب فلم زرقا میں خوبرو نیلو زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہوتی ہے اور شہنشاہ غزل مہدی حسن کی آواز درو دیوار کو ٹٹولے جاتی ہے۔’’تُو کہ ناواقفِ آداب غلامی ہے ابھی....رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘اس نظم کا پس منظر بھی تاریخی ہے، سعید پرویز نےاسے اپنی کتاب ’حبیب جالب فن و شخصیت،میں جالب صاحب ہی کی زبانی بیان کیا ہے، جالب صاحب کہتے ہیں’’ریاض شاہد ہمارے بڑے عزیز دوست تھے، ، اداکارہ نیلو اپنے دور کی ایک اچھی رقاصہ تھیں اور ان کو اسی خوبی کی بنا پر اکثر فلموں میں کاسٹ کیا جاتا تھا اس زمانے میں شہنشاہ ایران کے اعزاز میں جنرل ایوب خان نے ایک تقریب رکھی تھی، اس کیلئے نیلو کو تیار رہنے کا کہا گیا ، نیلو کے ریاض شاہد سے تعلقات بن رہے تھے(شادی نہیں ہوئی تھی)ریاض شاہد نہیں چاہتےتھے کہ اس تقریب میں جایا جائے،چنانچہ نیلو بیگم نے حکومت کےاہلکاروں سے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس انکار پرنواب آف کالا باغ کے حکومتی غنڈوں نے نیلو بیگم کو برا بھلا کہا اور طمانچہ بھی مارا، غنڈہ گردی کی انتہا کردی جس پر نیلو نے جواب میں خواب آور گولیاں کھا لیں، جالب صاحب اور ریاض شاہد اسے دیکھنے یونائیٹڈ کرسچن اسپتال گئے جب دونوں اسے دیکھ کر واپس آرہے تھے تو جالب صاحب نے ریاض شاہد سے کہا نیلو بیگم نے بڑا ہی ’’اینٹی امپریلسٹ‘‘ کردار ادا کیا ہے اس نے شہنشاہ ایران کے سامنے جو امریکی سامراج کا اس علاقے میں سب سے بڑا ایس ایچ او ہے، ناچنے سے انکار کر دیا ہے اس پر ایک نظم ہو گئی ہے۔ ریاض شاہد نے کہا سنائو، ’’آج قاتل کی یہ مرضی ہے کہ سرکش لڑکی۔سرِ مقتل تجھے کوڑوں سے نچایا جائے۔دیکھ فریاد نہ کر، سر نہ جھکا، پائوں اُٹھا،کل کو جو لوگ کریں گے تو ابھی سے کر جا....‘‘حقیقت یہ ہے کہ جالب جہاں گئے داستاں چھوڑ آئے، فلم سماج کیلئے استاد مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت اس سچ کا اعلان ہے۔’’یہ اعجاز ہے، حُسنِ آوارگی کا...جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔‘‘ جے اے چشتی کی موسیقی میں مہدی حسن اور نذیر بیگم کا گایا ہوا فلم مس 56کاگیت بھی یادوں کو چھیڑتا نظر آتاہے۔’’یہ چاندنی، یہ سائے،پہلو میں تم ہو میرے،پھر کیوں نہ پیار آئے۔‘‘حبیب جالب نے فلمی میدان میں بھی انقلابی نظریات کی آبیاری کیلئے خونِ جگر ارزاں کئے رکھا۔ مادام نور جہاں کی آواز میں یہ گیت ۔’’کیوں کہیں یہ ستم، آسماں نے کئے،آسماں سے ہمیں کچھ شکایت نہیں،چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے زندگی،چھین لیتے ہیں جب چاہتے ہیں خوشی۔‘‘فلم ’پرائی آگ‘ میں مہدی حسن کا گایاہوا یہ گیت خواجہ خورشید انور کی موسیقی سے مزین ہے۔’’اے شامِ غم بتا کہ سحر کتنی دورہے،آنسو نہیں جہاں، وہ نگر کتنی دور ہے‘‘۔فلم’ گھر پیاراگھر‘میں مجیب عالم نے جالب صاحب کا جو گیت گایا تھا،اُس کی موسیقی نثار بزمی نےترتیب دی تھی بول تھے۔’’بجھے نہ دل، رات کا سفر ہے،یہ نا سمجھ لوگ بے خطا ہیں،ہمارے غم کی کسے خبر ہے‘‘۔کہا جاتا ہے کہ حبیب جالب نےتین سو فلمی گیت لکھے، ان میں اکثر بہت مقبول ہوئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین